عمل اتحاد کا ضامن – حکیم واڈیلہ

406

عمل اتحاد کا ضامن

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ 

ماضی قریب میں پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال نے جہاں سیاسی کارکنان کو سوچنے، سمجھنے اور سوال پوچھنے پر مجبور کردیا ہے، تو وہیں کئی ایسے سوالات بھی پیدا ہوئے ہیں، جو ہمیشہ سے ہی جواب طلب رہے ہیں، لیکن کیا صرف سوال کرنے اور جواب طلبی سے ہی ایک ایماندار مخلص سیاسی کارکن کی ذمہ داریاں پوری ہوجاتی ہیں؟ کیا سیاسی کارکنان کا موجودہ سیاسی صورتحال میں جہاں ریاست نے بلوچ سیاست، ادب، تاریخ اور بلوچی روایات کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ ایسے سنگین حالات میں اگر بار بار اپنی بات منوانے یا صرف اپنی خواہشات (قطع نظر خواہشات اجتماعی طور پر فائدہ مند بھی ہیں یا نہیں ) کو جواز بناکر حالات کی باریکی کو سمجھنے کے بجائے خود کو منصف بناکر دوسروں پر سوالات کے بوچھاڑ کرنے سے کیا ایک سیاسی کارکن اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوسکتے ہیں؟

بلوچ سیاسی تاریخ میں شاید ہی لفظ اتحاد سے پرانا کوئی لفظ ہو۔ اتحاد کی خاطر بلوچ ریاست کی حدود کا تعین کرنے والے نوری نصیر خان سے لیکر ہنوز تمام سیاسی رہنماء و کارکنان، قبائلی معتبرین، مذہبی شخصیات، ادیب و دانشوران خواہ کوئی بھی بلوچ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا/ رکھتی ہو نے بلوچ قومی مسائل کے حل کو بلوچ قومی یکجہتی میں دیکھاہے۔ اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اتحاد و یکجہتی کے بغیر منزل کا حصول اگرچہ ناممکن نہیں لیکن مشکلات سے بھر پور ضرور ہے۔ جس کے نقصانات کافی حد تک قومی تحریک کو ہونگے۔ پر یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کیا آپ ایک ایسے اتحاد سے اجتماعی طور پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، جو مجبوراً قائم کیا گیا ہو۔ جس کی بنیادیں نظریاتی طور پر مفلوج ہوں، جہاں صرف اتحاد اس وجہ سے کی جارہی ہو کہ ہم بذات ایک فریق خود کو دوسروں سے بہتر بناسکیں یا ثابت کرسکیں۔ اگرچہ اس اتحاد سے وقتی طور پر تمام سیاسی کارکنان کو خوشی میسر ہوگی اور ماحول میں بہتری کے آثار نمودار ہونگے لیکن اس اتحاد کی زندگی بہت ہی کم اور انجام کافی عبرت ناک ثابت ہوگی۔

میں بذات خود اس بات پر بلکل متفق ہوں کہ بغیر اتحاد کے ہماری دشواریوں میں مزید اضافہ ہوگا، اور سفر بھی طویل ہوگا۔ لیکن ہم کیونکر اس سچ سے انکاری ہیں کہ آج کے صورتحال میں تمام ایماندار سیاسی ساتھی خواہ کسی بھی سیاسی تنظیم سے وابستہ ہوں اور تحریک کی خاطر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ انکی پہلی کوشش اتحاد نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں اگر ہم ایک دوسرے کی حمایت نہ کریں تو ٹھیک لیکن مخالفت کی بھی اجازت نہ دیں۔ آج ہمارے لیئے اتحاد ایک ایسا فارمولہ بن گیا ہے کہ اگر ہم تھک چکے ہیں، ہم اتحاد کا نعرہ لگاتے ہیں یکجاہ ہوجائیں وگرنہ کچھ نہ ہوگا، اتحاد کے بغیر ہم ختم ہو جائینگے، اتحاد نہ ہوا تو عوام میں مایوسی پھیل جائیگی اور ہم اخلاقی حمایت گنوا دینگے اور وغیرہ وغیرہ۔ تو یہاں ان تمام دوستوں، ساتھیوں، خیرخواہوں اور ہمدردوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک خواہ وہ مذہبی ہو،سیاسی ہو، انقلابی ہو، سماجی یا ادبی تحریک ہو یا پھر قومی آزادی کی جدوجہد ہو وہاں مختلف گروپس اور پارٹیاں اپنے طریقے سے کام کرتی رہی ہیں اور جہاں اتحاد یا ایک پارٹی یا پھر ایک لیڈر ایک قوم کا فارمولہ اپنایا گیا ہے، وہاں بڑے سے بڑا لیڈر بھی اپنے دشمن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد ڈکٹیٹر کے طور پر تاحیات حکمرانی کرتا رہاہے۔ جس کی کافی مثالیں ایشیا، افریقہ اور امریکی ریاستوں سے ملتی ہیں جہاں آزادی سے پیشتر مشترکہ طور پر ایک لیڈر یا گروہ کو طاقت ور بناگیا اور بعد ازاں وہ سوچ ایک طاقت کی شکل اختیار کرکے لوگوں پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں۔

