علم کو موت نہیں ہے – لطیف بلوچ

676

علم کو موت نہیں ہے۔

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سقراط نے اپنے مقدمے کے دوران کہا تھا کہ کسی شخص کو اختلاف رائے یا تنقید کرنے کے جرم میں قتل کردینے سے کوئی سیاسی یا معاشرتی عقیدہ حل نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان عقیدوں کو سلجھانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حاکمِ وقت خود اپنی اصلاح کریں۔ آخر جب اسے سزائے موت سُنا دی گئی، تو اس نے برملا کہا تھا “اگر تم سمجھتے ہو کہ دوسروں کو قتل کرکے تم انہیں نیکی سے باز رکھ سکو گے، تو یہ تمہاری بہت بڑی بھول ہے۔ اس سے تم ملامت کا نشانہ بنو گے، دوسروں پر جبروتشدد کرنے کے بجائے تم لوگ اپنے آپ کی اصلاح کرو۔”

پنجابی فوج اور ریاست نے بلوچ روشن خیال نظریات اور خیالات کے مالک کارکنان کو اسیلئے قتل کیا یا اپنے عقوبت خانوں میں بند رکھا، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو قتل کرکے وہ شعور، نظریات، افکار و خیالات علم اور صداقت کو طاقت استعمال کرکے، قتل کرکے ہمشہ کےلیئے ختم کرسکتے ہیں، لیکن یہ اُنکی بہت بڑی بھول ہے۔ جبروتشدد، عقوبت خانوں اور مقتل گاہوں سے علم اور شعور کو شکست نہیں دیاُ جاسکتا، علم اور خیالات کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔

سقراط فلسفیانہ بحث و مباحثے کرتا اور پھر نوجوان طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اس کے پیروکار بن گئے اور انجام کار اس پر نوجوانوں کا اخلاق بگاڑنے کا الزام عائد کرکے مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا سنادی گئی۔

ایتھنز ہو یا بلوچستان حاکمِ وقتوں کا رویہ روشن خیال دماغوں اور باشعور انسانوں کے متعلق یکساں رہا ہے، جس طرح سقراط پر نوجوانوں کا اخلاق بگاڑنے کا الزام عائد کرکے موت کی سزا سُنادی گئی، اسی طرح نوجوانوں کو علم و شعور کی زیور سے آراستہ کرنے کے جرم میں معلم آزادی شہید قندیل پروفیسر صباء دشتیاری کے جسم میں درجنوں گولیاں پیوست کرکے شہید کردیا گیا، کیونکہ وہ نوجوانوں میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کررہے تھے، پروفیسر رزاق زہری کو بھی اس لیئے موت کی سزا دے کر سرعام گولیوں سے بھون ڈالا گیا، کیونکہ وہ خضدار جیسے علاقے میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو علم اور شعور کی ہتھیار سے لیس کررہا تھا، سر زاہد آسکانی اس لئے موت کے حقدار ٹہرے کہ وہ گوادر کے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کررہے تھے۔ اس کے علاوہ ایسے روشن دماغ ٹیچروں، دانشوروں، ڈاکٹروں اور پروفیسروں کو صرف اس لئے موت کے گھاٹ اُتارا گیا اور سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو کالی کوٹھڑیوں و موت کے مستحق ٹہرایا گیا کہ وہ علم، شعور اور قلم و کتاب کے ذریعے ظلم و جبر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا چراغ جلا رہے تھے، لیکن اُن کو شہید کرکے بھی ریاست نے علم و دانش کے چراغوں کو نہیں بجھا سکے، علم کے چراغ اب اُن کے لہو سے روشن ہیں۔

یہ صرف ایتھنز اور بلوچستان میں نہیں ہوا کہ روشن خیالات و افکار کا قتل کیا گیا ہو بلکہ ایسا بنگلہ دیش میں بھی ہوا، جہاں سینکڑوں پروفیسروں کو موت کی گھاٹ اُتارا گیا۔ بندوق برداروں کے ہاتھوں شعور و آگاہی کا قتل کراچی میں بھی ہوہا ہے، سبین محمود اور پروفیسر حسن ظفر کا بہتا لہو اس کی گواہی دیتی ہے لیکن ایسے روشن خیال انسانوں کا خون جب ٹپکتا ہے، تو اُس سے علم کی آبیاری ہوتی ہے۔ اُن کے بہتے خون سے علم کی زمین زرخیز ہوتی ہے اور باشعور، باعلم و باعمل انسان جنم لیتے ہیں۔
اگر موت سے علم و شعور کا راستہ روکا جاسکتا، تو جب سقراط زہر کا پیالہ پی کر موت کی آغوش میں چلا گیا تو علم، شعور، فلسفہ، تحقیق و تخلیق، غور و فکر کا سلسلہ ختم ہوتا بلکہ ایتھنز کی سرزمین پر سقراط کے ساتھ دفن ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا علم کا سلسلہ جاری رہا، جاری ہے اور جاری رہے گا۔

سقراط سے لیکر تاابد علم و شعور، تعلیم و تربیت کیساتھ ساتھ حق و سچ کا گلہ گھونٹنے کا سلسلہ جاری ہے، بلوچ سماج میں ایسے بہت سے سقراط مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جنم لیتے رہے اور اُنہوں نے انسانی شعور اور سماجی ترقی کےلیئے انتھک جدوجہد کیئے اور شعور پھیلانے، انسانی سوچ کو تبدیل کرنے کے جرم میں اذیتیں برداشت کرتے رہے، پروفیسر صباء دشتیاری، پروفیسر رزاق زہری، پروفیسر حسن ظفر، زاہد آسکانی، جیسے بہت سے کردار علم و شعور کے چراغ کو روشن رکھنے کے پاداش میں قتل کیئے گئے۔

آج بھی دنیا میں مختلف شکلوں میں حق و سچ کو قتل کرکے شعور کی آواز کو ظالم حاکموں، آمریتوں، سرمایہ داروں، میڈیا مافیا، کے ذریعے دبانے کی کوشش جاری ہے، لیکن جو باشعور ہے وہ سچ کے حقیقت سے آشنا ہے، اس لیئے وہ ہمشہ سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پی کر اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور اس راہ میں اپنا جان و مال سب کچھ شعور کے نام پے قربان کرتے ہیں۔ ان عظیم و لازوال قربانیوں کو بامقصد بنانے کے لیئے سچ کے اس کاروان میں شامل ہوکر شعور کا ساتھ دینا چاہیئے۔

روشنی و تاریکی، سچ و جھوٹ، ظالم و مظلوم، حق و باطل، شعور اور لاشعور کے درمیان یہ جنگ تاقیامت جاری رہے گی۔

موت صرف جسم کا خاتمہ کرسکتی ہے، علم و خیالات کا نہیں اس لیئے سقراط نے کہا تھا “موت میرا خاتمہ نہیں کرسکتی” اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پی کر اس نے بتادیا کہ علم کو موت نہیں ہے۔