لوگوتھراپی – برزکوہی

289

“لوگوتھراپی”

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

امریکی سابق صدر اور دنیا کے عظیم لیڈروں میں شمار، ابراہم لنکن نے ایک بار اپنے بیٹے کے استاد کو خط لکھ کر کہا کہ “میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا کرنے کی کوشش کیجئے کہ یہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائیے کہ جو کچھ سنے، اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور درست ہو تو عمل کرے۔ اسے دوستوں کیلئے قربانی دینا سکھائیے، اسے بتائیے کہ اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے، اسے بتائیے کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔ اسے سمجھائیے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے اور خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار رہے۔ اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنے روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے بتائیے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر قائم رہے، ڈٹا رہے۔ آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آئیے مگر پیار اور دلاسہ مت دیجیئے۔ کیونکہ یاد رکھئیے، خام لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔”

موچی کا بیٹا، ایک غریب انسان لنکن جب عملی زندگی کے تمام تجربات اور جہدوجہد سے گذر کر اپنے بیٹے میں وہ انسانی صفت و خصوصیت، جذبات، احساسات اور مستقل مزاج انسان بننے کی تمنا کو لیکر اپنے بیٹے کی بہترین زندگی کی تشکیل میں بنیادی اینٹ کسی چیز کو قرار دیتا ہے، تو وہ تعلیم ہے پھر تعلیم سے علم اور علم سے ذہنی تربیت ہے۔

ذہنی تربیت سے ہی انسان کے ذہن کے تمام بند دریچے کھل کر حاصل شدہ علم پر مکمل عمل پیرا ہوکر انسان ہر شخص کا بات کو سنے گا لیکن اس وقت تک وہ اسے سچ نہیں مانے گا اور اپنا عقیدہ نہیں بنا دیگا، جب تک اس کو علم و فلسفے کی رو سے پرکھے اور جانچے نہیں۔ جب وہ درست اور سچ ثابت ہو، تو اس پر ڈٹے اور شور مچاتے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے یعنی لوگوں کی آراء ماحول اور حالت جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، ردعملی یا ماحول کے شکار ہونے کے بجائے سچائی اور حقیقت پر ہمیشہ مستقل مزاجی سے قائم رہے۔ دوستوں کیلئے قربانی دینا چاہیئے یعنی بہترین سچا اور انقلابی دوستی میں کبھی بھی ڈپلومیسی نہیں ہوگا، حقیقی دوستی میں ڈپلومیسی کی حیثیت اور افادیت کا شمار عیاری، منافقت، جھوٹ، دغا بازی کے زمرے میں شمار ہوگا۔ یاد رکھیں ڈپلومیسی صرف دشمن کیلئے ہوتا ہے، حقیقی اور قابل بھروسہ دوست کے ساتھ ہرگز نہیں کیونکہ ڈپلومیسی حقیقی اور قابل بھروسہ دوستی کے درمیان موجود ہو تو پھر وہ دوستی خود قابل بھروسہ مستقل اور دیر پاء نہیں ہوگا بلکہ ڈپلومیسی حقیقی دوستی کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے، دوست کیلئے قربان ہونا، قربانی دینا اصل دوستی کا معیار ہے۔

منفی سوچ، خوشامد اور بہت زیادہ زبان پر مٹھاس رکھنے والے لوگوں سے ہوشیار رہیں، خوشامد یا زبان پر ذیادہ مٹھاس رکھنے والے لوگ ہمیشہ دل و دماغ میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔ اس لیئے وہ دراصل اپنا منفی سوچ اور منفی اعمال کو چھپانے کی خاطر مصنوعیت کو اپنا کر اپنے باطن کو چھپانے کی خاطر خوشامدی اور زبان پر مٹھاس لاکر، دوسرے بندے کو دکھ دیتے ہیں یعنی ایسے بندوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے، ان کی خوشامدی اور مٹھاس پن مصنوعی اور وقتی ہوتا ہے، ایسے لوگ مستقبل میں بدترین دشمن ثابت ہوتے ہیں۔

باطنی طور پر باکردار، باعمل، سچا، مخلص، بے غرض اور بہادر انسان کو کبھی بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ مصنوعیت خوشامدی اور زبان پر مٹھاس لانے کی کوئی ضرورت ہی پیش نہیں آتا ہے۔

