نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی ضمانت منظور

431

نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کرنے والی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مقدمے میں گرفتار مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی ہے۔

عدالت نے راؤ انوار کے علاوہ مقدمے میں نامزد سابق ڈی ایس پی قمر اور دیگر ملزمان کی ضمانت بھی منظور کرلی ہے۔ ملزمان کو ضمانت کے بدلے 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

راؤ انوار اور دیگر ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے رواں برس 13 جنوری کو ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود سمیت پانچ افراد کو قتل کیا تھا۔

اس مقابلے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا جب کہ واقعے کی دو مختلف ایف آئی آرز شاہ لطیف تھانے میں سرکار کی مدعیت میں درج کی گئی تھیں۔
محکمانہ انکوائری میں بھی یہ بات منظرِ عام پر آئی تھی کہ راؤ انوار نے نہ صرف نقیب اللہ بلکہ 400 سے زائد ملزمان کو مختلف جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا تھا۔

رائو انوار کو نقیب اللہ قتل کیس میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے موقع پر پیش ہوئے تھے۔

درخواست ضمانت میں راؤ انوار کے وکیل کا موقف تھا کی ان کے موکل کا نام قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا ہے۔ راؤ انوار مقابلے کے وقت جائے واردات پر موجود ہی نہیں تھے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد اور کیس کے مدعی خان محمد کے وکیل صلاح الدین پنہور نے وائس آف آمریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلے سے مطمئن نہیں اور اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے میں راؤ انوار کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ یہ قتل ان کے حکم پر کیا گیا تھا۔

پولیس نے سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر ملزم راؤ انوار کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کر انہیں وہیں حراست میں رکھا ہوا ہے جس کے خلاف نقیب اللہ کے اہلِ خانہ کی اپیل سندھ ہائی کورٹ میں پہلے ہی سے زیرِ سماعت ہے۔

لیکن اس درخواست کی سماعت کے موقع پر متعدد بار راؤ انوار کے وکیل غیر حاضر رہے تھے جس کی وجہ سے کیس میں اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