مالاؤں کی موتیاں – سمیر جیئند بلوچ

398

مالاؤں کی موتیاں

سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

یہ دردبھری سوانح عمری بلوچستان سمیت کولواہ، تیرتیج آواران کے اس خاندان کی ہے، جنہوں نے حالیہ بلوچستان کی جنگ آزادی میں براہ راست یا بلاواستہ اپنے جانوں کے نذرانے، وطن کی آبیاری کیلئے دیتے چلے آرہے ہیں۔ ویسے سیاست میں ان شہداء کا قدم رکھنا اس وقت شروع ہوا، جب بلوچ وطن کی آزادی کیلئے بلوچستان کے طول و عرض میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں تھیں۔ یہ صدائیں بلوچ مسلح تنظیموں، سرفیس سیاسی جماعتوں کے ذریعے شروع ہوئیں۔

مجھے یاد ہے جب دوہزارکے زمانہ میں خال خال بم دھماکہ ہوتے تھے، تو سیاست کے طالب علم یا عام عوام بحیثت صحافی ہم سے سوالات کرتے تھے کہ سنا ہے یا قیاس ہے کہ یہ دھماکے وغیرہ بلوچ مسلح تنظیمیں کر رہے ہیں، اس بارے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ تو ہم فوراَ اپنے نا سمجھی اور اناڑی پن کے سبب سینہ تان کر جواب دیتے، نہیں جی یہ تو پاکستان کی ایجنسیاں کر رہے ہیں اور کون کر سکتا ہے؟ یہ اور ان جیسے غیر منتقی جواب دیکر انھیں مطمئین کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یقیناًوہ بے چارے کوئی بات نہ کرتے، مگر مجھے یقین ہے کہ انہیں ہماری کم علمی پر ضرور غصہ آیا ہوگا۔ ہم بھی اس زمانے میں اندھا دھند پیٹ پرستوں، انھی منافق اور مکار لومڑی چالبازوں پر تکیہ کیا ہوئے تھے۔ جیساکہ آج ہمارے ہزاروں عوام انکا دم چلہ بنکر انکے لیئے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی یہی ہیرو تھے، سردار اختر جان مینگل آج کی طرح دوکشتیوں کا مسافر، ڈاکٹر عبدالمالک ، حاصل خان کو تو براہ راست پاکستانی ایجنسیوں نے گو د لیا ہوا تھا۔ اور ڈاکٹر عبدالحئی جان حسب معمول گدا گری کے بھیس میں تھے، جو ذاتی جاگیریں ہونے کے باوجود ہر وقت بندر جیسا منہ بناکر سریاب روڈ پر بازار جانے کیلئے کسی بائیسکل والے سے لفٹ لینے کے انتظار میں کھڑا ہوتا تھا۔

ہم یہی سمجھتے تھے کہ واقعی اس کا حال عوام پر پیسہ پانی کی طرح بہانے اور خرچ کرنے کے سبب ایسا ہواہے، مگر ہم غلط فہمی میں تھے۔ اب یاد پڑتاہے کہ وہ عوام پر کیسے خرچہ کرتا، انہیں آج بھی قسم دیکر پوچھیں کہ کسی نے اس کی جیب سے ایک کپ چائے پیا ہے؟ یہ بھی ہمارے لیڈر تھے انکی لیڈری آج بھی بحال ہے مگر ہم بے وفا ثابت ہوئے۔ انکی ہر بات پر ہمیں ایمان کی حد تک یقین تھا کیونکہ ہماری ناسمجھی حد سے گذر چکی تھی ،اور دوسری مجبوری تھی کہ اخبار کا پیٹ بھرنے کیلئے ہم ان کا بو سونگھتے تھے کہ کہیں کوئی اخباری ہیڈ لائن انکے باتوں سے غلطی میں نہ نکلے۔ مگر ہماری بھول تھی کہ رات کو انکی کلاسیں کوئٹہ کینٹ میں ہوتی تھیں۔ بات اپنی جگہ، وہ آزادی پر بات کرنے کیلئے کبھی خواب میں بھی ایسی حرکت نہیں کرتے تھے۔