اپنے جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرو، مطلب یہ نہیں کہ اپنے دل اور روح کو بیچ دو۔ اپنے جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا معاوضہ وصول کرو، پہلے سمجھو ذہنی اور جسمانی صلاحیت کیا ہیں؟ خود صلاحیت کی پیمانہ اور مفہوم کیا ہے؟ اس کو جاننے سمجھنے کا پیمانہ کیا ہے؟ کس کے ہاتھ میں ہے؟ اپنا جسم، اپنا ذہن، اپنی صلاحیتیں، اپنے ترازو و پیمانے اور خود کے معیار اور خود کا تعین کردہ معاوضہ اور معاوضہ کی تشریح و مفہوم بھی خود کی خواہشات اور خود کی لغت سے اخذ کرنا پھر کیسے اور کس طرح درست ہوگا؟ اپنے دل و روح، علم، ضمیر، سوچ اور فکر کو نہیں بیچنا؟ بیچنا کہاں بیچنا صرف دشمن کے پاس؟

بیچنا تو بیچنا ہوتا ہے، ذاتی خواہشات و ہوس اور خوف کے آگے ذاتی و خونی رشتوں کے آگے، منفی اور فرسودہ راوایات کے آگے، ذاتی رواداری، معمولی سے معمولی مفادات اور ضروریات کے آگے، آسائش و آرام اور سکون کے آگے، قبائل پرستی، شخصیت پرستی، انا پرستی اور علاقہ پرستی کے آگے یعنی نہ بیچنے کے حصول پر ڈٹ کر، بغیر خود کا تعین کردہ معاوضہ کیونکہ سب سے بڑا معاوضہ تاریخ خود تعین کرتا اور فراہم بھی خود کرتا ہے۔

بحیثیت استاد شفقت سے ضرور پیش آو، مگر پیار اور دلاسہ مت دو کیونکہ خام مال کو بھڑکتا آگ ہی کندن بناتا ہے۔ سخت حالات، آذمائشیں اور مشکلات انسان کو پختہ بنادیتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک انسان سخت و مشکل حالات اور آزمائش سے نہیں گذرتا ہے، تب تک تو وہ پختہ نہیں ہوتا ہے کیا؟ اگر وہ سخت اور مشکل حالات پر قدم رکھتے ہوئے یا کچھ نہ کچھ گذرتے ہوئے بھی یا پھر گذر کر ٹوٹ جاتا ہے؟ تو پھر پختہ اور کندن نہیں بن پاتا کیوں؟ پھر پختگی اور مضبوط بننے کا فارمولہ کہاں غائب ہوا؟ تو پھر وہ ردعملی اور سخت، مشکل، پرکٹھن، گھٹن، تکلیف دہ اور منفی و مایوس کن ماحول و حالات کاشکار انسان ہوگیا، بجائے پختہ انسان بن جانے کے، کیوں؟ اس لیئے کہ اس انسان کی پہلے سے مذکورہ حالات اور ماحول کے حوالے سے ذہنی و جسمانی تربیت نہیں ہوا ہے، یعنی صرف سخت، حالات و مشکلات اور ماحول انسان کو پختہ نہیں بلکہ حالات اور ماحول سے قبل بھی انسان کی ذہنی و جسمانی تربیت اور پختگی کا کچھ نہ کچھ حدت انسان میں موجود ہو، تب جاکر سخت حالات اور ماحول انسان کی موجودہ پختگی کو مزید پختہ کردیگا، ذہنی تربیت کے بغیر وقت و حالات مشکلات ماحول اور واقعات کے رحم و کرم پر خود کو دوسروں کو چھوڑ کر پختہ ہونے کی تکیہ کرنا، خود غیر فلسفیانہ اور غیر سائنسی عمل ہے۔

وکٹر فرینکل ایک ماہر نفسیات یہودی تھا، وہ نازی جرمنی کی جان لیوا قید میں چلاگیا، اس بھیانک قید کے دوران فرینکل نے جو کچھ دیکھا اور بعد میں بتایا، ان کا بیان کرنا، انسانی سوچ سے پَرے اور ناقابل بیان ہیں، انسان اسے بیان کرکے تھرتھرا جاتا ہے، اس کے ماں باپ بہن بھائی اور بیوی کے ساتھ فرینکل کے سامنے وہ سب کچھ ہوا جوناقابل بیان اور انسانی شائستہ مزاجی اور اخلاقی اقدار انہیں دہرانے کی بھی اجازت نہیں دیتی اور انسان انییں پڑھ کر یا یاد کرکے تھرتھرا جاتا ہے، بعد میں اس کے ماں باپ بہن بھائی اور بیوی یا تو جرمن کیمپوں میں رہے یا مرگئے یا پھر انہیں گیس کے تنوروں میں ڈال دیا گیا۔

