ناقص العقل زہری اور آٸندہ الیکشن
تحریر: چاکر زہری
دی بلوچستان پوسٹ
سادہ سے الفاظ میں تو شعور اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہا جاتا ہے۔ طب اور نفسیات میں اسکی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ شعور اصل میں عقل کی ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے، جس میں ذاتیت، فہم الذاتی، داناٸی اور آگاہی کی خصوصیت پاٸی جاتی ہو۔ اور ذاتی و ماحولی حالتوں میں ایک ربط موجود ہو۔
یہ شعور شاید دنیا کے اور ممالک میں پاٸی جاتی ہو مگر زھری کے باشندوں میں یہ چیز ہے ہی نہیں۔ یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ اہلیان ِ زھری اس لفظ سے بھی واقف نہیں۔ جو قوم شعور کے لفظ سے واقفیت نہ رکھتا ہو، وہ قوم خاک با شعور ہوگا۔ فہم الذاتی، ذاتیت اور ماحول سے ربط کا رہنا دور کی بات ان بیچاروں کو پتہ ہی نہیں کہ کیا چیز ہمارے لیٸے بہتر اور کیا چیز بدتر ہے۔ اگران میں کچھ شعور ہوتا تو آٸندہ الیکشن کے لیٸے ان میں گہما گہمی نظر نہ آتی۔ ان بیچاروں کو پتہ ہی نہیں کہ اس حالت میں ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
یہ وہی پرندے ہیں، جو پنجرے میں اپنے پر خود کُتر کر رقص کرتے ہیں۔ یہ وہ مینڈک ہیں جو کنویں کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ شاید وہ مینڈک بھی کنویں سے نکلنے کی سعی و کوشش کریگا، مگر یہ بیچارے اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ مجھے ان احمقوں کی ان احمقانہ حرکات سے رنج اور غم نہیں، مگر ہاں انکی احمقی نادانی اور چمچہ گیری پر تعجب ضرور ہے۔ اس لیۓ کہ جس علاقے سے نوروز خان، بٹے خان اور دلجان جیسے جانثار پیدا ہوں، جو اپنی قیمتی جانیں وطن ِ عزیز کے لیٸے قربان کریں اور دوسری طرف امان اللہ، ثنا اللہ، نعمت اور دوسرے کاسہ لیس ان شہدا کے خون کا سودا کرکے الیکشن میں حصہ لیتے ہوں۔
تعجب اس بات کا کہ یہ بیچارے ایسے افراد کو چنتے ہیں، جو بعد میں ان کے لیۓ وبال ِ جان بن جاتے ہیں اور پھر پانچ سال تک بیچارے بھکاریوں کی طرح انکی راہ تک تک کر تھک جاتے ہیں۔ جس طرح 2013 میں ثنا اللہ جیسے درندے کو چنا گیا تھا، جس نے اقتدار کی مستی میں آکر انجیرہ کے بیچارے اور معصوم عوام کو انکے گھروں سے بیدخل کر دیا۔
دوسری دنیا کے باشعور اقوام ایسے نماٸندوں کو چنتے ہیں، جو ان کے لیٸے پدر ِ ثانی کا کردار ادا کرتا ہے۔ انکے مساٸل کو حل کرتے ہیں، جو انکے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ مگر یہاں ہر چیز حقیقت کے برعکس ہے۔ یہاں ہم خود ہٹلر اور چنگیز خان صفت افراد کو چنتے ہیں، جو بعد میں گرگ ِ خونخوار کی طرح ہمارے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔
ارے نادانو! تمھیں اتنا پتہ نہیں، تمھیں اتنا شعور نہیں کہ ہم جسے منتخب کرتے ہیں، وہ ہمارا رہنما اور رہبر نہیں بلکہ ہمارے پاوں کے بیڑیوں کو اور مضبوط اور سخت کرنے والے ہیں ۔ ہمیں اور زیادہ غلامی کے اندھیروں میں دھکیلنے والے ہیں؟
ارے نادانو! تم امان اللہ، ثنا اللہ، عبدالرحمان کے پیچھے پڑے ہو، جو خود ایک نمبر کے دروغ گو، چور اور ڈاکو ہیں۔ یہ ثنا اللہ، امان اللہ خان نہیں بلکہ بے ضمیر اور زر مرید خان ہیں۔
ارے کم بختو! جب امان اللہ اپنے باپ کے فکر اور نظریئے سے روگردانی کرسکتا ہے، ثنا اللہ اپنے بھاٸی رسول بخش کو قتل کرسکتا ہے تو کیا وہ آپ سے دھوکہ نہیں کرسکتے؟
میں لکھ لکھ کر تھک جاونگا، قلم ٹوٹ جاٸیگا۔ سیاہی ختم ہو جاٸنگے۔ مگر تم نہیں سمجھوگے۔ مجھے تم سے گلہ نہیں کیونکہ تم نادان نا سمجھ ہو۔ جو اپنی اچھاٸی براٸی نہ جانتے ہو اور جو اتنا شعور تک نہیں رکھتے ہو تو وہ میری نظر میں جانور ہے، درندہ ہے اور جانور بیشک بے عقل اور حیوان ہے۔ جس سے گلہ شکوہ کرنا نادانی ہے۔