گمشدہ بچپن – دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

282

گمشدہ بچپن

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

” بلوچ مزاحمتکار اب بچوں کو بم دھماکوں میں استعمال کررہے ہیں۔” خوشی سے کھلکھلاتے کوئٹہ سٹی پولیس چیف میر زبیر محمود نے 13 مارچ 2013 کو بلائے گئے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا۔ وہ اپنے نئے دریافت پر انتہائی خوش تھا۔ پولیس حکام نے بریکنگ نیوز کیلئے بھوکے صحافیوں کے سامنے ایک درجن بچوں کو پریڈ کراتے ہوئے لایا، جن میں کم سے کم 11 سال کے بچے بھی شامل تھے۔

ان صحافیوں کو فوری طور پر، اس خبر کو میڈیا مالکان تک پہنچانا تھا اور اس خبر نے بہت سے ناظرین کی توجہ اپنی جانب کھینچنی تھی۔ ” ٹی آر پی” کی اس دوڑ میں بنیادی صحافتی اصولوں کو مکمل طور پر پسِ پشت ڈالا گیا۔ کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، جو کچھ پولیس حکام نے کہا، اسے حقائق پر مبنی مان کرمن وعن چھاپ دیا گیا۔ ان بچوں کو کسی بھی عدالتی کاروائی کے شروع ہونے سے پہلے ہی مجرم قرار دے دیا گیا۔

” یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ کسی انسان پر فردِ جرم ثابت کیئے بغیر اسے مجرم قرار دیا جائے، یہاں تو بات کمسن

سلمیٰ جعفر

بچوں کی تھی۔” ان خیالات کا اظہار سماجی بہبود و ترقی اور بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی کارکن سلمیٰ جعفر نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کی۔ انہوں نے مزید کہا ” حتیٰ کے کشور مجرمان سے بھی مجرموں والا برتاؤ نہیں روا رکھا جاتا، یہ تو صرف معصوم بچے تھے، جو بڑوں کے جنگ کا شکار تھے۔”

ایکسپریس ٹریبیون، پاکستان کے بڑے انگریزی روزناموں میں سے ایک ہے، انہوں نے پریس کانفرنس کے دن اپنے ویب سائٹ پر یہ خبر شائع کی کہ ” یو بی اے نے غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے، ان بچوں کو بہلا پھسلا کر ان سے دیسی ساختہ بم بازاروں، کچرہ دانوں اور ان شاہراہوں پر رکھوائے، جنہیں پولیس اور دوسرے سیکیورٹی فورسز استعمال کرتے ہیں۔”

واضح رہے کہ یونائیٹڈ بلوچ آرمی یا یو بی اے ایک مسلح تنظیم ہے، جو بلوچستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس تنظیم نے بلوچستان میں فورسز پر مہلک ترین حملوں میں سے کچھ کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔

ان بچوں پر میڈیا اداروں نے الزام لگایا کہ وہ 2013 میں میزان چوک پر یو بی اے کی طرف سے کی جانے والے دھماکے میں ملوث تھے، جس میں 3 فوجی اہلکاروں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ میڈیا کے سامنے واحد ثبوت ان بچوں کا جبری اعتراف نامہ پیش کیا گیا، جسے پولیس کے حراست میں ان بچوں سے لیا گیا تھا۔ حالانکہ ذمینی حقائق پر پرکھا جائے تو یہ کچھ کمسن بچوں کیلئے ناممکن امر ہے کہ اس بڑے پیمانے کی کاروائی کرتے۔

پاکستانی پولیس ملزمان سے تشدد کے ذریعے جبری اعتراف کروانے کے حوالے سے پہلے سے ہی بدنام ہے۔ پاکستان، جس نے 2010 کے تشدد کے خلاف کنوینشن پر دستخط بھی کیا ہوا ہے، اپنے سیکیورٹی اداروں کو قرونِ وسطیٰ کے تشددی حربے استعمال کرنے سے ابتک روک نہیں سکا ہے۔ گذشتہ سال اقوام متحدہ پینل نے پاکستان میں پولیس، فوج اور خفیہ اداروں کی جانب سے تشدد کے کھلے استعمال کی مذمت کی تھی۔ سماجی کارکن اور بچوں کے ورثاء یقین رکھتے ہیں کہ بچوں کو بزورِ تشدد اعتراف کروایا گیا تھا۔

یہ خبر میڈیا پر کچھ دنوں تک چلتی رہی اور حکومت نے اس کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا، لیکن اسکے بعد سب اس خبر کو بھول گئے، شاید کچھ کو لگا کہ بچے چھوٹ گئے۔ لیکن گذشتہ جمعرات کو یہ خبر دوبارہ گردش کرنے لگی، جب پانچ سال کا طویل عرصہ گذرنے کے بعد کوئٹہ میں انسدادِ دہشت گردی کے ایک عدالت نے ان بچوں کو عدم ثبوت کے بنا پر رہا کردیا۔

اس پورے دورانیئے میں یہ بچے جیل اور انسدادِ دہشت گردی کے عدالت کے چکی میں پِس رہے تھے۔ ” سب سے زیادہ غصے کی بات یہ ہے کہ بعدازاں ہم نے ان بچوں کے بابت کوئی خبر نہیں سنی، لہٰذا فطری طور پر ہمیں لگا کہ شاید یہ بچے رہا ہوگئے ہیں۔ مجھے یہ سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ان پانچ سالوں کے دوران انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کے ادارے کہاں تھے؟” سلمیٰ جعفر نے مزید کہا۔

