لاپتہ افراد کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 3131 دن ہوگے۔ بی ایس او آزاد تفتان کے ایک وفد نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وائس بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی سیاسی لوگوں کو جبراً اُٹھاکر غائب کرنے کی انسانیت سوز کاروائیاں اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ 18 مارچ کو بی ایس او آذاد کے چیئرمین واجہ زاہد کرد بلوچ عرف بلوچ خان کو خفیہ اداروں نے کوئٹہ سے جبراً اغوا کر کے لاپتہ کردیا جو ابھی تک آئی ایس آئی کی خفیہ عقوبت خانوں میں قید ہیں ۔
بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی کاروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ اب تو بلوچستان میں متعین فورسز نے بلوچ نسل کشی کی کاروائیوں میں مزید وسعت و شدت لائی ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت فورسز کسی دیہات پر فضائی و زمینی حملہ کر کے گاؤں کی پوری آبادی کو گولہ باری آتشزدگی و لوٹ مار کا نشانہ بناتی ہے اور پھر ایف سی اور فورسز کا ترجمان میڈیا کے سامنے حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ کا نشانہ بننے والے گاؤں کو کسی مسلح آزادی پسند بلوچ تنظیم کا کیمپ اور شہید ہونے والے نہتے بلوچوں کو سرمچار بناکر جھوٹ کے سہارے اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالتا ہے۔ اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لئے غیر جانبدار صحافت ناپید ہے، مقبوضہ بلوچستان میں زرائع ابلاغ کی موجودگی کوئٹہ پریس کلب تک محدود ہے۔ اندرون بلوچستان کو خفیہ اداروں اور پاکستانی فوج نے نوگو ایریا بنادیا ہے۔ ایف سی اور فورسز کی چنگل سے آزاد اطلاعات فراہم کرنے والے صحافیوں کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں اور انسانی حقوق کی تحفظ کے لئے سرگرم کارکنوں کی خفیہ اداروں کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر قتل کے واقعات نے آزاد صحافت کے حوالے سے خوف کا ماحول اور ایک وسیع خلا پیدا کردی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں ۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک سماعت کے دوران ٹی کمار، جو کہ ایمنٹسی انٹرنیشنل امریکہ کے بین الاقوامی ایڈوکریسی ڈائریکڑ ہیں نے پاکستان کی حکومت پر بلوچ عوام کے خلاف جبری گمشدگیوں، تشدد اور قتل کی ایک منظم پالیسی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا ہے۔ کمار نے اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی کی بھی مذمت کی ہے۔