ورٹیگو – حیدرمیر

308

“ورٹیگو”

حیدرمیر

دی بلوچستان پوسٹ

امریکی شہر نیویارک میں جان جے کالج آف کریمنل جسٹس میں گوانتانامو بے کے بدنام زمانہ جیل کے قیدیوں کے بنائے ہوئے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی۔

یہ تھی بی بی سی اردو کے صفحے پر لگی سرخی اور اس پر کلک بھی میں نے محض اس غرض سے کیا تھا کہ دیکھ سکوں کہ بدنام زمانہ گوانتاناموبے کے قیدیوں کے فن پارے کیسے ہونگے؟ فن پاروں میں آرٹ ورکس سمیت ان قیدیوں کے بنائے گئے پینٹنگز کی تصاویر تھیں اور انکے سامنے مصوروں کے نام لکھے تھے۔ ایک فن پارے پر بلوچ لکھا دیکھنے کی وجہ سے میری نظر وہیں پر ٹک گئی، پینٹنگ پر ‘عمار ال بلوچی’ لکھا ہوا تھا۔ میری کم علمی ہی تھی کہ یہ نام پہلی مرتبہ سن رہا تھا۔

کوئی بھی متجسس انسان ایسے میں معلوم کرنا چاہے گا کہ ایک بلوچ آخر کیسے گوانتانامو بے پہنچ گیا؟ نام میں بلوچ کے بجائے البلوشی ملنے پر اندازہ تو ہوگیا تھا کہ یہ بندہ قوم پرستی سے دور تھا اور مذہبیت کے ہتھے چڑھا ہوگا۔

بہرحال اپنے تجسس کے صحرا کو سیراب کرنے کیلئے میں مزید معلومات اکھٹی کرنا شروع کیا، تو پتہ چلا کہ عمار بلوچ کے بارے میں جاننا زیادہ مشکل کام نہیں بلکہ وہ القاعدہ کے انتہائی مطلوب دہشتگردوں میں سے ایک ہیں۔ عمار البلوشی کویت میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں کراچی رہائش پذیر ہوگئے۔ عمار القاعدہ کے سرکردہ رہنماء ‘خالد شیخ محمد’ کا کزن بھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خاص قسم کی عام معلومات یہ ملی کہ عمار بلوچ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے سابقہ شوہر بھی تھے۔ جس کی تصدیق ڈاکٹر عافیہ کے خاندان والوں نے تو نہیں کی لیکن سی آئی اے کے زیر حراست القاعدہ کے ارکان نے کی کہ یہ شادی ہوئی ہے۔

عمار بلوچ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے دوران، مجھ پر یہ بھی آشکار ہوا کہ امریکہ میں نو گیارہ حملے کے ماسٹر مائینڈ، بالی نائیٹ کلب حملے، 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں سمیت کئی مہلک حملوں کا ذمہ دار اور القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد بھی بلوچ ہیں، جو کویت میں پیدا ہوئے تھے اور امریکہ سے تعلیم میکینیکل انجنیئرنگ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔

اب یہ میری کم علمی تھی یا پتہ نہیں بلوچ کی بد بختی کے بے وطنی نے انہیں ہر خطے، باٹ اور نظریات میں متشر کیا ہوا ہے، کیونکہ جب میں خالد شیخ محمد کے بارے میں پڑھ رہا تھا، تو میری نظر ایک اور غیر معروف بلوچ نام پر پڑا۔ عبدالباسط بلوچ: یہ نام پہلے نا نظروں سے گذری تھی نا یہ نام سماعتوں سے ٹکرائی تھی لیکن جب میں نے عبدالباسط بلوچ کے بارے میں مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ عبدالباسط بلوچ کوئی اور نہیں بلکہ انہیں دنیا بدنام زمانہ دہشتگرد رمزی یوسف کے نام سے جانتی ہے۔ باسط بلوچ عرف رمزی یوسف بھی کویت میں پیدا ہوئے اور امریکہ سے الیکٹریکل انجنیئرنگ میں تعلیم حاصل کی۔ ابو سیاف گروپ جیسے شدت پسند گروہ کو بنانے میں بھی اسی کا ہاتھ ہے۔

ان ناموں کے بارے میں جاننے کے بعد میں نا صرف فرطِ حیرت میں مبتلا رہا بلکہ پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ جانے اور کتنے بلوچ، بے وطنی کے ہاتھوں یا قابض ریاستوں کے عزائم کے تکمیل میں ایک کڑی کے طور پر استعمال ہوکر، اپنے حقیقی سیکیولر شعار کو فراموش کرکے شدت پسندی کے راہ پر نکل گئے ہونگے۔

بہر حال، بات عمار بلوچ اور اسکے آرٹ ورک پر ہورہی تھی۔ درحقیقت عمار بلوچ کا کیس ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے تب اٹھایا، جب اسامہ بن لادن کی پاکستان میں ہلاکت پر بننے والی ہالی وڈ فلم ‘زیرو ڈارک تھرٹی’ میں القاعدہ کے ایک رکن کو عمار بلوچ ظاہر کیا گیا اور فلم میں تقریباً تیس منٹ کے سین صرف القاعدہ کے اس رکن پر تشدد کے ریکارڈ کیئے گئے تھے، جہاں اسے توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

ہالی وڈ کو عمار کے متعلق یہ تمام تر معلومات انکے وکیل نے دیئے جو اس وقت امریکی عدالت میں عمار کا کیس چلا رہا تھا۔

عمار بلوچ کو 2003 میں کراچی سے اغواء کیا گیا تھا اور 2006 میں تب منظر عام پر لایا گیا، جب اسے گوانتانامو بے شفٹ کیا گیا۔ عدالتی کاروائی کے دوران معلوم پڑا ہے کہ ان تین سالوں میں عمار کو ‘سی آئی اے’ کے مختلف بلیک سائٹس منتقل کیا جاتا رہا جو اس وقت مراکش، افغانستان، پولینڈ اور رومانیہ میں موجود تھے۔

عمار بلوچ کا ٹرائیل ابھی تک چل رہا ہے، جہاں اس پر الزام ہے کہ وہ 9/11 کے سانحے کے ایک کردار تھے اور اسکے علاوہ کراچی میں امریکی کونصل خانے پر حملے کا بھی پلان بنا رہے تھے۔

عمار نے ایک ” ورٹیگو” (چکر) کی تصویر بنایا تھا، ورٹیگو اس کیفیت کو کہتے ہیں، جب آپ رکے ہوتے ہیں لیکن پوری دنیا آپکو اردگرد گھومتی، چکراتی محسوس ہوتی ہے اور فلسفیانہ نقطہ نظر میں بھی یہ چکرادینے کے ماحول میں استعمال ہوتا ہے، لگتا ہے بلوچ بھی “ورٹیگو” کے کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے، جہاں ہم تو رکے ہیں، لیکن دنیا گھوم رہی، صرف گھوم نہیں رہی بلکہ اس چکر میں ہم پِس بھی رہے ہیں۔

یہ تھے گوانتاناموبے سے نکلنے والے فن پاروں میں سے ایک تصویر کے مصور عمار ال بلوچی کی مختصر سی کہانی۔