انکے سرکار یاترا یا درشن کا یقین اس وقت ہوا جب اختر جان مینگل وزیر اعلیٰ تھے، اس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کچھ کامریڈ عاشقوں نے شال کے دیواروں پر وال چاکنگ کی کہ’’ ہم پاکستان سے حق خود ارادیت بشمول حق علیحیدگی مانگتے ہیں‘‘ اس پر موصوف کو شاید اگر رات کچھ موقع میسر آتا، وہ ان لکھے الفاظ کو چاٹ کر پینجابی فوج کو باور کراتے کہ میں آزادی کے قطعاً حق میں نہیں ہوں۔ بھلا ہو اس وقت کے بی ایس او کے چیئرمین سعید فیض کاسردار کی یہ دلی تمنا اسنے راتوں رات پوری کی، صبح شال کی دیواریں حاصل خان کی سر کی طرح صاف تھیں۔ مگر اس کے باوجود فوج کو ترس نہیں آیا، ایجنسیوں نے انہیں وزارت اعلیٰ کے برائے نام عہدے پر گوارا نہ کیا، بلکہ آنجہانی پارٹی کو دولخت کردیا۔ تاکہ آئندہ نسل در نسل کوئی اورفرمانبردار آقاء کا غلام اور کوئی سردار ایسی حرکت نہیں کر سکے۔ اس وقت ہم صحافی آج کی طرح بے بس تھے۔ جو انکی مرضی ہم بھی ویسا لکھتے اور بولتے۔ گویا ہماری قلم انکی زبان کے مطابق وہی لکھتا جو موصوف اپنا ضمیر بیچ کر بولتے۔ یعنی جو ایجنسیاں انہیں کہتے وہ ہمیں بتاتے، ہم خوش تھے کہ میرا لیڈر کہہ رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان لیڈروں کے ہاتھوں بیوقوف بن چکے تھے۔

ایک دن ایک دوست نے بتایا کہ واجہ غلام محمد اس علاقے میں آچکے ہیں۔ ہم حسب دستور، جو صحافیانہ ہمارا کرتب تھا، ہم وہاں مقامی ہوٹل میں ان سے ملنے گئے۔ آپ کو بھی یاد ہے اس وقت سابقہ بی این ایم ٹوٹاہواتھا، واجہ غلام محمد چند دوستوں کے ساتھ نیشنل پارٹی میں پارٹی کو ضم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے بحال رکھنے کا اعلان کرچکا تھا۔ ملاقات دوران ہم نے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ جناب کیا اب کے بحال بی این ایم کے منشور میں حق خود ارادیت وہی ڈاکٹر حئی مالک اور اختر والاہی ہوگا یا اپنے اصلی حالت جیساکہ اس کا منصب ہے جیسا ہوگا کہ وہ وہ اپنا علیحدگی کا حق محفوظ رکھے گا؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہاکہ “یہ ایساہی ہوگا” ہم چونک گئے۔ موقع پاکر یہ بھی وضاحت جاننا چاہاکہ حالیہ بم دھماکے ہورہے ہیں، تو موجودہ لیڈران کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی ایجنسیاں کر رہے ہیں۔ تو انھوں نے قہقہ لگاکر کہاکہ اگر یہ بیچارے ایسانہ کہیں تو ان کی جواب طلبی ہوگی اور لفافہ آنابند ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اب دن کو کوئی انگلی سے چھپا نہیں سکے گا۔ اب جو ہونا ہے سرعام ہوگا ۔ہم کچھ دیر بعدمنہ لٹکائے پریس کلب گئے اور ایک دوسرے کو دل ہی د ل میں کوسنا شروع کردیا کہ ہم کیسے ان پیٹ پرستوں کے ہاتھ کے کھیلونے بنے تھے؟ حقائق کچھ اور ہیں بس اسکے بعدبم ھماکوں کا سلسلہ جاری رہا۔

