ایک ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ پرائیویٹ کمپنی کو دینے کی تجویز پیش کی ہے جس پر اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے جب کہ کئی عہدے دار اس تجویز کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں۔
پرنس افغانستان میں امریکی جنگ کا ٹھیکہ لینے کی اپنی تجویز کو میڈیا مہم کی مدد سے آگے بڑھا رہا ہے جس میں امریکی صدر کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ افغان جنگ کسی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کے سپرد کرنے سے امریکی فوج پر دباؤ کم ہو جائے گا اور حکومت کو بھی اخراجات میں بڑے پیمانے پر بچت ہو گی۔
پرنس نے اپنے اس منصوبے کی وضاحت انگریزی اور دری زبانوں کی ویڈیوز پر مشتمل اپنی میڈیا مہم میں کی ہے۔
پرنس کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی افغان فوج کی تربیت کا کردار سنبھال سکتی ہے۔
ایرک پر نس امریکی بحری فوج کے ایک سابق عہدے دار ہیں ۔ انہوں نے بلیک واٹر کے نام سے ایک سیکیورٹی کمپنی قائم کی تھی جسے عراق میں سیکیورٹی کا کنٹریکٹ ملا تھا۔ تاہم بعدا زاں بلیک واٹر کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا ۔ جس کے بعد پرنس نے بلیک واٹر کمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی کمپنی قائم کر لی۔
پرنس نے افغان جنگ نجی شعبے کو دینے کا اپنا منصوبہ پچھلے سال پہلی بار پیش کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ نے پچھلے سال افغانستان حکمت عملی کے جائزے کے دوران اس تجویز پر غور کیا تھا تاہم یہ منصوبہ واشنگٹن اور کابل کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
نئی افغان حکمت عملی کا ایک سال مکمل ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ ایرک پرنس کو امید ہے کہ اس بار ان کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔
این بی سی نیوز نے پچھلے ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ پرنس کی نئی ویڈیو سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور نیوی سیل کے سابق عہدے دار کے منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
اگر پرنس افغان جنگ کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ نسبتاً کم تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی اہل کار لے لیں گے جنہیں 90 طیاروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ایئر فورس کی مدد حاصل ہو گی۔
پرنس کا کہنا ہے کہ ان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی امریکہ کی افغانستان حکمت عملی کو آگے بڑھائے گی اور پرنس کے بقول ان کی کمپنی افغانستان میں امریکہ کے ایک وائسرائے کے طور پر کام کرے گی۔
پنٹاگان کے مطابق امریکہ اس وقت أفغانستان میں ہر سال تقریباً 45 ارب ڈالر صرف کر رہا ہے۔ ایرک پرنس کا دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی یہ کام 10 ارب ڈالر سے بھی کم میں کر سکتی ہے۔ تاہم کئی تجزیہ کار اس دعویٰ کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے ذمہ داری کے تعین اور جواہدہی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے عراق اور افغانستان میں بلیک واٹر کے اہل کاروں کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات کی شکل میں پیش آ چکے ہیں۔
افغانستان کی حکومت اور عوام جنگ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے اس منصوبے کے مخالف ہیں۔
افغان صدر کے ترجمان ہارون چخان سوری نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ کی ذمہ داری ایک پرائیویٹ کمپنی کو دینے سے شہری ہلاکتوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ انہوں نے اس منصوبے کو صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کی حکمت عملی کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