فرنیکل خود بھی بے انتہاءی اذیتیں اور ذلتیں برداشت کرتا رہا، اسے اگلے لمحے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اسے تنور میں پھینکے جانے والوں کی لاشیں نکالنی پڑینگی یا ان کی راکھ سمیٹنی پڑے گی۔

ان انتہائی تکیلف دہ اور کربناک صورتحال اور ماحول میں ایک دن فرینکل اپنے چھوٹے سے کمرے میں ننگے اور تنہاء بیٹھے ہوئے تھا کہ اس میں آزادی کا ایک احساس پیدا ہونا شروع ہوگیا، بعد میں فرینکل نے اسے انسان کی، آخری اور اصلی آزادی ،کے نام سے یاد کیا یعنی یہ ایسی آزادی تھی جو فرینکل سے نازی جیلر بھی چھین نہیں سکتے تھے، وہ اس کے ماحول کو بھرپور طریقے سے کنٹرول کرسکتے تھے، فرینکل اب ایسا خود آگاہ بن چکا تھا کہ وہ خود اپنے معاملات یا حرکات کا مشاہدہ کرسکتا تھا۔ اس کی بنیادی شناخت قائم تھی، وہ اپنے اندر یہ فیصلہ کرسکتا تھا کہ یہ سب اس پر کس طرح اثر انداز ہوگا یعنی جو کچھ اس کے ساتھ ہورہا تھا، اس محرک اور اس کے نتیجے میں اپنے ردعمل کے بارے میں اس کو یہ آذادی اور قوت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ جیسا ردعمل چاہے اس کا چناو کرسکے۔

رفتہ رفتہ اس نے بنیادی طور پر اپنی یاداشت اور تصورات کی مدد سے اپنے آپ کو ذہنی، جذباتی اور اخلاقی طور پر اس قدر سدھالیا اور اس کی یہ چھوٹی سی آذادی اس قدر بھرپور ہوگئی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ناذی جیلروں کے نسبت زیادہ آزاد محسوس کرنے لگا۔ بظاہر تو ان کے پاس زیادہ اختیار تھا تاکہ وہ اپنے ماحول میں جو چاہے کرسکتے تھے، لیکن فرینکل کے پاس زیادہ آزادی تھی، اس کے اندر اپنے خواہش کے مطابق اپنے ردعمل کو چن لینے کی بے پایاں طاقت پیدا ہوچکی تھی، فرینکل بجائے خود ماحول سے متاثر ہونے کے، اپنے اردگرد کے لوگوں کیلے مشعل راہ بن گیا اور اس سے متاثر ہونے والوں میں سے اس کے پہرہ دار بھی شامل تھے۔ اس نے دوسروں کے لیئے ان کی اذیتیں پر معنی بنادیں اور ان کو اپنے قیدوبند کی زندگی کو پروقار سمجھنے میں مدد دی۔

ان انتہائی تکیلف دہ اور کربناک صورتحال اور ماحول کی تپش میں بھی فرینکل نے انسانی فطرت کے بنیادی اصول کو پہچانا اور وہ اصول یہ ہے کہ انسان محرک ماحول حالات کے شکار اور ردعمل کے درمیان اپنی تمنا کے مطابق اپنا راستہ، سوچ و عمل، کردار اور مقصد کا خود تعین کرتا ہے۔ یہ حق آزادی اور اختیار ہر انسان کو حاصل ہے کہ کوئی کسی سے اور ماحول حالت جیسے بھی ہوں، جس طرح بھی ہوں، اس سے یہ حق چھین نہیں سکتا۔

تو اگر بلوچ سماج اور بلوچ سیاسی ماحول کا مجموعی جائزہ سطحی انداذ میں نہیں بلکہ نفسیاتی فلسفیانہ اور سائنسی بنیادوں پر اگر باریک بینی سے لیا جائے، تو ہم خود اور دوسرے لوگ کہاں پر کھڑے ہیں؟ کس حد تک ہم حالات و واقعات اور ماحول کا شکار ہوتے ہیں اور ہم پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں؟ کیا ماحول حالات اور واقعات کے تحت ہم اس کا شکار ہوتے ہیں یا خود ہماری بھی تمناء اور چناو ہوتا ہےکہ ہم اثرانداذ ہوں اور شکار ہوں؟ اگر انسان خود نہ چاہے تو اس کو کوئی دوسرا انسان جتنا چاہے ہنرمند، فن کارہو یا پھر ماحول و حالات جو بھی ہوں، وہ انکا شکار نہیں ہو سکتا ہے۔ ضرور انسان کی اپنی تمناء، خواہش، مرضی اور آرزو ہوتا ہے، تبھی وہ شکار ہوتا ہے۔