سیاسی جماعت بی این ایم کا نیا ڈھانچہ بنا۔ وہاں یہ باتیں ببانگ دھل اسٹیج پر کہے گئے، یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اچانک ڈاکٹر اللہ نذراپنے چند دوستوں سمیت کراچی سے ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب ہوئے۔ اب بی این ایم بلوچستان،کے جگہ بلوچ کے تبدیلی سے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے سیاسی سرگرمیاں تیز ہوئیں۔ اسی طرح بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنازیشن کے نو جوان چیئر مین بشیر زیب منتخب ہوئے تھے۔ انکی تنظیم کی قربت بی این ایم سے لنک ہوئے تھے۔ عملاَ دونوں سرفیس تنظیم اور پارٹی رہنما سیاست کو گرمانے لگے۔ وہاں بی این ایم نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے اغوا سمیت اپنے سینیئر رہنما نصیر بلوچ سمیت دوسرے لیڈروں کے غیر قانونی حراست پر نالاں تھے۔ انھوں نے ریلیاں نکالنا شروع کردیا، جہاں ایک نیا نعرہ شدت سے گونجنا شروع ہوا ’’پنجابیوں کا قبرستان بلوچستان‘‘اب حالات تیزی سے تبدیل ہورہے تھے، بی این ایم نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بازیابی کیلئے نہ تھمنے والا احتجاج کا سلسلہ شرو ع کردیا تھا۔

ایک روز پریس کلب میں ایک دعوت نامہ پر نظر پڑی تو پڑھ کر چونک اٹھا کہ بی این ایم و بی ایس او کی جانب سے ننھے منے بچوں کی ریلی اللہ نذر بلوچ کی بازیابی کیلئے بازار سے نکل رہی تھی۔ اتفاقاَ ریلی پریس کلب کے سامنے منعقد ہوئی، جب ریلی ختم ہوا، اب تک ریلی منتشر نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی منظر عام پر آنے کی خوش خبری پہنچ گئی۔ بعد کے دنوں میں وہ ضمانت پر رہاہوئے۔ مگر دوسری طرف جنگ اپنے انتہا کی جانب بڑھ رہا تھا۔ کچھ مہینوں کے اندر مری بگٹی علاقے میں جنگ کی باتیں عام ہونے لگیں۔ فوجی آپریشن شروع ہوئے، نواب بالاچ مری اور نواب اکبر خان پہاڑوں میں روپوش ہوئے، اس کے بعد ہر طرف سے جنگ کا طبلہ بجنے لگا۔ سرکاری مخبروں کی ٹارگٹ کلنگ ایک طرف سے تو قابض ریاست کی جانب سے دوسری طرف سے، بلوچ سیاسی ورکروں سمیت لیڈروں کے غائب ہونے پھر مسخ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسطرح فوج اب بیرکوں سے نکل کر بلوچستان کے شہری اوردیہی علاقوں میں اپنی وحشت اور ظلم کی خاطر پہنچنا شروع کردیا۔ یہاں بات نہ بنی تو اپنے کمک کیلئے مقامی ڈیتھ اسکواڈ وں کی بھرتی، نام نہاد شدت پسندوں کے زریعے شروع کردی۔

اس کام کیلئے وڈھ سے پاکستان کا اہم چمچہ نصیر مینگل کے خونخوار بدمعا ش بیٹوں شفواور عطو کو چنا گیا، نال سے اسلم بزنجو، زہری سے ثناء کے بیٹے سمیت میرزیب کو چنا گیا۔ شال مستونگ میں سراج ، سوراب بیسیمہ میں خدارام، خاران میں مظفر جمالی،جھاؤمیں قدوس بزنجو، مکران میں نیشنل پارٹی کے ڈیتھ اسکواڈ ونگ کو یہ کام سونپا گیا۔ اس کے بعد مسخ لاشوں کی لائنیں لگنا شروع ہوگئیں، تا وقتیکہ توتک سے شفیق مینگل کا اجتماعی قبروں کا انکشاف، پھر دریافت نہ ہوا، اس دوران میر زیب،ثناء کے بیٹے ،ادھرسراج رئیسانی کابیٹا، خاران میں مظفر جمالی اپنے انجام کو پہنچے۔

