مشکل دورانیہ اور نجات کی راہ – شہیک بلوچ

308

مشکل دورانیہ اور نجات کی راہ

تحریر : شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مشکل وقت کی چھلنی سے بہت کم لوگ ہی نکل پاتے ہیں، تاریخی عمل کے دھارے میں کچھ جلتے ضرور ہیں لیکن وہ پکتے نہیں بلکہ راکھ ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں، جو پک کر کندن بن جاتے ہیں۔ جدوجہد ان کے بس سے باہر ہے جو ناکامی کے وجوہات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ بذات خود ناکامی کا حصہ بن جاتے ہیں، ایسے کردار اپنی راہ میں خود رکاوٹ بن کر مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں، لیکن تاریخی عمل کو کسی صورت آگے نہیں بڑھاتے اور کسی بھی حوالے سے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ تاریخی عمل میں کردار وہ ادا کرتے ہیں جو جدوجہد میں ناکامیوں کے اسباب کو سمجھتے ہوئے انہیں دور کرتے ہیں نا کہ اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جب کوئی اپنے مقصد سے ہی ہٹ جائے تو پھر جدوجہد کی بنیاد ہی کیا رہ جاتی ہے، دانشمند جہدکار مقصد نہیں ذرائع تبدیل کرتے ہیں اور عملی طور پر جہد کو منظم کرتے ہوئے نجات کی راہ کو ہموار کرتے ہیں۔

لینن کے جدوجہد کی تاریخ واضح ہے کہ لینن نے عمل و علم کے ربط کو قائم رکھ کر جدوجہد میں ناکامی کے اسباب تلاش کیئے اور انہیں دور کیا، لینن یہاں عمل کرتا وہاں لکھتا، یہاں غلطی کرتا وہاں لکھتا اور نئی پالیسی مرتب کرتا یہی ایک لیڈر کی کوالٹی ہوتی ہے، جو علم و عمل میں ربط کو قائم رکھتا ہے اور رہنما ہونے کا کردار ادا کرتا ہے۔

آج جب بلوچ تحریک ایک سخت دورانیہ سے گذر رہی ہے تو ایسے میں جدوجہد کو از سر نو منظم کرنے کی بجائے راہ فرار اور پارلیمانی جماعتوں کے زیر سایہ ہونے کی تدبیریں سوچھی جارہی ہیں لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ راہ فرار کسی صورت مستقل تسکین کا ذریعہ نہیں بن سکتی اور نا ہی یہ پارلیمانی جماعتیں بلوچ نیشنلزم کی جدوجہد کا متبادل بن سکتی ہیں بلکہ ریاست ان کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے، ان میں اکثریت موقع پرستوں کی ہے جو صرف اپنی ذاتی موقع پرستی کے لیئے پیش پیش ہیں۔ جب اقتدار ملے تب ان کا اصلی رنگ ڈاکٹر مالک و ثنا اللہ زہری کی صورت میں واضح ہوجاتا ہے۔ یہ بات بی این پی مینگل یا نیشنل پارٹی کی نہیں بلکہ نوآبادیاتی نظام میں پیوست جبر کا ایک tool ہے جسے وہ نواز شریف جیسے کاروباری مگر مچھ کو استعمال کرنے نہیں دے سکتا جو کہ پنجاب سے دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنتا ہے، تو ایک بلوچ کی کیا اوقات ہے۔

جب آپ نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرکے اسکا حصہ بننے کی کوشش کرینگے تب آپ کی جدوجہد ہی بے بنیاد اور کھوکھلی ہوکر رہ جائیگی اور آپ نہ چاہتے ہوئے بھی نوآبادکار کا ایک نمائندہ بن کر رہ جائینگے۔ شفیق مینگل یا سراج رئیسانی جیسے کردار نوآبادکار نے تخلیق کیئے نا کہ وہ بلوچ سماج کا حصہ تھے اور یہی نوآبادیاتی نظام کی غلاظت ہے، جو کسی نہ کسی سطح پر اپنا نمائندہ بنا سکتا ہے اور جب آپ اس کے نظام کا حصہ بن کر رہ جائینگے تب آپ اپنے کردار کا اختیار اس کے حوالے کرکے محض ایک اداکار بن کر رہ جائینگے۔

آج بلوچ جدوجہد جاری ہے، چاہے جس صورت میں بھی ہے، بلوچ رہنماؤں کے رویوں نے نقصان دیا ہے لیکن دوسری جانب بلوچ جہدکار جہد آزادی کو از سر نو منظم کرنے اور اس بابت اتحاد کے لیئے پرعزم و کوشاں ہیں۔ ہم پر امید ہیں کہ بلوچ جدوجہد مزید منظم ہوگی لیکن اس کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور جدوجہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے نوآبادیاتی نظام میں کسی بھی حصہ داری کا مرتکب ہونے سے بچتے ہوئے ایک متبادل بیانیہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے، اتحاد و یکجہتی ہی ہمارا راستہ ہے اور بلوچ قومی آزادی ہماری منزل اور نوآبادیاتی نظام کیساتھ سمجھوتہ بلوچ قوم کے مستقبل کو غلامی و ظلالت کے اندھیروں میں جھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں۔