گوریلا جنگ کے اصول – لطیف بلوچ

1693

گوریلا جنگ کے اصول

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گوریلا (چھاپہ مار) جنگ میں چھپ کر چھوٹے چھوٹے گروہ کی شکل اختیار کرکے دشمن کے خلاف لڑا جاتا ہے، گھات لگا کر حملہ کیا جاتا ہے، جنگی مہارت و گوریلا حکمت عملی کے تحت دشمن پر حملے کی جگہ، وقت اور حکمت عملیوں کا تعین گوریلا کمانڈر کرتا ہے اور اپنے موثر جنگی مہارت کے تحت دشمن پر حملہ آوار ہوکر دشمن کو جانی و مالی نقصان پہنچا کر بآسانی غائب ہوجاتے ہیں، گوریلا ایک عام سی زندگی گذارتا ہے، وہ اگر کہیں دشمن پر حملہ آوار ہوتا ہے، تو دوسرے ہی سانس میں وہ ایک عام شہری کا روپ دھار کر کسی دکان پر کام کررہا ہوتا ہے، کسی کھیت میں کھیتی باڑی کررہا ہوتا ہے، روز مرہ کا کام نمٹا رہا ہوتا ہے، اس لئے اس جنگ کو روکنا کسی ریگولر آرمی کے بس میں نہیں ہے کیونکہ روایتی جنگ اور گوریلا جنگ میں زمین، آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

دشمن کو گوریلاوں کا کوئی مخصوص ٹارگٹ اور ٹھکانہ معلوم نہیں ہوتا، جبکہ کسی گوریلا کو اپنے ٹارگٹ اور دشمن کے ٹھکانے کا بخوبی علم ہوتا ہے، وہ اپنے محدود وسائل میں رہ کر اپنے کامیاب حکمت عملی کے تحت دشمن پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، عوام اور سماج میں جذب ہوجاتا ہے، گوریلا جنگ میں سے سب زیادہ موثر ہتھیار بروقت حکمت عملی ہوتی ہے، محدود وسائل اور کم افرادی قوت کے ذریعے اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقت ور، باوسائل اور افرادی قوت رکھنے والے دشمن پر حملہ آور ہوکر اُس کے طاقت کو توڑ دیتے ہیں اور اُنکے قافلوں، چوکیوں، چھاؤنیوں، مخبروں اور دیگر تنصیبات کو نشانہ بناکر طاقتور فوج اور دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان دے کر، اُنکے حوصلے پست کرتے ہیں اور دشمن کو نفسیاتی طور پر بھی شکست دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس کے علاوہ وہ علاقائی جغرافیایہ اور علاقے کے داخلی و خارجی راستوں سے بھی بخوبی واقفت رکھتا ہے، عام لوگوں میں گھل مل جانے میں فورا کامیاب ہوجاتے ہیں۔

کسی بھی سماج اور علاقے میں گوریلا مچھلی اور عوام سمندر کے مانند ہوتے ہیں، جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زیادہ دیر زندہ نہیں رہے سکتا، اسی طرح ایک گوریلا کے لیئے عوام کی بغیر زندہ رہنا انتہائی مشکل اور دشوار ہوتا ہے، گوریلا مٹی سے اُٹھتا ہے اور مٹی میں ملکر جذب ہوجاتا ہے۔ نواب خیربخش مری کہتے تھے کہ دن کی روشنی میں عام شہریوں کے طرح رہو اور رات کے اندھیرے میں دشمن پر ٹوٹ پڑو۔

بلوچ قوم چھاپہ مار جنگ میں دہائیوں بلکہ صدیوں کا تجربہ و مہارت رکھتے ہیں، انگریز سامراج کے خلاف بلوچوں نے کئی دہائیوں تک گوریلا جنگیں لڑیں اور انگریز کے اس خطے سے واپس چلے جانے کے بعد پنجابی قبضہ گیر سے اپنی آزادی کے لیئے گوریلا جنگی اصولوں کے تحت نبردآزما رہے، بلوچ گوریلاوں کے جنگی اصول، حکمت عملی، تیکنیک، تدبیر، بہادری اپنی مثال آپ ہیں، گوریلا جنگ میں بلوچ قوم کو صدیوں کے تجربات حاصل ہیں۔ نسل در نسل بلوچ اپنے سرزمین کی دفاع اور آزادی کے لیئے اپنے سے ہزاروں گنا طاقتور، مکار اور شاطر پنجابی فوج سے جنگ لڑ رہے ہیں، گذشتہ سات دہائیوں سے بلوچ قوم انتہائی کم وسائل کے باوجود جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس پاکستانی فوج سے اپنی گوریلا جنگی اصولوں اور حکمت عملی کو اپناتے ہوئے لڑ رہے ہیں، اس طویل اور تھکا دینے والی جنگ نے پاکستانی فوج کو اعصاب شکن شکست سے دو چار کردیا ہے، چند گھنٹوں اور دنوں میں بلوچ قومی جنگ کو ختم کرنے اور بلوچوں کو شکست دیکر فاتح بننے کا خواب دیکھنے والے کئی پاکستانی جنرل اپنی طبی عمر پورا کرکے موت کے شکنجے میں چلے گئے، لیکن بلوچ قوم کو شکست نہیں دے سکے اور تحریک کو ختم نہیں کرسکے۔