اجتاعی قبروں کی دریافت کے بعد پاکستان کی رسوائی دنیا میں شروع ہوئی۔ تو اب اپنے بنائے ہوئے ریموٹ شفیق عرف شفو کے خلاف سرکار کے کچھ تیور بدل گئے۔ مگر اس کے مقابل اب میر علی حیدر محمد حسنی ،اور قدوس بزنجو کو شاباشیاں دینا شروع ہوگئیں۔ مکران میں مسلح اور سرفیس جہد تیز ہوا ہی تھاکہ ،بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کو شال سے اٹھایا گیا، پھر مکران ہی کے جلسے میں بی ایس او کے سیکرٹری جنرل رضاجھانگیر کو ۸اگست ۲۰۱۳ء کے دن جلسے میں قابض فوج نے گرفتار کیا۔ مگر لوگوں کی احتجاج پر ڈر کے مارے چھوڑدیا۔ جب جلسہ اختتام پذیر ہوا، لوگ منتشر ہوئے تو فوج نے بی این ایم کے رہنما امداد بجیر کے گھرپر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کے بہانے مقابلہ کا ڈرامہ رچاکر وہیں شہید کردیا۔

ان دنوں چین پاکستان اقتصادی راہ داری( سی پیک) پرکام کا آغاز شروع ہونے والاہی تھا کہ چین کی مدد سے کولواہ،آواران مشکے میں ایک بہت بڑا مصنوعی زلزلہ ۲۰۱۳ء کے اختتامی مہینوں چین کے مدد سے کروایا گیا۔ تاکہ ان علاقوں میں نو آبادیاتی فوج کو آسانی سے لایا جاسکے۔ ( مصنوعی زلزلہ بابت پاکستان کے مشہور مجلہ اخبار جہان میں اس بابت کالم چھپا) فوج پہلے سے بیرکوں سے چوری چھپے نکلا تھا۔ مگر اب اسے منظر عام پر دکھایا گیاکہ زلزلہ بحالی کیلئے آئے ہیں۔ اس زلزلے کے بعد ہزراوں گھر فوج نے جلائے۔ خاندانوں کے خاندان قتل کردیئے، اسی دوران شکاری عرض محمد نامی شخص کے خاندان کے آٹھ افراد گجلی مشکے میں بمباری کا شکاربنے۔ سنہڑی مشکے میں دودابلوچ کے خواتین سمیت بھائی اور چھ دوسرے بلوچ فرزند شہید کردیئے گئے۔ پھر ڈاکٹر اللہ نذر کے دو بھائیوں سفرخان بلوچ اور چھوٹے بھائی علی نواز گوہر سمیت بھتیجا شیہک بلوچ سمیت خاندان کے پندرہ افراد، ایک ہی گھر میں شہید کردیئے۔ انکے ر شتہ دار،کمانڈر رحمت اللہ اور اسکے دو بیٹوں کی شہادت اسکے علاوہ ہیں۔

دو تین بندے تو شہید کرنا معمول تھا یا ہے، مگر یہ وہ انکے کارنامے ہیں جو خاندانوں کے خاندان ختم کرنے کے ہیں۔ اسی طرح آزادی پسند رہنما اختر ندیم کے تین بھائیوں سمیت خاندان کے آٹھ افراد بھی گرجک مشکے میں خونخوار آرمی کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔ جن میں چار دو لہے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد ان کے فیملی کے بیس بچے جن کی عمریں آٹھ سال سے لیکر پندرہ سال کے بیچ تھے، کراچی میں ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب ہوئے۔ جن کا آج تک معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ پھر ناپاک فوج نے علی حیدر اور قدوس بزنجو اور برکت کے ڈیتھ اسکوڈ کے ذریعے۔۲۸ اگست ۲۰۱۴ء کو شہیدرضا جھانگیر کے والد محترم بختیار سمیت اسکے خاندان کے چھے افراد کو اپنے کرایہ کے قاتل لشکرءِ خراسان کے ذریعے عین اسوقت شہید کروایا، جب وہ آواران کے علاقے کان زیلگ میں ایک بزرگ کے مزار پر حاضری دینے کیلئے موجود تھے۔