میں اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ علم فلسفہ، سائنس اور علم نفسیات سے یہ ثابت کرکے کہہ رہا ہوں، اب کوئی لاکھ دلیلیں دے کہ حالات و ماحول کا شکار ہوکر ردعمل کی بنیاد پر ایسا ہوا، میں نے ایسا کیا ہے، یہ سراسر جھوٹ اور غیرسائنسی اور کمزور دلیل ہوتا ہے، اس میں انسان کی خود کی رضامندی ضرور شامل ہوتی ہے، کسی معصوم بچے کی جب تک رضامندی نہ ہو، آپ اس کو زبردستی کوئی مٹھائی نہیں کھلا سکتے ہو۔

اسٹیفن آرکوئے ردعملی اور ماحول کے شکار ہونے والے لوگوں کے بارے میں کچھ یوں کہتا ہے کہ “ہربات پر ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اور ماحول کا شکار ہونے والے لوگ اپنے سماجی ماحول سے بہت متاثر بھی ہوتے ہیں، سماجی موسم بھی ان پر بہت کام کرتا ہے، جب دوسرے لوگ ان سے اچھے طریقے سے ملیں تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی انہیں اچھے طریقے سے نہ ملے تو فوراً مدافعتی رویہ اختیار کرلیتے ہیں اور تحفظ اور سہارا ڈھونڈنے لگتے ہیں اور ردعملی اور ماحول کا شکار لوگ ہمیشہ اپنی جذباتی زندگیاں، دوسروں کے رویوں کے بنیاد پر کھڑی کرتے ہیں اور دوسروں کی کمزوریوں کو اس قدر طاقت بخش دیتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو دوسروں کے ہاتھ میں دے کر بعد میں وہ انہیں کنٹرول کرتے ہیں۔”

اسی طرح انسانی رویوں پر کئی کتابوں کے مصنف اور لاکھوں لوگوں کو لیکچر دینے اور ان کی زندگیاں تبدیل کرنے والے مفکر اور فلسفی انتھونی رابنز کہتا ہے کہ “ہماری اکثریت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ماحول ہمیں بناتا اور بگاڑتا ہے، میں اسے بڑا جھوٹ کہتا ہوں، وہ کہتا ہے انسان حالات کا مخلوق نہیں بلکہ حالات انسان کی مخلوقات یا پیدا کردہ ہیں۔”

رابنز مزید کہتا ہے “ایسے ہزاروں کی تعداد میں انسان، جو میرے سامنے مشکل حالات و تکالیف سے متاثر ہونے کے بجائے، زندگی کے اصولوں کے تحت خوشی اور اطیمنان سے بدل چکے ہیں، انسان میں ایسا کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ قوت ارادی سے انسان کام لے کر تکلیف کو راحت میں بدل سکتا ہے، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو پھر وہ بلکل یا تو جانور ہے یا پھر کمپیوٹر ہے کہ دوسرے آکر ان کے پروگرام کو متاثر کرسکتا ہے۔”

یہ تھے رابنز کے معنی خیز باتیں تو ردعملی اور ماحول کا شکار لوگ انقلاب میں یا تحریک آزادی میں دور کی بات ہے، عام زندگی، کاروبار دیگر شعبوں میں بھی فعال اور مثبت کردار کبھی ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ معمولی اور غیرمعمولی عمل ماحول، حالات، خیالات واقعات کے فورا ردعملی ہوتے یا شکار ہوکر ڈگمگاتے قدموں، آراء اور غیرمستقل فیصلوں کے ساتھ الجھن، مایوسی، بدظنی میں مبتلا ہوکر ضائع شدہ انسانوں کے فہرست میں شمار ہونگے۔ ان کا اپنا کوئی سوچ و اپروچ، بصیرت پروگرام نہیں ہوتا۔ وہ اپنی تمام زندگی دوسروں کے ہاتھوں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، پھر حالات، ماحول اور دوسرے لوگوں کی کمال ہوتا ہے، ان کو کس سمت لیجائے، ان کا خود اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ عقیدوں کے پابند ہوتے ہیں۔ عقیدے کا مطلب صرف مذہبی عقیدہ نہیں ہوتا ہے۔

