بابا کا خون ضرور رنگ لائے گا – لیاقت بلوچ

571

بابا کا خون ضرور رنگ لائے گا

تحریر: لیاقت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شاید میں اس درد اور احساس کو بیاں نہیں کرسکوں جو میرے دل میں آگ کی طرح بڑھک رہی ہے، میرے دل میں میرے احساس اور درد مجھے ہر وقت جگاتے ہیں، یہ دردمیرے خوابوں تک میں آتے ہیں، درد سہنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کی ہوائیں درد سے بھری ہیں۔ ہر وقت آگ کے شعلے دل میں لگتے ہیں، میں اپنے احساسوں کو خود جگانا چاہتا ہوں تاکہ وہ مجھے کبھی آرام کرنے نہ دیں، ایک گھر سے اگر ایک بندہ شہید یا بیگواہ ہوجائے، تو اسکا درد، انکے گھروالوں سے پوچھو، باتوں میں نہیں آنسوؤں میں جواب دیتے ہیں۔ آج بلوچستان میں تو ہر ایک گھر سے تین تین شہیدوں کے لاشیں اٹھائے جاتے ہیں، وہاں درد کا احساس کتنا ہوگا، کوئی سوچ نہیں سکتا۔

میں اپنے خوابوں اور احساسات کا مالک اپنے منزل کو سمجھتاہوں، میں درد سہنے کیلئے تیار ہوں لیکن میرے درد کا ایک مقصد ہو، آج بلوچستان میں ہر ایک معصوم بچے کو وہی سزا ملتی ہے، جو ایک جہد کار کو ملتی ہے، کیونکہ بلوچستان میں ہر بلوچ بچہ ایک آواز اور ایک نئی سوچ ہے، جو ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آکر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے۔ ریاست اپنا آخری طاقت جب استعمال کرتا ہے، تب اسے شکست دروازے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن اس وقت طاقت کچھ نہیں کرسکتا۔

دشمن دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ہم بلوچستان میں تعلیم اور امن کیلئے کام کررہے ہیں لیکن میں ان سے یہی پوچھتا رہونگا کہ وہی آرمی والے جو بلوچستان میں اپنے قبضے کو مظبوط کرنے کیلئے شام اور دن آوارہ کتوں کے جیسے بلوچستان کی سرزمین پر گھومتے ہیں، رات کو پوری نیند سے آرام دہ بلوچوں کو مار کر کئیوں کو گھسیٹ کر لے جاتے ہیں، کچھ کو پیاروں کے سامنے شہید کرتے ہیں، اسی ترقی اور امن کیلئے آئے ہیں؟ ہمیں نہ پاکستان کہ ضرورت ہے، نہ انکی امن کی، ہمیں اپنا امن، تعلیم، اپنا ملک خود بحال کرنے دیں، ہم خود ایک آزاد ریاست کی حیثیت موجود تھے لیکن یہی پاکستان آکر ہم پر مسلط ہوا. بلوچستان پر قبضے کے خلاف بغاوت جاری ہے، تب سے لیکر آج تک ریاست کبھی ترقی کی طرف نہیں بڑھی، پاکستان کون ہے بلوچوں نے انگریزوں کو بھاگنے پر مجبور کیا، اسی طرح پاکستان بھی ہوگا۔

درد کو محسوس کرنے کیلئے درد کی ضرورت پڑتی ہے، آج دردِ محشر پوچھ، ماہ وش اور چراغ سے کہ وہ ایک کیسی زندگی گذار رہے ہیں، وہ ابھی غم کی لہروں میں اترے ہیں، ان کی خوشی ہمیشہ کیلئے آزاد ہواؤں میں خون کی بو جیسے پھیلا دیا گیا، وہی خون جو ایک ایسے پہاڑی میں بہی، جہاں صدیوں سے کسی نے خون نہیں بہایا تھا۔ آج وہاں چار جوانوں کے خون کی خوشبو نے پرندوں پر ایک ایسا اثر ڈالا ہے کہ وہ جتنا بھی دور اڑیں لیکن واپس وہی آتے ہیں، پرندے بھی انقلابیوں کے خون کے خوشبو سے متاثر ہیں. میرا تحریر شہید بابا خیر بخش ناز عرف بابا گہرام ناز کی بارے میں ہے۔

بلوچستان میں آواران ان شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں جنگی حالت نے کئی نظریاتی ساتھی پیدا کیئے۔ جنہوں نے اپنے غلامی کی زندگی سے بہتر جدوجہد اور موت کو سمجھا اور اپنے مادر وطن کیلئے اپنا سرکٹا کے اپنے ملک کا نام روشن کرنے کیلئے نکلے ہیں۔ ان میں بابا گہرام بھی شامل تھے، جنہوں اپنی انفرادی زندگی سے قومی زندگی یعنی کہ اپنی ہر چیز کو اپنی قوم کیلئے قربان کردیا.

بابا نے اپنی آخری سانس اور خون کی بوندوں کو بھی اسی سرزمین کے نام کردیا کہ یہاں میرے بعد انقلاب رنگ لائے. شہید بابا جان بزداد کے علاقے گیشتری میں پیدا ہوا، وہیں آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی. آپ شہید مبارک، شہید تلا، شہید رضا جہانگیر کے قریبی رشتہ دار تھے، آپ نے خود میں اور اپنے ماحول میں ایک انقلاب برپا کیا. میٹرک آواران سے کیا اور بعد میں FA کیا اور ایک Exchange operator ماہر بھی رہ چکے ہیں. 2005 سے لیکر 2007 تک بی ایس او آزاد میں کام کرتا رہے، لیکن بعد میں 2007 میں بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کرلی. 2007 سے لیک 2018تک وہ مکران پنجگور اور آواران میں اپنی جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے بطور ایک جنگی کمانڈر کے حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ، جنگیان جان، واحد جان، پٹاں جان کے ساتھ مکّی میں دشمن سے دوبد لڑائی میں شہید ہوئے..