پاکستانی ریاست اور فوج اپنے جنگی حکمت عملی اور کاؤنٹر پالیسی میں وقتاً فوقتاً تبدیلی لاتی رہی ہے، تشدد، مسخ شدہ لاشیں، گمشدگیاں، بمباری، سمیت وحشت اور درندگی پاکستانی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کا حصہ رہے ہیں، فوج کو باقاعدہ کاؤنٹر انسرجنسی کے متعلق تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، اس سلسلے میں دنیا کے مشہور کاؤنٹر انسرجنسی اسپشلسٹوں کے تجربات، حکمت عملیوں، اور اس متعلق لکھے گئے کتابوں سے استفادہ بھی حاصل کرتے ہیں، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مربوط و مضبوط بناتے ہیں، بلوچستان میں اب ڈیتھ اسکواڈ بناکر اُنھیں بلوچ گوریلاوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں، عوام کو توڑنے اور اُنکی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں اور کھبی کھبی ایسے دلخراش واقعات بھی کراتے ہیں اور اُن واقعات کا سہارا لے کر گوریلاوں کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت ڈالتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گوریلاوں کی جڑیں عوام میں پیوست ہے، عوام سے اُنکی جڑیں کاٹنے کے لیئے مختلف تدابیریں اور حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

گوریلا دستے اپنے دفاع کے لئے دشمن فوج کے بنائے گئے کاؤنٹر پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا توڑ نکالتے ہیں اور اُنکے تمام حربوں کو ناکام بنانے کےلیئے حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں، اب یہاں ہم موجودہ بلوچ مسلح تحریک پر غور کریں اور بلوچ مسلح تنظیموں کے پالیسیوں کا جائزہ لیں، تو ہمیں بہت سی کمی اور کمزوریاں نظر آتے ہیں، خصوصاً گذشتہ کچھ ادوار سے جس طرح مسلح تنظیموں کے کمانڈر و محاذ پر پرسرپیکار ساتھی سوشل میڈیا پر اپنے تصاویر شائع کررہے ہیں، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں یہ گوریلا جنگی اصولوں کے منافی عمل ہے، کیونکہ گوریلا بے نام اور اپنے نمود و نمائش سے مبرا ہوتے ہیں کسی بھی گوریلا سپاہی کی ایک چھوٹی سی غلطی بہت بڑی نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے، تنظیمی راز اور ساتھیوں کی پرائیوسی کو زک پہنچ سکتی ہے۔

پتہ نہیں یہ تنظیمی حکمت عملی ہے یا مذکورہ کمانڈروں، تنظیمی ذمہ داروں اور ساتھیوں کا انفرادی عمل ہے، اگر یہ تنظیمی حکمت عملی ہے، اس حکمت عملی کا کیا فائدہ اور نقصانات ہیں یا ہوسکتے ہیں؟ اگر ذاتی عمل ہے پھر تنظیمیں اس متعلق کیوں ایکشن نہیں لیتے اور ایسے نقصان دہ عمل کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ یہاں میں کسی ایک تنظیم یا ایک کمانڈر کے عمل پر بات نہیں کررہا بلکہ مجموعی عمل پر بات کررہا ہوں، کیونکہ ایک تنظیم اور ایک گوریلا سے قوم کی اُمیدیں اور سرزمین کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ جب ایک باشعور نوجوان شعوری طور پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ مادر وطن کے دفاع کے لیئے مسلح جدوجہد کا حصہ بنکر گوریلا جنگ کے ذریعے منزل کا حصول ممکن بنائے گا، اس فیصلے کے بعد نام سے زیادہ بے نام ہوکر جہد میں شامل ہونا پڑے گا اور یہیں سے گوریلا قوانین اُس کے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔

گوریلا قوانین سے واقفیت، زندگی گذارنے کا طریقہ، گوریلوں کی طاقت اور کمزوریوں کے بارے میں وسیع تحقیق کرکے اپنے کمزوریوں کو ختم کرکے گوریلا حکمت عملی کی طاقت بننے والے قوانین پر عملدرآمد کرکے خود کو اور تحریک کے ساتھیوں کی حفاظت اچھے طریقے سے کر پائے گا، انفرادی کوششوں سے ایک فرد مکمل گوریلا حکمت عملی اور قوانین پر مکمل عبور حاصل نہیں کرسکتا، اس لیئے کمی بیشیوں کو پورا کرنے کے لیئے مذکورہ تنظیم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے نئے ساتھی کی تربیتی عمل کو مکمل کریں جہد وعمل کے دورانیے کے دوران کمزوریاں سامنے آتی ہیں، جن کو تنظیمی ساتھی نشاندہی کرکے مذکورہ غلطیوں، کوتاہیوں پر بحث و مباحثہ کرکے قوانین و اصولوں کے ذریعے اقدامات اُٹھا سکتے ہیں۔

بلوچ جنگجو لیڈروں کی تجربات، مہارت اور صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے اُنکے تجربات، جدوجہد اور زندگی کے متعلق بلوچ نوجوانوں کو آگاہ کیا جائے، تاکہ اُنکے جنگی تجربات اور صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھا کر دشمن کے حکمت عملی ترتیب دیا جاسکے، دنیا کے دیگر عظیم گوریلا لیڈروں کیساتھ ساتھ بلوچ گوریلا لیڈروں کی حالات زندگی اور جنگی تجربات کا مطالعہ کرنا، جہد سے منسلک نوجوانوں کو آگاہی دینا ایک مثبت عمل اور مسلح تحریک کے لئے سود مند ثابت ہوگی۔