علاقائی ذرائع ابلاغ اور سیاسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے سلمیٰ جعفر نے مزید کہا کہ ” میڈیا اتنے وقت کہاں تھی؟ بلوچستان کی سیاست قیادت کہاں تھی؟ آپ جانتے ہیں، درحقیقت یہ خاموشی مجرم ہے، مذکورہ بچے نہیں۔ ہم پنجابی میڈیا پر تو الزام لگاتے ہیں لیکن ہمارے علاقائی صحافی کہاں تھے جنہوں نے کبھی اس کہانی کی خبر لینے کی کوشش تک نہیں کی؟ ہماری کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں، ہم کیسے ان بچوں کو نظرانداز کرسکتے ہیں؟”

سلمیٰ جعفر نے میڈیا اور سیاسی قیادت کو اس پورے مسئلے کو دانستہ طور پر چھپانے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ” آپ ایک نظر پاکستان کے میڈیا اور سیاست دانوں پر ڈالیں، وہاں ان بچوں کے بارے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا جارہا۔ کسی بھی اور مہذب ملک میں یہ خبر سرخیوں میں جگہ پاتی اور بڑا اسکینڈل بن جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہم اپنے جہالت کا خود ہی شکار ہیں۔”

انہوں نے قانونی بے ضابطگیوں پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہا کہ ” یہ حیران کن بات ہے کہ ان بچوں پر انسدادِ دہشت گردی کے عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، قانون کے مطابق ان پر نابالغوں کی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیئے تھا۔ عمر کے حساب سے نابالغ عدالتوں کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، کسے پتہ کہ ان اصول و ضوابط میں عمل کیا گیا یا نہیں۔ کیا ان بچوں کو انکے حقوق سے آگاہ کیا گیا؟ مجھے شبہ ہے کہ ان بچوں کو انکے حقوق سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا، بصورت دیگر یہ بچے جلد ہی رہا ہوجاتے۔”

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ” (جےجے ایس او) آرڈیننس کے مطابق، قانونی معاونت بچوں کا حق ہے، کیا یہ وقت پر ان بچوں کو مہیا کیا گیا تھا؟ بادی النظر ایسا نہیں لگتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ بچے 5 سال جیلوں میں نہیں سڑ رہے ہوتے۔”

ناجائز طور پر زیرحراست رہنے کی وجہ سے ان بچوں نے اپنی زندگی کا بہت سا قیمتی وقت کھو دیا۔ اب یہ بچے ایسے وقت میں جیل سے نکل رہے ہیں، جب انہیں عملی زندگی میں قدم رکھنا ہے۔ لیکن جیل میں رہنے اور تعلیم و تربیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اب عملی زندگی انکے لیئے کٹھن بن جائے گی۔ پاکستان میں ایسے بچے جرائم کی جانب مبذول ہوجاتے ہیں۔

تاج بلوچ

ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے چیئرمین تاج بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” مجھے خوف ہے کہ ان بچوں کو دورانِ حراست برین واش کرکے شدت پسندی کی جانب مائل کیا گیا ہے۔ ہم نے ایسے کئی واقعات بلوچستان میں دیکھے ہیں، جہاں پاکستانی فورسز نوعمر نوجوانوں کو اغواء کرکے حراست میں رکھتے ہیں اور سالوں حراست میں رکھنے کے بعد جب انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے، تو وہ مذہبی شدت پسندی کی جانب مائل ہوجاتے ہیں۔”

پاکستانی نظامِ جیل اپنے شدت پسندی کی وجہ سے بدنام ہے، سلمیٰ جعفر کا خیال ہے کہ ان بچوں کیلئے بحالی پروگرام قائم کیئے جائیں جہاں انہیں ماہرِ نفسیاتوں کی خدمات حاصل ہوں “ان بچوں کا بچپن چھیننے اور انہیں یہ زخم دینے کا معمولی ازالہ صرف اسطرح کیا جاسکتا ہے کہ نفسیاتی و سماجی بحالی پروگرام کے بعد حکومت ان بچوں کو بہترین اسکولوں میں داخلہ دے۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے حکومت اپنے اس گناہ کا ازالہ کرسکتا ہے۔”

تاج بلوچ نے بھی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” ان بچوں کے قیمتی پانچ سال ریاست نے ان سے چھین لیئے، مبادا جسمانی تشدد کے ان بچوں نے بہت کچھ سہہ لیا ہے، ریاست یا عالمی اداروں کو ان بچوں اور انکے ورثاء کو کماحقہ ازالہ ادا کرنا پڑے گا۔”

سلمیٰ جعفر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس مسئلے کے بابت مختلف این جی اوز سے رابطے میں ہیں ” میں (ایس پی اے آر سی) سپارک سے اس مسئلے کے بابت رابطے میں ہوں۔ ہمیں ( ایس ای ایچ ای آر) سحر سے بھی رابطہ کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ کیا وہ بحالی کا کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کو ایسے پروگراموں میں داخل کرے۔”

آیا یہ بچے کسی بحالی پروگرام سے استفاد کرپائیں گے؟ یہ کہنا ابتک قبل از وقت ہے، تاہم، اس مسئلے کی تحقیقات ہونی چاہیئے کے ان بچوں کی زندگی کے پانچ قیمتی سال کیوں برباد کیئے گئے۔

سلمیٰ جعفر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیئے، انہوں نے کہا “یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کرے اور حقائق لوگوں کے سامنے لائے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کے ایسی صورتحال میں انکی اور انکے بچوں کی، کیا حقوق و فرائض ہیں۔”