آہ سرفروش ریحان – جلال بلوچ

291

آہ سرفروش ریحان

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

وہ دل جس کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتا ہے، وہ دماغ کا وہی حصہ ہے، جو بطور دل محسوس ہوتا ہے۔ دل ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں، مگر انسانی دل جو سوچتا ہے وہ نہیں بدلتا۔ لہٰذا سخن وری میں جسے دل کہا جاتا ہے، وہ دماغ کا ہی حصہ ہے اور خون پمپ کرنے والا عضو دراصل وہ والا دل نہیں کہ جسے ادب و حساسیات کی دنیا میں دل کہا جاتا ہے۔عقل کیا ہے؟ شعور کیا ہے؟ یہ جو میں ہوں، یہ کیا ہوں؟ یہ جو میں خود کو محسوس کرتا ہوں، یہ میں جسم کو محسوس کرتا ہوں یا روح کو.. اگر روح کو محسوس کرتا ہوں، تو جسم کس شے کے تابع ہے؟ اگر جسم کو محسوس کرتا ہوں تو روح کس شے کے تابع ہے؟

یہ سب سوچنے کیلئے سب سے پہلے خود کو جاننا ہوتا ہے، آخر میں خود کیا ہوں؟ سب سے پہلے جب سے ہر کسی نے ہوش سنبھالا ہے بلوچ قوم کا خطاب دیا گیا ہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہوتا گیا، کچھ غلط سوچ و فہم، دماغ کے اندر ڈالے گئے کہ پتہ نہیں کیا ہوں، کس قبیلے سے ہوں۔ ایسے گندے رجحانات دماغ کے اندر ٹھونس دیئے گئے، یقیناً یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا ہے، یہ سب بلوچوں کے ساتھ ہوا ہے۔

مگر جب شعوری طور پر خود سوچنے کی اہلیت رکھا، تو حقیقت میں پتہ چلا میرا کوئی حثیت کوئی وجود نہیں، میں صرف اور صرف ایک غلام قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔ جسے بلوچ کہا جاتا ہے ایک بلوچ اور ایک غلام کی حیثیت سے زندگی بسر کررہا ہوں۔ مجھے بذات خود لفظ فدائی سے انتہائی نفرت رہا ہے کہ کیسے اپنے ساتھ لوگوں کو اڑایا جاتا ہے، میں اسے ایک جہالت سمجھتا تھا۔ کیونکہ میں نے اکثر مذہبی شدت پسندی کے بارے میں سنا تھا اور اکثر ایسی کتابوں سے پالا پڑا ہے کہ وہ لفظ فدا کی تشریح تو کرچکے ہیں، مگر اس فدائین حملہ آوروں کہ بارے میں نہیں لکھا یا کہا گیا ہے، جو اپنے جان کو فنا کرتے ہیں۔ بس اتنا بتا کر مطمیئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں، یہ عام لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ میں مذہب یا مذہبی شدت پسندی کے حق میں بالکل نہیں ہوں نا کہ ہونا چاہتا ہوں۔

جیسے کہ ہم اپنے خطے کہ بارے میں بات کریں، یقیناً ایسے ہی رجحانات ہم کو دیکھنے میں ملتے ہیں، تو اس معاشرے میں سوچ،عقل اور شعور کی سطح بلکل اسی طرح ہی ہوگا، جیسے ہمیں بتایا گیا ہے۔

لیکن اگر دنیا کی تاریخ پر غور کیا جائے، تو یقیناً فدائین حملہ آور اکثر و بیشتر مثبت عمل کیلئے خود کو فنا کرتے ہیں۔ جیسا کہ جاپان میں اپنے وطن کی دفاع کیلئے جاپانیوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے دشمن پر فدائین حملے کرکے دشمن کو کافی نقصان پہنچائے۔ اسی طرح تامل ناڈو کی تحریک میں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان مردوں اور عورتوں نے اپنے دشمن پر فدائین حملے کیئے۔

لفظ فدائین فدا سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں، کسی خاص مقصد کیلئے جان قربان کرنا۔ تو خاص مقصد ہے اس سے میں آپ اور ہر با شعور بلوچ سمت دنیا بخوبی آگاہ ہے کہ یہ جنگ ایک آزادی کی جنگ ہے، اس سے بڑا مقصد دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔ غلامی سے آزاد ہونے کیلئے ہر انسان ہر جانور،چرند،پرند دوڑ و دھوپ کرتے ہوئے زمین پر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
اس وقت جب بلوچ نوجوان میں سے پہلا فدائی حملہ 70 کی دہائی میں ہوا تھا، شاہد مجھ سمت کئی بلوچ نوجوان اس دنیا میں وجود نہیں رکھتے تھے۔ کچھ پتہ نہیں کیا کیفیت ہوتا ہے اس جنون میں کہ بلوچ نوجوان اب اس کیلئے کثرت سے تیار ہیں۔

