اھد تمیمی رہا، زرینہ ابتک پابند سلاسل؟
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عقل و بلوغت کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے، ہمیں اپنے ارد گرد ہمیشہ اپنے معاشرے کے ایک طبقے جسے “ملا” کہتے ہیں، جمعے کے روز ہمیشہ ان کے لب پر یہی کلماتِ دعائیہ سننے کو ملے کہ “اے اللہ اسرائیل کو نیست و نابود کر کہ وہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے بادل برسا رہا ہیں” بازار کے گلی کوچوں میں نکلی ریلیاں بڑے شہروں میں ٹھاٹیں مارتی ہوئی انسانی سمندر جنہیں سیاہ و سفید رنگ کے زیبرا جھنڈوں والے حضرات کی کمان پر ہمیشہ اخبارات کے زینت بنتے دیکھا، اس خبر کو بھی پڑھا کہ فلاں شہر میں اسرائیل کے خلاف فلسطین پر ظلم و بربریت پر مظاہرہ نکلا ہے یا جلوس ہورہا ہے. لیکن زرینہ مری کو دہائیاں بیت گئیں وہ ابھی تک لاپتہ ہیں، نہیں معلوم کہ سفاک فورسز کی سفاکیت کا وہ کتنی بار شکار ہوئی ہیں، لیکن مجال کہ کوئی “ملا” اپنے خطبے میں ان کی آبرو ریزی کے خلاف چند کلمات بولے؟
میں آج موازنہ کرنا چاہتا ہوں، فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی اور اپنے ہاں بلوچ ماؤں بہنوں کی عصمت دری اور گمشدگی کا۔
امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے حقوق کے لئے کامیاب تحریک چلانے والے بیسویں صدی کے ایک عظیم انسان مارٹن لوتھر کنگ کا ایک قول ہے، “ناانصافی کہیں بھی ہو یہ ہر جگہ انصاف کے لئے خطرہ ہے”
یقیناً آج جس ناانصافی کا شکار “بلوچ” قوم ہے اور اس کے برعکس عالمی اداروں کی خاموشی چند سوالات جنم دیتا ہے لیکن کیا کریں ہم میں بھی تو کچھ خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ہماری آواز میں دبدبہ تو نہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے میری نظروں کے سامنے دو خبریں گردش کررہی ہیں ایک وہ جو میں دیکھ رہا ہوں کہ “اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتی لڑکی، جس کا نام اھد تمیمی ہے آٹھ مہینے کی جیل کاٹ کر باعزت طریقے سے رہا ہورہی ہے اور عالمی میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب وہ خبر ہے کہ 22جولائی کو بلوچستان کے علاقے مشکے آلنگی میں ایک ہی فیملی کی تین عورتوں نور ملک، سمینہ اور حسینہ کو فورسز اغواء کرچکی ہے، اور دس دن گذرنے کے باوجود وہ لاپتہ ہیں لیکن عالمی میڈیا اپنی جگہ ہمارے اپنے زبان پر تالے لگے ہیں، نا ہم خود بولتے ہیں اور نا ہی اپنے ملاؤں کے خطبے میں اس بارے میں سننے کو ملتا ہے۔
اھد تمیمی ہیں کون؟ اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جانے والی سترہ سالہ فلسطینی لڑکی الاحد التمیمی کو آٹھ ماہ کی قید کے بعد 29 جولائی 2018 کو رہا کر دیا گیا. یہ 15دسمبر 2017 کا دن تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے دوپہر کے تین بجے غرب اردن کے نبی صالح علاقے میں سولہ سال کی احد التمیمی کے گھر پر چھاپہ مارا تو احد نے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ جھگڑنا شروع کیا اور ان کی ماں اس کی ویڈیو بنانے لگی۔ اس دوران احد نے ایک فوجی کو دھکا دیا اور دوسرے کو زوردار تھپڑ رسید کر دیا. احد کو فلسطینی 2012 سے ایک ہیرو کے طور پر جانتے ہیں، جب اس کو پہلی بار 11 سال کی عمر میں ویڈیو میں ایک اسرائیلی فوجی کو اپنے بڑے بھائی کی گرفتاری کے وقت مکے سے ڈراتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اب گرفتاری اور مہینوں بعد جیل سے رہائی نے احد کو اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک مزاحمت کی علامت کے طور پر پہچان دلائی ہے اور رہائی کے بعد فلسطینیوں کے ایک جم غفیر کی شکل میں اس کے والدین اسے لینے گئے.
میں نے خود کئی بار ان ویڈیوز میں اھد تمیمی کو اسرائیلی فوجیوں کو للکارتے ہوئے دیکھا لیکن پھربھی ان کی باعزت رہائی دوسری جانب بائیس ہزار سے زائد بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں اور کئیوں کو تو شہید کیا جاچکا ہے کئیوں کو ان کے ماؤں بہنوں بیویوں کے سامنے اٹھایا جاچکا ہے لیکن ہمارے ضعیف و نعیف عورتوں نے کبھی بھی فورسز کو نہیں مارا کیونکہ وہ تھے بے بس لیکن اس کے باوجود آج وہ لاپتہ کئے جارہے ہیں، صرف اس لیئے کہ “بلوچ مزاحمت ” کا راستہ روکا جاسکے؟
کہاں ہیں انسانیت کے علمبردار جو تفریق کرتے نہیں تھکتے، ایک جانب ایک نہتی لڑکی اھد تمیمی ہیں، جس کے لیئے سارا عالم صدائے احتجاج میں مبتلا تھا اور دوسری جانب زرینہ، حسینہ، سمینہ، نور ملک ہیں جو ابھی تک لاپتہ ہیں، پر کوئی صدا ہی نہیں جو کانوں تک پہنچے. وہ بات اور ہے کہ ہم نے اس بے بس و لاچار عورت کا ذکر ہی نہیں کیا، جسے حاملہ حالت میں تشدد کا نشانہ بنا کر ان کا بچہ ضائع کیا گیا. کیا بلوچ دنیا کا وہ بے بس شئے ہے جو اس ظلم و جبر کا شکار رہ کر اس خطے سے مٹ جائے؟ اگر نہیں تو عالمی اداروں سمیت بلوچ لیڈران اور باقی مکتبہِ افکار کے لوگوں کے ہاں کوئی حکمت عملی نہیں تو کیوں نہیں؟ کب اسی طرح چاروں سوں خاموشی کے بادل منڈلاتے رہیں گے اور ہماری مائیں، بہنیں، بیویاں لاپتہ ہوتے رہینگے، یہ وہ سوال ہے جب انسان زندہ ہے، زہنوں میں اٹھتی چلے گی تاوقتیکہ کہ جواب نا مل جائے.