یہاں ایک بات قابل غور اور قابل فہم ہے کہ آپ کسی بھی لیڈر کی زندگی کو جدوجہد سے قبل اور بعد از جدوجہد دونوں صورت میں مطالعہ کیجئے تاکہ مکمل اور جامع تصویر کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔ یہ قطعی طور پر ضروری نہیں کہ ایک انقلابی شخص جمہوریت پسند ہو یا پھر انقلابی جدوجہد کرنے والا شخص یا سوچ ڈکٹیٹر نہیں ہوسکتا۔

رہی بات اتحاد کی تو اس کی موجودہ مثال بی ایل اے اور بی ایل ایف کے شہید دوست ہیں، جنہوں نے اپنے مرکزی قیادت کو اپنے عمل سے قائل کیا کہ وہ اپنے درمیان موجود رنجشوں کو گفت و شنید کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کریں، جس کی خاطر بی ایل ایف اور بی ایل اے کے علاقائی کمانڈروں نے نہ صرف ایک ہی محاذ میں دشمن کا مقابلہ کیا بلکہ حقیقی بنیاد پر نظریاتی طور پر ہم آہنگی رکھنے والے دوستوں سے مباحثہ کیا اور مثبت نتائج آج اشتراک عمل کی شکل میں موجود ہیں۔ ان دوستوں نے کبھی بھی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر ضروری مسئلے پر رائے زنی کرنے کے بجائے اپنا قیمتی وقت اور قوت عمل کرنے اور اپنے نظریاتی دوستوں کو یکجاہ کرنے میں وقف کیا، جس کی واضح مثال بی ایل اے کے شہید کمانڈر ضیا الرحمن عرف دلجان اور بی ایل ایف کے شہید کمانڈر نور الحق عرف بارگ کی ایک ہی محاذ پر جام شہادت نوش کرنا ہے۔

اگر ہم سیاسی حوالے کسی بھی اتحاد کو کامیاب بنانے کی خواہش رکھتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں کسی بھی طرح کی کنفیوزن سے خود کو آزاد کرکے عمل کی جانب گامزن ہونا ہوگا کیونکہ جب تک آپ عمل نہیں کرینگے، تب تک آپ کی تمام تر باتیں صرف لفاظیت کی حد تک ہی محدود رہینگی آج اگر ہم سیاسی اعتبار سے دیکھیں، تو ہمارے درمیان موجود تمام تر مسائل میں اولیت کا درجہ رکھنے والا مسئلہ یہ ہے ہم اپنے سیاسی نظام کو مغربی ممالکوں کے سیاسی نظام جیسا دیکھنا چاہتے ہیں جوکہ بلاشک ایک مثبت اور قابل ستائش سوچ ہے۔ لیکن کیا یہ نظام سیاست یورپ اور امریکہ میں بغیر کسی تاریخی عمل کے آیا ہے؟ کیا ہم بھی انہی کی طرح اداروں کو اولیت کا درجہ دے رہے ہیں؟ کیا ہم بھی اداروں کی کمزوریوں کو ختم کرنے کے لئے مثبت طریقہ کار لیڈر شپ کے سامنے رکھ رہے ہیں؟ کیا ہم کسی بھی چھوٹے سے معاملے پر جذباتی پن کا شکار نہیں ہورہے؟ کیا ہم عام حالات اور اختلافی ادوار میں اخلاقی طور پر پستی کا شکار نہیں ہورہے؟ کیا ہم کسی بھی واقعے کو جواز بنا کر اس پر سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش نہیں کررہے ہیں؟ اگر بحیثیت سیاسی کارکن ہم ان تمام مسائل سے گھرے ہوئے ہیں تو کسی بھی طرح کی یکجہتی اور اتحاد کو کس طرح دیرپا بنایا جاسکتا ہے۔

ہمیں سب سے پہلے خود کو بدلنے، سیاسی حوالے سے پختگی پیدا کرنے اور قوت برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب ہم ایمانداری سے عمل کی جانب راغب ہونگے تو یقیناً یکجہتی کی خاطر اپیل کرنے، ہاتھ پھیلانے بیان بازی کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