بقول انتھونی رابنز عقیدہ خیالات سے بننتا ہے، پھر ان کو توڑنا انسان کیلے بہت مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی میز کی چار ٹانگیں خیالات ہیں، وہ چار ملکر میز بن جاتے ہیں اور میز خود عقیدہ ہوتا ہے، سماج سے، فرسودہ روایات سے، پسماندہ معاشرے سے، قبائلی و نیم قبائلی، روایتی سیاست سے وراثت سے جو بھی خیالات ہمارے ذہن میں بس چکے ہیں۔ وہ عقیدے کا روپ اختیار کرچکے ہیں یعنی سب کچھ خدا کی طرف سے ہورہا ہے۔ خدا ساتھ دے رہا یا نہیں دے رہا، قسمت کا کام ہے، فطرت کا کام ہے۔ نیت صاف ہو، سب کچھ حاصل ہوگا۔ صدقہ و خیرات سے مشکل اور مصبت دور ہونگے وغیرہ یہ سب اپنی جگہ شاید حقیقت ہوں، مگر جب تک انسان خود قدم نہیں اٹھائیگا اور فیصلہ نہیں کریگا اس وقت ایسی تمام چیزیں اور عقیدے انسان کو متحرک اور فعال بنانے کے بجائے نشے میں مبتلا کردینگے، وہ بس بےحس ہوکر حالات کے رحم و کرم پر خود کچھ نہیں کرتا اورکربھی نہیں سکتا اور دوسروں کو سلا بھی دیگا، ایسے عقیدوں کے سہارے اور یاثرے۔

فرینکل نے جرمنی کے نازی کیمپ کے کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر موت کے سائے، جہاں قدم اٹھائے اور فیصلہ کرنے کا اصول سیکھا، وہاں اس نے زندگی میں مقصدیت کی اہمیت بھی سیکھی اور زندگی کے معنی بھی سیکھے، بعد میں اس نے اپنا ایک فلسفہ تشکیل دیا، جسے logotherapy کہا جاتا ہے، اس فلسفے کا نچوڑ کہ بہت سی نام نہاد ذہنی اور جذباتی بیماریاں دراصل زیر سطح بے معنی پن کا اظہار ہوتی ہیں logotherapy(جوکہ ایک نفسیاتی طریقہ علاج بھی ہے )اس زیر سطح معنوعیت کو ختم کرکے انسان کو اس اہل بناتی ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کا کھوج لگائے، اپنے زندگی کا معنی تلاش کرے اور زندگی کے مشن کو سمجھے۔

بحثیت بلوچ، جہدکار ہمارا زندگی کا اولین مقصد کیا ہے؟ ہمارا مشن کیا بنیادی اور اہمیت یافتہ ترجیحات کیا ہیں؟ ان کیلئے عملاً ہردن صبح و شام اگر غور کریں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ کیا پروگرام ہے، کس پروگرام کے تحت؟ دس، بیس سال کو چھوڑ کر ایک سال کیلئے کیا پروگرام کیا منصوبہ بندی؟ مختلف معاملات مسئلوں پر ہمارے آج آراء اور فیصلے کیا ہیں اور ایک مہینے بعد کیا ہونگے؟ میں کیا بننا چاہتا ہوں؟ وہ بننے کیلے اقدامات کیا ہیں؟ یہ سارے اور مختصر چیزوں پر منصوبہ بندی موجود ہے یا صرف ردعمل کی بنیاد پر منصوبہ بندی اور حکمت عملی یا پھر حالات و ماحول کی رحم و کرم اور سہارے آنکھوں کو باندھ کر چلنا، دنیا میں کس انقلابی اور کامیاب تحریک کی صفت یا کسی علم و فلسفہ علامت اور حقیقت ہوچکا ہے؟ کوئی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرسکتا ہے؟ اگر جواب نفی میں پھر ہم بلوچ کیوں اور کیسے اس دقیانوسی فلسفے کے تحت چل رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو لاکھ لاکھ شکر ہے۔

اگر ہم آج کہیں، بدتر حالات اور ماحول کی وجہ سے کچھ نہیں ہوگا، تو فرینکل کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہم کہیں ہم فرینکل نہیں بن سکتے ہیں یا کتابی باتوں کی اہمیت نہیں، ہمیں اختیار نہیں ہے ہمارے بس کا کام نہیں ہے، ہمارے سماجی زندگیاں ایسے نہیں، وہ دور اور تھا، آج اور ہے۔ تو پھر فلسفی پروٹاس گوس کے بقول “ہر مسئلے، ہر چیز کی حمایت اور مخالفت میں یکساں قوی دلائل انسان دے سکتا ہے۔” ضروری نہیں وہ دلائل حقیقت پر مبنی اور مطمین کن ہوں۔