لیکن 2011۔30 دسمبر کو جب کالج پڑھنے کیلئے موجود تھا اور شام کو ہاسٹل کے چھت پر بیٹھ کر اپنے مجلس میں مگن تھے، تو اچانک ایک ذوردار دھماکے سے پورا ہاسٹل لرز اٹھا۔ جس سے خوف کے مارے سب اپنے کمروں میں چلے گئے۔ کمرے میں جاتے وقت موبائل پر میسج رسیو ہوا۔ جس پر لکھا تھا ارباب کرم روڈ پر واقع شفیق مینگل کے گھر پر دھماکہ ہوا ہے، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اور کچھ دیر بعد میسج آیا کہ اس حملے کو بی ایل اے کے مجید برگیڈ فدائی حملہ آور “باز خان” عرف درویش بلوچ نے کیا ہے۔ یہ خبر سن کر میں بہت پریشانی کے ساتھ غصے میں رہا یہ کیا ہورہا ہے، بلوچ مزاحمت کار بھی مذہبی شدت پسندوں کی طرح خودکش حملہ کرتے ہیں۔ مگر کمرے میں ساتھ والے روم میٹ نے اس معاملے کی تشریح کرکے مجھے بتایا کہ وہ خودکش تھے، انہیں کچھ خاص مقصد نہیں ہوتا یہ فدائین ہیں یہ خاص مقصد رکھتے ہیں۔ تو عقل ٹھکانے آگیا کہ واقعی عشق وطن اسی کو کہتے ہیں جو موت کی پرواہ کیئے بغیر دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

شہید درویش کے بعد سنگت شہید ہورہے تھے، کچھ سنگت اغوا ہوچکے تھے، شہیدوں کی شہادت حوصلوں کو ایندھن فراہم کرتا رہا، مایوسیاں دور ہوتے گئے، دشمن کے خلاف جنگ میں شدت لانے کی کوشش کی۔ امیر جان ، صدام،علی سلیمان،جاوید، میرل ، دلجان و بارگ جیسے انمول ہیرے گنوائے بلوچستان بھر میں دشمن فوج کو بری طرح شکست سے دوچار کیا گیا۔ مگر نیوز صرف بلوچتسان اور دوشمن پاکستان کے نیوز کمروں تک کا نیوز تھا۔ ہم تو سوچ چکے تھے کہ درویش کے بعد اور کوئی نہیں ہے جو خود کو فنا کرے مادر وطن کیلئے، سب ہمارے جیسے ڈرپوک ہیں۔ مگر ہمارے اندازے غلط نکلے بلوچستان کے سرزمین میں درویش کل بھی تھا اور آج بھی بہت سے ریحان موجود ہیں۔ جو دشمن کو تباہ و برباد کرنے کیلئے سرفروش بن کر بیٹھے ہیں۔

درویش کے بعد بلوچ تاریخ میں 11 اگست 2018 آخری بلوچ تک کو یاد رہے گا، اس میں ایک ایسے نوجوان ریحان بلوچ نے دشمن کے اقتصادی نظام کو ہلا کر رکھا دیا، جو خود بلوچ لبریشن آرمی کے سینیئر کمانڈر کے بڑے بیٹے تھے۔

اگر کوئی کہے یہ جنگ ذاتی آسائش کی وجہ سے لڑی جارہی ہے، تو یہ ایک واضح مثال ہے، جو باپ اپنے بیٹے کے سر کو چوم کر خود فدائی حملے کیلئے روانہ کررہا ہے۔ میرے نزدیک کوئی ایسا ماں، باپ نہیں جو اپنے بچے کو خود گلے لگا کر فدائی کیلئے روانہ کریں۔ یہ صرف اور صرف شعوری،فکری و نظریاتی لوگ کرسکتے ہیں، ایسے قربانی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ سب کو پتہ ہے یہ کوئی آسان کام نہیں۔

ریحان بھی آسائش کی زندگی بسر کرسکتا تھا، اچھے سکول،کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ سکتا تھا، مگر ایک شعوری فیصلے نے اسے تمام کتابوں سے اونچا درجہ دے دیا۔ یقیناً وہ بھی اسی فلسفے پر قائم ہوگا کہ میں تو ایسے ہی فنا ہوجاونگا مگر میں اپنے آنے والے نسلوں کیلئے ضرور ایک روشن صبح کی کرن ثابت ہوں گا۔ ریحان آپ تو امر ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ مجھ جیسے نکموں کو گہری نیند سے جگا کر فنا ہوئے۔