غلط اندازہ، دعوتِ شکست
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
“میں مکمل امید سے کہتا ہوں کہ ویتنام میں امریکہ کو شکست ہوگی، وہ ہر چیز کو بلین سے تشکیل دیتے ہیں، ڈالر سے تشبیہہ دیتے ہیں، لیکن وہ لوگوں کے جذبے کے بارے میں غلط اندازے لگاتے ہیں، جو کسی مقصد، کسی نظریئے کے تحت لڑتے ہیں، جو اپنی زمین کو حملہ آوروں کے نرغے سے بچانے کے لیئے لڑتے ہیں۔ وہ اچھے سپاہی نہیں ہیں، وہ اچھے سپاہی نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ کیوں لڑرہے ہیں، اسی لیئے ان کے پاس سپاہیانہ جذبے کا فقدان ہے، جو ویت نامی امریکیوں کے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ویتنامیوں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں وہ کٹھ پتلی اور فضول سپاہی ہیں۔”
یہ اس جنرل کی باتیں ہیں، جس کانام ویت نام کی آزادی کے جنگ کے دوران پورے دنیا میں سب سے زیادہ سنائی دیتا تھا، آج بھی کون بدبخت ان کو نہیں جانتا، جو خود آزادی کی گوریلا جنگ سے وابستہ ہو۔ جی ہاں! یہ وہی جنرل گیاپ ہے، جو بیس سال کی عمر سے ویتنامی انقلابی و گوریلا لیڈر ہوچی منہ کا ساتھی بن گیا۔
گیاپ کی چنگھاڑتی ہوئی غضبناکی اور پتھریلی خاموشی کی وجہ سے ہوچی منہ اسے برف سے ڈھکا ہوا آتش فشاں کہہ کر پکارا کرتا تھا اور کبھی کھبار اس کی چٹان سی ہمت کو سراہنے کے لیئے kui یا شیطان کہہ کر بھی بلاتا تھا۔
گیاپ کا نام سب کیلئے ایک ڈروانا خیال بن چکا تھا، بلکل ایک لٹکتی ہوئی تلوار کی مانند جس طرح بچوں کی سرگوشی میں ڈراتے ہیں کہ کتا آجائے گا، بلکل اسی طرح آپ امریکیوں کو ڈراتے تھے کہ گیاپ آرہا ہے۔
وہتنامی جنرل گیاپ دوران جنگ ہر وقت انتہائی پرامید اور پراعتماد ہوتے ہوئے بس اتنا کہتا تھا کہ دس سال لگے، تیس سال، پچاس یا سوسال لگے ہم لڑتے رہینگے، غلامی کو قبول نہیں کرینگے، غلامی کو قبول کرنے کے بجاہے غلامی پر موت کو ترجیح دینگے لیکن امریکہ کو ویتنام میں ضرور شکست ہوگی، وہ اس لیئے کہ امریکہ غلط اندازہ لگا رہا ہے۔
جنرل گیاپ اپنے تجزیات، مشاہدات اور تجربات کے پیش نظر امریکیوں کے تمام منصوبوں کو باریک بینی کے ساتھ غور کرکے پورے یقین اور امید کے ساتھ کہتا تھا کہ امریکہ شکست سے دوچار ہوگا۔ ہوا بھی ایسا، آج تاریخ گیاپ کی باتوں کو سنہرے حروف میں یاد کرتا ہے۔
بہرحال ہمیشہ قابض قوت ہو یا قابض کے خلاف لڑنے والی قوت ہو کسی ایک کے بھی جنگ کے حوالے سے انداذہ اور تجزیے اگر غلط ثابت ہوں، تو شکست اور ناکامی سے اس کو کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
آج ہم پاکستان کی مثال لیتے ہیں کہ پاکستان کے مقدرہ قوتیں شروع سے لیکر آج تک بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے غلط اندازے لگا کر اپنے اسی سوچ پر کاربند اور سرگرم عمل ہیں، پھر کیا بلوچ قومی تحریک کو ختم کرسکے یا جڑ سے اکھاڑ پھینک سکے؟
البتہ اول سے اگر غور کیا جائے تو تحریک میں اگر کمزوری، وقتی پسپائی اور ناکامی سامنے آیا ہے، اس میں پاکستان کی صحیح انداذوں اور تحریک کو کاونٹر کرنے کی صحیح حکمت عملی کم اور ہماری خود کی تحریکی کمزوری زیادہ ملتے ہیں۔ لیکن پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے جو اقدامات منصوبہ بندی اور حکمت عملی سامنےلاتا رہا ہے، وہ اکثر غلط اندازوں پر مبنی ہے۔
فرض کریں شروع سے لیکر آج تک بلوچ معاشرے میں تمام گرے ہوئے طبقات چور، ڈاکو، بھتہ خور، بدکردار، بدمعاش لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ سوچنا کہ قومی تحریک کو یہ لوگ ختم کردینگے کیا ممکن ہے؟ خوف ناسمجھی اور مجبوری سے ہٹ کر بلوچ سماج میں ایسے گرے لوگوں کے لیئے کتنا جذبہ، محبت اور ہمدردی پایا جاتا ہے یا موجود ہے؟ یا پھر یہی معاشرتی و سماجی برائیوں میں شکار، میرومعتبر سادہ لوح بلوچوں کو دھونس دھمکی یعنی خوف کے بنیاد پر تحریک کے خلاف اور پاکستان کی حمایت میں ریلی، جلسے، جلوس کی شکل میں اکھٹا کرنے سے تحریک آزادی کے خلاف نفرت اور پاکستان سے محبت کیا ممکن ہے؟
