پرعزم پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ – نادر بلوچ

433

پرعزم پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

برطانوی سازش کے تحت ہندوستان کی تقسیم اور دوقومی نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آنیوالی ریاست پاکستان میں 1947 کے بعد سے خطے میں بسنے والی اقوام جن میں بلوچ، پشتون اور سندھی اقوام کو قومی غلامی جیسی بدترین سلوک کا سامنا رہی ہے۔بلوچستان میں بسنے والی بلوچ قوم اس قبضہ کے خلاف مسلسل سیاسی اور مزاحمتی جہد کے ذریعے قومی آزادی کی تحریک میں پاکستانی ظلم و جبر کا سامنا کرکے بلوچ وطن سے قبضہ گیریت کے خاتمہ کیلئے غیر فطری ریاست سے بر سرپیکار ہے۔ اس جہد نے بلوچ قومپرستی کے واضح اہداف مقرر کرکے بلوچ نوجوانوں کو اپنی آنیوالی نسلوں کی خوشحالی اورآزادی کے لیئے، آج کو اپنے آنیوالی کل کیلئے قربان کرنے کا شعورعطاء کیا۔ بلوچ قومی تحریک آج نیشنل ازم کی مضبوط بنیادوں پر کامیاب اور مستحکم ہوکر دنیا میں اپنی الگ پہچان بنا رہی ہے۔

بلوچ قوم کی طرح پشتون قوم بھی اپنی الگ جغرافیہ،زبان، ثقافت، شناخت رکھتی ہے۔ پشتون قوم کی سرزمین بھی بلوچ وطن کیطرح وسائل سے مالامال ہے۔ دونوں اقوام کے ساتھ تاریخی جبر بھی ایک ہی جیسی ہے۔ دونوں قومیں آج بھی پاکستانی قبضہ گیریت کا شکار ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود قومی غلامی، معاشی بدحالی،ان اقوام کو دنیا کی دیگرآزاد، ترقی یافتہ اقوام کی صفحوں میں شامل نہ ہونے سے روک رہی ہے۔

پاکستان، اسکی استحصالی رویوں، ظلم و جبر پشتون قوم کے نوجوانوں میں قومی شعور اجاگر کرنے کی وجہ بنی۔ پشتون نوجوانوں کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ کی نام سے منظور پشتین کے لیڈر شپ میں ریاستی جبر کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ قوم پرست و مظلوم اقوام کی جانب سے پشتون نیشنل ازم کی ابھار کو خوش آئند قرار دی۔ بلوچ قوم پرست سیاسی تنظیموں اور کارکنوں کی جانب سے بھر پور ساتھ دینے کی یقین دہانی اور سیاسی حمایت کی جارہی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات گو کہ انسانی حقوق اور جینے کی بنیادی حق اور قابض ریاست کی آئین کے تحت ہیں۔ پھر بھی آزادی پسند بلوچ سیاسی تنظیمیوں نے قوم پرست سیاست، تاریخی تعلقات، انسانی حقوق کی بنیاد پر پشتون قوم اورتحریک کے مطالبات کو جائز تسلیم کرتی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کو پشتون قوم میں زبردست پذیرائی ملی ہے۔ مطالبات کو انٹرنیشل میڈیا سمیت دنیا بھر میں پشتونوں پر ہونے والی ظلم و جبر ہر انسان دوست، ذی شعورانسان کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ کامیاب جلسے اورجلوسوں کے بعد تنظیم کاری کا فیصلہ انتہاہی اہم فیصلہ ہے۔ تحریک کو بعض دیگر عالمی نظریات رکھنے والوں کی جانب سے ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی ہوئی ہے۔ تحریک میں شامل کارکنوں کو ہوشیار رہنا چاہیئے۔ جس کا احساس ابھی ہورہا ہے۔ بعض لوگ تحریک کو منزل پر پہنچنے سے پہلے ناکام قرار دے رہی ہیں۔ حالانکہ اگرقوم پرستی کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریکوں کا جائزہ لیں تو کسی بھی تحریک کو منظم و مضبوط ہونے میں وقت درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک صبر آزماء عمل ہے۔ کمزوری اور کوتاہیاں ہوتی ہیں لیکن سیکھنے کا عمل جاری رہتی ہے۔ قومی تحریکیں منظم ہوتی جاتی ہیں۔

منظور پشتین ایک نوجوان اور باشعورلیڈر ہے۔ اسکو احساس ہے کہ جس ریاست سے وہ مطالبات کر رہے ہیں،ان مطالبات کیلئے ریاست نے سینکڑوں پشتون مشران اور نوجوانوں کو قتل کیا ہے۔ اسکی رہنمائی کیلئے پشتون قوم کی تاریخ، استعماری قوتوں کے خلاف پشتون قوم کی مزاحمت اور جہد ہے۔ وہ پر عزم ہے۔ ریاستی جبر کے آگے پشتون قومی حقوق کیلئے قربان ہونے کیلئے تیار بھی ہے۔ اسکے ساتھی نوجوان اپنی قومی شناخت حاصل کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

بلوچ سماج ہو یا پشتون انکی جڑیں نیشنل ازم میں پیوست ہیں۔ ان تحریکوں کو سمجھنے کیلیے نیشنل ازم اور اسکے بنیادی فلسفے کو جاننا ضروری ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے جس طرح یورپ میں معاشی بدحالی، کسمپری جنم دی۔ جنوبی ایشیا میں اسکے اثرات، قومی غلامی کو طول دینے کا سبب بنے۔ گیرزن اسٹیٹ بنانے کیلئے انگریز کو پاکستان جیسی مذہبی بنیاد پرست ریاست کی ضرورت پڑی۔ بلوچ اور پشتون قوم کے مرضی کے برعکس طاقت، مکاری سے ان قوموں کی آزادی چھینی گئی۔ نیشنل ازم کی سوچ سے پیوست ہونے کے سبب ان اقوام میں ہمیشہ قومی احساس محرومی زندہ رہی ہے۔ پشتون قوم کو نیشنل ازم کی جانب لوٹنے کیلئے ان بنیادی عوامل کا جائزہ لینا ہوگا، جو قومی شناخت اور قومی سوال کیلئے اس بنیادی نظریے کو بیان کرتے ہیں۔

محکوم و مظلوم قوم کی بقاء قومی آزادی میں پنہاں ہے۔ نیشنل ازم کی بنیاد پرمکمل قومی تشکیل کا عمل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ قومی آزادی کے موقف کو بین الاقوامی قوانین کی مطابق، حق خودارادیت بھی قومی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سوشلسٹ پشتون قوم کی پاکستانی آئینی حدود میں ریتے ہوئے، پشتون مطالبات پر بغلیں بجا رہی ہیں، کیا کل اگر ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے بین الاقوامی قانون کے مطابق، جس پر پاکستان کے دستخط بھی موجود ہیں کہ قوموں کو حق خودارادیت کا حق حاصل ہے۔ کیا سوشلسٹ پھر بھی انسانیت کے ناطے اس قوم پرست تحریک کی حمایت کریں گے یا روایتی اور لفاظی ہیرا پھیری کرکے اپنی روح کو تسکین پنہچا کر انسانیت کو بھول جائیں گے؟ قوم پرست تحریکوں کے ساتھ روایتی تعصب جاری رکھ کر قومی سوال کو مبہم کرنے کی کوشش کریں گے؟

بین الاقوامی حالات بلوچ، پشتون، سندھی قومپرستوں پر بھاری ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ اپنی تحریکوں میں استحکام پیدا کرکے، اپنے تاریخی حیثیت، شناخت اور آزادی کو حاصل کرنے کیلئے متحرک کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں۔ قومی شناخت، ثقافت،وسائل کی حفاظت اور آزادی حاصل کرنے کیلئے نیشنل ازم کو اصل صورت میں بحال کرنے کیلئے آزادی کے واضح موقف کو اپنائیں۔