بات ہم نے ابراہام لنکن کے بیٹے کی تربیت سے کی اور وہاں سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی یعنی فرینکل شاید جرمن جیل کے حالات سے سوفیصد پختہ اور تبدیل نہیں ہوا، کچھ نہ کچھ پختگی اور تبدیلی اس میں پہلے سے موجود ضرور تھا، جیل سے قبل اس میں پختگی کہاں سے آیا؟ وہ اصل میں ذہنی تربیت ہے؟ ذہنی تربیت خود کیا بلا ہے؟ جو ہم جیسے جہدکاروں کیلئے ضروری ہے، ذہنی تربیت صرف آزادی کے فکر کے دشمن سے نفرت کا بس اور کچھ نہیں؟

میرے خیال میں تمام مشاہدات اور تجربات سے اب یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آچکا ہے، صرف آزادی کی فکر پر سنی سنائی روایتی باتوں پر لوگوں کی تربیت لوگوں کو جذبہ تو دے سکتا ہے لیکن ہر بدتر سے بدتر ماحول، حالات میں اپنے مقصد مشن اور پروگرام پر قوت اردی اور مستقل مزاجی سے ڈٹے رہنا، ساتھ ساتھ حالات اور ماحول کا شکار نہ ہونے اور ردعملی نہ بن جانے کی تربیت نہیں ہوگا۔ پھر اس کو فکری کمزوری کہا جاتا ہے کیونکہ ان تمام کا تعلق براہِ راست انسان کے فکر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ انسان جب فکری حوالے سے کمزور ہوگا اور اپنے مقصد پر عدم اطمینان کا شکار ہو، بھلے وہ تحریک کا ساتھ وابستہ ہو وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا، صرف وابستگی انقلاب کے اصل اور حقیقی ذمرے میں شمار نہیں ہوتا، بلکہ برائے نام انقلابی ہوتا ہے۔

تو جب فکر کمزور ہوگا، انسان ہمیشہ ماحول حالات اور ردعملی ہوکر مختلف سوچوں، خیالات، دقیانوسی عقیدوں میں مقید ہوکر الجھن، مایوسی، بدظنی، ناامیدی اور ڈگمگاتے قدموں کا شکار ہوکر ہر روز ایک مختلف کیفیت کا شکار ہوگا۔ کبھی امید کبھی ناامید کبھی خوف کبھی بہادر کبھی حوصلہ مند کبھی بے حوصلہ یہ تمام خصلتیں انقلابی خصلت نہیں بلکہ فکری و علمی کمزوریاں ہیں۔

ان کا واحد حل سب سے پہلے علم اور علم پرمکمل عمل اور ذہنی، سیاسی، تربیت فکر آزادی اور دشمن سے نفرت کے فارمولے کے ساتھ باقی تمام تحریکی نشیب وفراز، کیفیات معروضی و موضوعی حالات چیلنجز مشکلات کو قابو میں لانے اور مستقل مزاجی اور قوت ارادی سے قدم بڑھانے اور قدم جمانے تربیت دینے، علم و شعور سے نہ کہ روایتی طرز سے ذاتی اور مصنوعی عزت و احترام، منت سماجت، مادی چیزوں، مقام، رتبہ، مراعات و لالچ وغیرہ۔

بقول اسٹیفن آرکو اے “آپ کسی شخص کا ہاتھ اور پاؤں خرید تو سکتے ہیں کیونکہ اس کا تمام جذبہ اور وفاداری تو اس کے دل ہی میں ہوتا ہے، باربرداری کے لیئے آپ اس کی کمر خرید سکتے ہو لیکن اس کی ذہانت نہیں خرید سکتے، گوکہ اس کی تمام تخلیقی قوتیں اور ذہانت اس کی دماغ میں ہوتا ہے۔”
تو بلوچ قومی آزادی کی فکر ساتھ ساتھ ایک مثبت متاثر کن سوچ اور پالیسی ہی سے لوگوں کے دلوں میں جذبہ، قوت، احساس اور فیصلہ کرنے کا جرت پیدا ہوگا، تمام تر توجہ اس نقطہ پر ہونا چاہیئے، بے شک تحریک کے جہدکار مقدار میں نہیں معیار میں ہونا چاہیئں، تب جاکر مستقل طور پر کوئی بھی تنظیم اور تحریک کامیاب ہوگا۔