پاکستان میں آزادی اظہار پر قدغن کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے : ایچ آر سی پی

200

پاکستان کیمشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صحافیوں کی جانب سے گذ شتہ چند مہینوں میں کام کے دوران رکاوٹ ڈالنے سے متعلق متعدد شکایت درج کرائی گئی۔

لاہور پریس کلب میں ایچ آر سی پی کے ارکان نے کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے اجراء کے موقعے پر کہا کہ پاکستان بھر میں آزادی اظہار پر قدغن کے واقعات میں اضافہ ہوا بلخصوص آزاد صحافت اس کا نشانہ بنا۔

اس کے علاوہ ڈان اخبار کے سیلز اور ڈسٹریبیوشن ایجنڈز نے ڈان انتظامیہ کو شکایت درج کرائی ہے کہ ڈسٹریبیوشن کے مراحل میں شدید رکاوٹ کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نام ظاہر نہ کرنے والے جواب دہندہ نے خصوصی طورپر ریاستی اور خفیہ اداروں کی طرف تشویش کا اشارہ کیا ہے۔

اجلاس کے دوران یہ واضح کہا گیا کہ ایچ آر سی پی متعلقہ اداروں اور ایجنسیوں سے خدشات کا اظہار کریں گے جبکہ جواب دہندہ کی شناخت کسی بھی صورت میں ظاہر نہیں کی جائے گی۔

بلوچستان، پنجاب، سندھ میں ڈان کی ڈسٹریبیوٹرز سے انٹرویو کیے گئے جس میں انہوں نے تصدیق کی کہ آرمی کے کمرشل اور رہائشی علاقوں میں اخبار کی ترسیل بہت متاثر ہوئی جس کا اثر براہ راست کاوبار پرپڑا۔

رواں برس 12 مئی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا انٹرویو شائع ہونے کے بعد سیلز ایجنٹ نے الزام عائد کیا کہ 20 سے زائد شہریوں اور ٹاؤنز میں ڈان کی ترسیل متاثر ہوئی جس میں سب سے زیادہ کنٹو نمنٹ بورڈ اورآرمی آفس اور اسکول کے مقامات شامل ہیں۔

ہاکرز کو ہراساں کیا گیا، انہیں جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی تاکہ ڈان کی ترسیل متاثر ہو۔

جس کے بعد اشتہارت ملنا بند ہو گئے یا انہیں رکوادیا گیا۔

اس حوالے سے ڈان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2016 کے بعد سے آرمی کے زیراہتمام تمام کمرشل انٹرپرائزز بشمول ڈی ایچ اے کی جانب سے اشتہارات کی مکمل بندش چل رہی ہے۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پنجاب اور گلگت بلتستان میں کم از کم تین کیبل آپریٹرز کو خاص چینل بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا کہ فون پر ایک شخص نے خود کو انٹیلیجنس ایجنسی کا افسر ظاہر کرکے مطالبہ کیا کہ جیوٹی وی کی نشریات ’روک‘ دی جائے یا پھر چینل کی فہرست میں آخری نمبر پر ڈال دیا جائے تاکہ عوام کی چینل تک رسائی مشکل ہوجائے۔

جواب دہندہ نے اقرار کیا کہ انہیں اور ان کے کاروبار کا خوف تھا اس لیے مجبوراً ہدایات پر عمل کرنا پڑا۔

دوسری جانب ٹی وی انتظامیہ نے اس غیریقینی صورتحال پر اشتہارات کی مد میں ہونے والے نقصان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر جیو ٹی وی جیسے بڑے ادارے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو چھوٹے چینلز کے پاس انتہائی محدود راستے ہوتے ہیں۔

زبانی پریس ’ایڈوائز‘ بذریعہ فون ملتی یا پھر رپورٹرز کو پابند کیا جاتا ہے کہ ’فلاں‘ چیز شائع یا نشر نہیں ہونی چاہیے۔

انٹرویو میں کہا گیا کہ عمومی طور پر زبانی پریس ایڈوائز لاپتہ افراد، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)، علیحدگی پسند بلوچ، ماما قدیر، پاناما اور نیب ریفرنس، سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی اور گرفتاری، عدالیہ کے بعض فیصلے اور عسکری اداروں پر سوالات اٹھانے پر ملتی ہیں۔

اس حوالے سے دو جواب دہندہ نے بتایا کہ انہیں خبر نشر کرنے سے قبل نواز شریف کے ساتھ ‘سابق وزیراعظم‘ کا لاحقہ لگانے کے بجائے ’کرمنل یا مجرم‘ استعمال کرنے کو کہا گیا۔

3 جواب دہندہ نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرنا بھی صورتحال کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔

پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کے جواب دہندہ کے مطابق پریس ایڈوائز عمومی طورپر سول بیوروکریٹس، ڈی جی پریس اینڈ انفارمیشن یا پھر برائے راست آئی ایس پی آر کی جانب سے موصول ہوتی ہیں۔

تقریباً 4 ٹی وی اور ریڈیو کے صحافیوں نے بتایا کہ ’سرگرم‘ صحافیوں سے بات چیت کرنے پر ریاست یا انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے چینل یا اخبار کے مالک تک رسائی حاصل کی گئی اور انہیں نیب اور ایف آئی اے یا اشتہارات بند کرنے کی دھمکی دی گئی۔

پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کے صحافیوں نے بتایا کہ ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سوشل میڈیا پر کردار کشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اگر صحافی کوئی خاتون ہو تو ایسے ریپ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

رپورٹ میں دو مختلف واقعات کا ذکر ملتا ہے جس میں پرنٹ میڈیا سے جواب دہندہ نے بتایا کہ انہیں ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے طلب کرکے عالمی فنڈنگ اور علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنے پر سوالات کیے۔

گلگت بلتستان میں تقریباً 7 ایڈیٹرز اور رپورٹرز نے تصدیق کی کہ انہیں پریس ایڈوائز موصول ہوئی اور سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ بیشتر دھکمیوں کی وجہ قوم پرستوں کو کوریج کرنے پر ملی جبکہ ریاستی اور حکومتی اداروں پر منفی رپورٹنگ کرنے پر بھی ہراساں کیا گیا۔

رپورٹ میں ایک سنگین نوعیت کا کیس بھی درج کیا گیا کہ جس میں ایک ایڈیٹر اور پبلشر کو ’احکامات‘ نہ ماننے پر رشوت اور جان سے مار دینے کی 5 مرتبہ دھمکیاں دی گئی اور انہیں پر الزام لگایا گیا کہ وہ بیروبی خفیہ ایجنسی کے پلے رول پر ہیں۔

تاہم ایک کیس میں متعلقہ ایڈیٹر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا گیا اور وہ ان دنوں جیل میں ہیں۔

ایچ آر سی پی نے وفاقی اور صوبائی حکومت سمیت تمام ریاستی اداروں سے شکایت پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور ملک میں آزادی اظہار پر غیر قانونی رکاوٹ کے کلاف اقدامات اٹھائیں۔

ان کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ میڈیا اداروں کے بنیادی حقوق سمیت کسی بھی اخبار کی ڈسٹریبیوشن اور سیلز پر رکاوٹ کا سلسلہ روکا جائے۔

علاوہ ازیں پریس ایڈوائز کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔

ایچ آر سی پی کے ارکنان نے کہا کہ صوبوں کی سطح پر مربوط اور فعال کمیشن تشکیل دیا جائے جو اطلاعات تک رسائی کے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکے۔