سراج رئیسانی کے حالیہ مستونگ جلسے میں کیسے لوگوں کا شرکت کروایا گیا،یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح سب کے سامنے عیاں ہوچکا کہ لوگوں کو کس طرح عثمان پرکانی جیسے ریاستی چاپلوس اور ایجنٹ مجبور کرکے جلسے میں اکھٹا کرتے رہے اور لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا اور بیج لگاکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگوایاگیا، پاکستان کی مقتدرہ قوتیں خوش ہونگے کہ جلسے میں موجود بلوچوں کے دل میں پاکستان، سراج و عثمان کے لیئے ہمددری موجود تھا ؟ اگر پاکستانی مقتدرہ قوتیں اگر ایسا سوچتے بھی ہیں، تو کیا وہ غلط اندازے پر نہیں ہیں؟
یہ صرف ایک واقعہ ہے جس کا میں نے مثال دیا، ہر جگہ ہر وقت بلوچستان میں جلسے، جلوس و دیگر ریاستی پروگراموں میں حتیٰ کہ نام نہاد الیکشن میں بھی لوگوں کو کسی نہ کسی حد تک سرگرمیاں ظاہر ہوتے ہیں، تو کیا ان کو نام نہاد نظریہ پاکستان سے یا خود پاکستان سے دل و جان سے محبت ہے؟ ہرگز نہیں، ایک فیصد بھی نہیں صرف جبر و بربریت کے سائے، دھونس دھمکی اور خوف کی ماحول میں شفیق، اسلم بزنجو، سرفراز، سراج، عثمان، ثناء اللہ اور علی حیدر وغیرہ جیسے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کی وجہ سے سادہ لوح ذمیندار، چراواہےم بلوچوں کو دھونس دھمکی کے ذریعے اکٹھاکرکے پاکستان کا جھنڈا لہرانے، نعرے باذی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں، اگر پھر بھی پاکستان اس کھوکھلے عمل کو اپنی کامیابی اور تحریک کی ناکامی سمجھتا ہے، پھر کیا پاکستانی مقتدرہ قوتیں غلط اندازے پر نہیں ہیں؟
اگر ایمانداری و باریک بینی سے جذبات و نفرت سے ہٹ کر کوئی پورے بلوچ قوم میں صحیح معنوں میں یہ تجزیہ، ریسرچ و تحقیق کرے، خوف اور دہشت سے ہٹ کر اس وقت دل و جان میں پاکستان کیلئے اور پاکستانی ایجنٹوں کیلئے بلوچ عوام میں کتنا فیصد ہمدردی اور محبت موجود ہے؟
آپ بلوچ قوم کو چھوڑیں، بلوچ قوم نے نہ پہلے پاکستان کو دل و جان سے قبول کیا، نہ آج کریگا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے خود پاکستان کے لے پالک بلوچ ایجنٹوں کے دل و دماغ میں اس وقت شعوری بنیاد پر پاکستان کیلے کتنا فیصد ہمدردی موجود ہے؟ لالچ اور چاپلوسی کے علاوہ۔
اگر اس کے باوجود پاکستان مقتدرہ قوتیں مطمین ہوں کہ خوف و لالچ، دھونس و دھمکی، چور، ڈاکو، بھتہ خور، بدکردار لوگوں کے ذریعے بلوچ قوم میں پاکستان کے لیئے ہمدردی، محبت اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف نفرت پیدا ہوگی تو پھر پاکستان کل بھی غلط اندازوں پر سوار تھا اور آج بھی سوار ہے۔
اب بلوچ قومی تحریک پر منحصر ہے اور بلوچ قیادت اور جہدکاروں کی سوچ پر یہ بات آکر رک جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ غلط اندازوں، غلط تجزیوں اور مبالغہ آرئیوں سے ہر ممکن حد تک گریز کریں، صرف جنرل گیاپ کی آراء نہیں پوری جنگی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی بھی فریق، قوت، لیڈر، جنرل، کمانڈر، تنظیم یا پارٹی جتنا منظم اور مضبوط ہو، اس کا غلط اندازہ اور غلط تجزیہ اس کا بیڑہ غرق کردیتا ہے، اس کے مقدر کو شکست اور ناکامی میں تبدیل کرسکتا ہے۔
ہمیشہ سوچ و سمجھ کر شعوری بنیادوں پر ہر حالت ہر لمحے اور مرحلے کا صحیح تجزیہ، صحیح اندازوں میں کرنا قومی جنگ کی اہم ضرورت ہے۔