ابھی کرنے کیلئے بڑا کام ہے
تحریر: جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی انقلابی کیلئے مایوس ہونا کفر کے مانند ہوتا ہے، بلکل میں بھی اسی فلسفے کو من و عن تسلیم کرتا ہوں۔ کیونکہ انقلابی اکثر پر امید رہتے ہیں۔ اگر کسی نہ کسی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو اس مایوسی کو، انقلابی دوستوں کو یاد کرکے دور کیا جائے، جو راہ حق آزادی میں شہادت کا رتبہ حاصل کرچکے ہیں۔
یقیناً وہ مایوسی اسی جگہ پر دم توڑ سکتا ہے، مگر مایوسی کیسے پیدا ہوتا ہے اور کیوں؟ مایوس لوگ ہوتے ہیں، جو احساس کمتری میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔ کیوںکہ وہ لوگ اکثر یہ سوچتے ہیں، میں دوسروں سے کمتر ہوں، اسی کشمکش میں ڈوبا ہوا اکثر وہ کسی بھی چیز سے مات کھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ان الجھنوں سے خود کو آزاد کرنے میں ناکام ہوتا ہے، جن کا کوئی خاص وجود نہیں ہوتا۔
کسی بھی مقصد کو عقیدے کی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہیئے وگرنہ مقصد ضرور ہوتا ہے، مگر اس کیلئے جان فدا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ابھی کرنے کے لیئے بڑا کام ہے۔ ایک دل کو سکون اور اطمینان بخشنے والا کام، ایک ایسا کام جو واقعی آپ کے ضمیر کے مطابق ہے، ایک ایسا مقصد جو اعلیٰ سے اعلیٰ انسان اور زبردست صاحب نظر میں بھی جوش و ولولہ اور امنگ پیدا کرسکتا ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے۔آپ کیلئے صرف دو راستے کھلے ہیں، یا تو آپ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر کی آواز یعنی ضمیر کو دھوکے میں ڈال کر آخر میں یوں کہیں گے کہ” جب تک میں یہ تمام عیش و عشرت مزے سے حاصل کررہا ہوں اور جب تک عام لوگ اتنے بیوقوف ہیں کہ ہماری راہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ ڈال سکیں، اس وقت تک بنی نوع انسان کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم اور اس کہ آہ وبکا باڑ میں جائے” لیکن اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر آپ سماج کے ساتھ مل جائیں گے اور ان سے مل کر موجودہ سماج کو بنیادوں سے تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت تک ہم نے جتنی بھی تحقیق کی ہے، اس سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہر فراست رکھنے والا انسان جو اپنے اطراف کی حالات کا اچھی طرح اندازہ لگاتا ہے اور جو فرسودہ بورژوا تعلیمات سے پیدا ہونے والے عقائد اور اس کی پیروی کرنے والے دوستوں رشتے داروں کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا وہ ضرور اسی دانشمدانہ نتیجے پر ہی پہنچے گا۔