اس کے بعد انکے خاندان کے افراد تیرتیج چھوڑکر کولواہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ مگر وہاں قابض ریاست کے سفاک آرمی نے شہید رضا جان کے کزن مبارک علی عرف قاضی کو۲۸ جنوری۲۰۱۸ء کے دن شہید کردیا۔ یہ زخم اب تک نہیں بھرا کہ درندہ صفت آرمی، علی حیدر محمد حسنی اور قدوس بزنجو کے مقامی ڈیتھ اسکوائڈ نے ۱۵ جولائی کوانکے خالہ ذاد بھائیوں ،بی ایل ایف کے عظیم کمانڈر خیر بخش ناز عرف بابا گہرام اور گوریلا کیمپ کمانڈر عبدالواحد عرف تلار بلوچ کو دیگر دو ساتھیوں ،استاد جنگیان اور پٹھان بلوچ کے ساتھ طویل جنگ کے بعد شہید کردیا۔ یوں بلوچ وطن کی آزادی کے پاداش میں مالا کے یہ دانے بھی ایک ایک ہوکر بکھیر دیئے گئے۔

جب ہم ان قومی سپوتوں کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیلئے پہنچے تو شہید رضا جان اور شہید مبارک علی کی ماں جوکہ بہنیں ہیں، ہمارا خیال تھاکہ وہ عام خواتین کی طرح ہمیں دیکھ کر بین شروع کریں گی۔ مگر وہاں کا نظارہ کچھ الگ تھا، جب دونوں ماؤں سے حالیہ شہدا کے بابت ہم اظہار افسوس کرنے کی کوشش کی۔ تو انھوں نے فخریہ انداز میں کہاکہ پہلے آپ کھانا کھائیں کیونکہ ہمارے دولہے شہدا کی لسٹ کچھ لمبی ہے۔ فراغت میں بات کرتے ہیں۔ انکا یہ ہیروانہ انداز دیکھ کر یقین ہونے لگا کہ بلوچ وطن کی آزادی اگر نزدیک نہیں تو دور بھی نہیں ہوگا۔ حالانکہ اس سے قبل ہم نے صرف یہ سنا تھا کہ شہید شیہک جان اور شہید زاکرجان کی ماں محترمہ ماہ جان ہی کو بہادر خاتون ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ مگران ماؤں کو دیکھ کر لگتا ہے، بلوچ سرمچاروں کی ہر ایک کی ماں بہادری میں ایک ہی جیسی ہے۔

ذرا سوچئے! جن سرمچاروں کے ماں ایسے ہیں، تو وہ خود کیسے ہونگے؟ جو قابض ریاست کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بلوچ وطن کے تمام بہادر بہن بھائی شہیدوں کو لال سلام اور خاص جھکتے ہوئے اس عظیم بلوچ قوم کی ماں محترمہ گل خاتون کو نذرانہ عقیدت کہ جنہوں نے سفرخان اور علی نواز عرف گہور خان جیسے عظیم شہید قوم کو سونپے۔ بلکہ حیرت یہاں سے ہونے لگتی ہے کہ قومی ماں اپنے عمر کے آخری حد چھونے اور تقریباَ ۹۵سالہ عمر میں بھی جب اسے قومی شہیدوں کی شہادت کا معلوم پڑتاہے، تو اپنی بیٹی ماہ جان کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرماتی ہے کہ خبردار کسی بھی لمحہ بچوں کے شہادت پر کمزوری دکھائی۔ کیونکہ نہ صر ف یہ بچے ہمارے پاس قومی امانت تھے، بلکہ ڈاکٹر اللہ نذر بھی ہمارے پاس قومی امانت ہے۔ پھر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کیلئے آڈیو ریکارڈ بھیجتے ہیں۔ وہ الفاظ حرف بحرف یاد نہیں البتہ تشریح یہی بتاتے ہیں ’’کہ اگرتو ڈاکٹراللہ نذر کی سرینڈر کی خبر آئی یا تونے وطن کے غداروں کو معاف کیا، بحیثیت ماں میرا دودھ تم پر حرام ہوگا ۔‘‘ یہ نصحیت اور ان شہدا کی شہادت میں قوم کیلئے سبق آموز باتیں یقیناً عمل کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کہاں تک لڑ سکتا ہے۔ تاریخ لکھے جانے کیلئے بے قراری سے انتظار کررہا ہے ۔