اجتماعی فکر – شہیک بلوچ

179

اجتماعی فکر

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اجتماعی فکر کے دعوے اور عمل میں انفرادی ترجیحات اور خواہشات کے مطابق توقعات رکھتے ہوئے، جب ہم تاریخی عمل سے دور نکل جاتے ہیں، تب ہمارا وجود ایک بھٹکے ہوئے جاندار سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ جو بے سروسامانی میں فقط اپنی بقاء کے لیئے پھرتا رہتا ہے، لیکن ایسا جاندار کسی صورت انسانی اجتماعی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ چناؤ اس کا اپنا ہوتا ہے اور یونہی اجتماعی فکر سے دور چلتے چلتے وہ سیاسی شور و غل میں کھو جاتا ہے اور اپنی انقلابی شناخت کو پانے سے پہلے ہی کھو دیتا ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مایوسی کا شکار ہوکر جدوجہد سے دور کہیں نوآبادیاتی فریم ورک میں نوآبادیاتی نمائندوں کے ساتھ مل کر راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ کسی انقلابی کا شیوہ نہیں جو جدوجہد پر یقین رکھتا ہو، جو نیشنلزم کے نظریئے سے لیس ہوکر اجتماعی فکر کا حامل ہو اور جدوجہد کو منظم و مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہو۔

نوآبادیاتی دنیا میں دیسی کا کردار اس کا اپنا طے کردہ نہیں ہوتا اور اسی لیئے جن نفسیاتی حرکتوں پر وہ مشتمل ہوتا ہے، اس کی ذہن سازی نوآبادکار اور اس کے مقامی نمائندے کرتے ہیں لیکن ابتدائی مرحلے میں مزاحمتی تحریک رکاوٹ بنتی ہے اور آگے چل کر متبادل بیانیئے کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ ہم آج جب اس سطح پر پہنچ چکے ہیں، جہاں مزاحمتی تحریک کو متبادل بیانیئے کے قالب میں ڈھالنے کا تقاضہ ہے، تو ایسے میں اجتماعی فکر کا فقدان ہمیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے اور آج بلوچ لیڈرشپ تاریخی عمل سے بھٹک چکی ہے۔

آج جن شدید تضادات نے سر اٹھایا ہے وہ اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ اب مزید پرانے سوچ اور پرانے طریقہ کار کیساتھ آگے پیش رفت ممکن نہیں بلکہ اب تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، جہاں مزاحمتی فکر وقت و حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہورہا ہے اور اجتماعی فکر کو عملی طور پر اپنانا اب ناگزیر ہوچکا ہے، کیونکہ انفرادی کوششیں یا خواہشات ابتدائی مراحل میں اپنی جگہ لیکن آج ان کے لیئے کسی قسم کی گنجائش باقی نہیں، وقت و حالات کی دھارا میں مقداری تبدیلیوں کے بطن سے معیاری تبدیلیوں کا جنم ہوتا ہے اور اس کو تسلیم کرنا ہی ایک انقلابی کا شیوہ ہے، تحریک کی کیمیائی حرکیات کو سمجھتے ہوئے اس جست کی ضرورت ہے، جہاں تحریک کو اداروں کے حوالے کیا جائے تاکہ تحریک وقت کے تقاضوں کے تحت چل سکے۔

انفرادی یا گروہی سطح پر ہم صرف بھٹک ہی سکتے ہیں اور بھٹکنے والے خود کو فکری طور پر منظم کرنے کی سکت سے محروم ہوتے ہیں، وہ کسی تحریک کو کیا متبادل بیانیئے کے سانچے میں ڈھالیں گے؟

آج اگر ہر ایک اپنی جگہ خود کو درست قرار دے رہا ہے، تو یہ ذہنی مشت زنی کی حد تک ٹھیک ہے لیکن عملی طور پر نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی شکنجوں نے ہمیں اپاہج کردیا ہے اور ان سے متاثر ہمارے سیاسی کلچر کا رنگ نواز، زرداری و عمران خان سے کسی صورت مختلف نہیں کیونکہ یہ تاریخ کا واضح سبق ہے کہ دیسی اپنے نوآبادکار سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی مسخ شدہ نقالی بن کر اپنی جڑوں کو کمزور کرتا ہے۔

اجتماعی فکر کے حوالے سے بقول بابا مری ” کوئی 500 سال پرانا سوچ رکھتا ہے، تو کوئی جدید، کافی انتہائیں موجود ہیں، ایسے میں دوریاں زیادہ ہونگی اور تکالیف بھی بڑھیں گے۔”

ہر کسی نے اپنا ایک مخصوص و محدود پیمانہ بنا لیا ہے کہ میری سوچ پر سب کچھ تمام ہوجاتا ہے لیکن یہی وہ رویئے ہیں جو تمام مسائل کا بنیادی سبب ہیں، جو حل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اجتماعی فکر کی جانب بڑھتے ہوئے تحریک کو متبادل بیانیئے کی بنیادیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سب کا تاریخی فریضہ ہے کہ ہم ان بلوچ جہدکاروں کے اجتماعی فکر کی حمایت کریں جو تحریک میں ادارہ سازی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور بلوچ لیڈر شپ بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اجتماعی فکر کی راہ کو ہموار کریں کیونکہ ان کے بھٹکنے سے نقصان تحریک کا ہوا ہے اور اگر وہ اپنے تاریخی فرائض کو سرانجام دینے میں ناکام ہوتے ہیں، تو تاریخ یہ ذمہ داری کل کسی اور کو دیگی کیونکہ نا ہی تاریخ کا پہیہ رکتا ہے اور نا ہی تاریخی عمل کسی سے رعایت کرتا ہے بلکہ مستقبل انہی کا ہوتا ہے جو حال میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے ہیں۔