لاپتہ بلوچ اسیران اور شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3114 دن ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں کوئٹہ سے پی ٹی ایم کے ایک وفد نے لاپتہ افراد اور شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر وفد سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج کے سابقہ سربراہ جنرل کیانی کے دور میں بلوچوں نے کہا کہ ہم پنجاب اور چائنا کی آباد کاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ بلوچوں کا یہ چیلنج پاکستان اور اُس کے فوج کے لئے زخم پر نمک ثابت ہوئی جس پر پھر پاکستان نے ہوش کا دامن چھوڑ کر بلوچوں کے خلاف اودھم مچانا شروع کیا اور بے حس عالمی دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ ہر طرف بلوچوں کی خون میں لت پت لاشیں انسانیت کے ضمیر کو جھنبھوڑتے رہے مگر تہذیب یافتہ دنیا ٹس سے مس تک نہ ہوئی۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پاکستان اور اس کے اصل حکمران یعنی فوج و ایجنسیوں کے بارے میں آگاہی مہم شروع کی اور بلوچوں نے چیخ چیخ کر اپنے پیاروں کے مسخ و ڈرل شدہ لاشوں، غرض پاکستان کی ظلم بربریت کی ہر وہ تصویر ثبوت و تصاویر و گواہوں کے ساتھ نہ خالی عدالتوں بلکہ عدالتوں سمیت پاکستان و بین الاقوامی تمام فورومز میں پیش کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ نہ صرف پاکستانی ایجنسیز و آرمی جبکہ ان کے قائم کردہ مقامی ڈیتھ اسکواڈز بھی کہ جن کا تعلق بے ضمیر سرداروں میر و ٹکری و رہزنوں، ڈاکوئوں ، ڈرگ مافیا و لینڈ مافیا کے گروؤں پر مشتمل ہے، وہ بلوچوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، آئے روز بلوچوں کے دانشوروں، صحافیوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، اساتذہ، انجنیرز ،زمیندار ، تاجر اور عام شہری پیرو ورنا و خواتین اور طالب علموں کو اغوا کیا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ وہ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے کہ جسے سُن کر انسانیت کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات یہاں تک نہیں رکتی، ان مقامی ڈیتھ اسکواڈ کو آرمی و ایجنسیوں اور ریاست نے اس حد تک بھی آزاد چھوڑ رکھا ہے کہ تم لوگ اپنے اخراجات بھی بلوچستان کے غیور باسیوں کے اغوا برائے تاوان کے رقم سے پورا کرلو، اس کی واضع مثال خضدار ، مشکے ،آواران، تربت ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور کاہان کی ہے کہ جہاں عام بلوچ و کاروباری حضرات آئے روز کی ظلم و جبر و اغوا سے تنگ ہوکر نقل مقانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔_