پاکستان کے اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
یہ بات اسٹیٹ بنک کی طرف سے آئندہ دو ماہ کے لیے جاری ہونے والی بنک کی مانیٹری پالیسی میں بتائی گئی ہے۔
اسٹیٹ بنک کے گورنر آصف باجوہ نے ہفتے کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اس پالیسی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حالیہ مہینوں میں ملک کی برآمدت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیل زر میں اضافے کے باوجود ملک کی بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے ملک کے تجارتی خسارے کو کنڑول کرنا ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا “مالی سال 2018ء میں مالی خسارے کا عبوری تخمینہ 6.8 فیصد لگایا گیا تھا۔ تاہم جولائی 2017ء سے مئی 2008ء تک کے گیارہ مہینوں کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو کہ گزشتہ برس کی اسی مدت میں11 ارب 10 کروڑ ڈالر تھا۔”
آصف باجوہ نے مزید کہا کہ گزشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران برآمدات میں 13.2 فیصد اضافہ ہوا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں تین فیصد اضافے کے باوجود درآمدات میں اضافے کی وجہ سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں اضافہ ہوتا رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان نے مالی سال 2018 ء میں شرح نمو 5.8 تک پہنچ گئی جو گزشتہ 13 برس کے دوران بلند ترین شطح ہے جبکہ صارفین کیلئے افراط زر 6 فیصد سے کم ہونے کے باوجود پاکستانی کی معیشت کو درپیش چیلنجوں میں شدت آئی ہے۔”
پاکستان میں تجارتی اور معاشی امور سے متعلق غیر سرکاری ادارے پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسان ملک وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بتا چکے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ حالیہ سالوں میں پاکستان میں بڑی تعداد میں مشنری کی درآمد ہے جس سے پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
دوسری طرف اقتصادی امور کے ماہر عابدی سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے دوررس اصلاحات وضح کرنے کی ضرورت ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ گزشتہ حکومت نے ملک کے محصولات میں اضافے کی لیے ٹیکس نیٹ ورک کو وسعت دینے کے لیے کئی اقدمات کیے جس میں رواں سال اپریل میں جاری ہونے والے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی شامل ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ اقدمات کافی نہیں ہوں گے۔
25 جولائی کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو پاکستان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور غیر ملکی ادائیگی کے توازن کو بہتر کرنے کے لیے ایک بار پھر عالمی مالیاتی فنڈ ‘آئی ایم ایف’ سے رجوع کرنا پڑے گا۔
نگران حکومت نے ملک کی اقتصادی صورت حال کو مستحکم رکھنے لیے مختصر مدت کے اندر کئی عبوری اقدامات کیے ہیں۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر آئی ایف یا دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فوری طور رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات کو آئندہ حکومت ہی طے کرنے کی مجاز ہو گی۔