عقل کیلئے علم اور علم کیلئے عقل – برزکوہی

1997

عقل کیلئے علم اور علم کیلئے عقل

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

عرب حملہ آور محمد بن قاسم نے قدیم سندھ پر حملہ کرکے 13 ہزار 3 سو من سونا لُوٹا، جس کے قیمت اس وقت کے دور کے مُطابق 12 کھرب 76 ارب 80 کروڑ تھی۔ اور چالیس ہزار سندھی عورتیں اغوا کر کے “یمن، کوفی” اور بغداد کے بازاروں میں نیلام کردیا اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سندھیوں کو ماردیا گیا اور سندھ کے پانچ ہزار جنگی قیدی مارے گئے۔

کبھی کسی نے پوچھا اور سوچا کیوں؟ کس مقصد کے تحت ؟ ڈاکہ زنی، طاقت کا ہوس، قبضہ گیریت، عرب نیشنلزم، جنسی خواہشات، ہوس، مذہب، اسلام دین یا کچھ اور؟

انسانی قتل عام، اغواء، لوٹ مار، خواتین کی عصمت دری، نیلامی، تمام تباہ کاریوں اور بربادیوں کوکتنا سیدھا سادہ، مختصراً اور آسان دلیل و جواز بناکر اور کتنا خوبصورت اور پرکشش نام دیکر پیش کیا گیا، یعنی دین و اسلام کی خدمت، جہاد، مال غنیمت، لونڈیاں وغیرہ۔ لیکن ستم ضریفی یہ ہے کہ اس وقت سے لیکر آج تک، جانوروں سے بدتر شعوری نمو سے گذرنے و استحکام کے مالک، قاتل میں مسیحا دیکھنے والے، قاسم کو اس وقت بھی اسلام کا ہیرو مانتے تھے اور آج تک بھی مانتے ہیں۔

جہالت، سطحی و محدود سوچ، علم و شعور، جستجو سے عاری صرف جذبات و کیفیات کے شکار لوگ قوم، فرد یا گروہ ہمیشہ ذہنی حوالے سے بھیڑ اور بکری یعنی جانور بن کر شاطر، مکار، فن کار،دوروغ گو، منافق، ظالم اور جابر لوگوں کے ذاتی مفادات، خواہشات، ہوس اور عزائم کا ہمیشہ محافظ اور معاون کار ثابت ہوتے ہیں اور خوب استعمال در استعمال ہوتے ہیں کیوں؟

جدید فلسفے کی بنیاد ڈیکارٹ کے اس ناقابل مصالحت اصول پر رکھی گئی تھی کہ فلسفیانہ طور پر سوچنا صرف اس شے کو قبول کرنا ہے کہ جو عقل کے ذریعے اپنی توثیق کرواسکے، اس کے برعکس غیر فلسفیانہ ہونا دراصل خواہش کے بہکاوے میں آکر گمراہ ہوجانا، جو انسان کو عقل کی متعین کردہ حدود سے باہر لاکر خطاء کے بیابان میں لاپٹختی ہے۔

اب عقل کیا ہے؟ کیسا عقل؟ سب سے اہم اور قابل غور سوال ہے؟ عقل کہاں سے شروع ہوتا ہے کہاں پر ختم یا رک جاتا ہے؟ عقل اور عقل مندی میں فرق کیا ہے؟عقل کی تشکیل پرورش و نشوو نما کب اور کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے؟ کچھ پتہ نہیں کوئی نہیں جانتا اور کوئی نہیں سوچتا کیوں؟ کیونکہ جانور بھی اس حوالے سے کبھی بھی نہیں سوچتے، وہ کیوں نہیں سوچتے کیونکہ وہ جانور ہیں۔

پھر کیا ہم بھی نہیں سوچیں اور جستجو نہیں کریں، تو ہم بھی جانور ہیں؟ اگر جانور نہیں تو انسان کیسے؟ صرف شکل و شہبات میں فرق ہے اور کچھ نہیں، پھر انسان کیسے اور کس طرح ؟ کیاجانوروں کو عقل ہے؟ اگر ہے تو عقل کی سطح کیا ہے؟

ویسے فلسفی کانٹ کے مطابق ادراک عقل کے اور عقل بغیر ادراک کے بے فائدہ ہے، فلسفی پارمینی ڈیز کا خیال تھا کہ حقیقت کا علم صرف عقل سے حاصل ہوسکتا ہے، انسانی حواس ہمیں صرف دھوکا دیتی ہے، حقیقت کا علم نہیں دے سکتا ہے۔

ڈاکٹر سمناو مدیر البیرونی نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں میں امام غزالی اور اشعری پیدا نہ ہوتے تو ان میں ہزاروں سائنسدان گلیلیو اور نیوٹن جنم لیتے یاد رکھیں کہ امام غزالی علم فلسفے کی مخالفت میں بہت زیادہ لوگوں میں کام کرتا، امام غزالی نے اپنی کتاب تحافتہ الفلاسفہ میں فلسفیوں کو جس بری طرح رگیدا اور فلسفہ کو جس آڑے ہاتھوں لیا، ابن رشد نے اسے مرتد فلسفہ کا خطاب دیا۔

آخر کیوں؟ اس لیئے کہ ان کے تمامتر ذاتی مادی خواہشات اور مفادات مذہب کے ساتھ وابستہ تھے اور وہ اس وقت ممکن اور حاصل ہوتے تھے کہ لوگ عقل جستجو اور فلسفیانہ سوچ اور نقطہ نظر سے عاری ہوں، صرف انسان کی روپ میں جانور ہوکر ان کے مفادات کے ضامن و معاون ہوں، جب شعور عقل اور جستجو اپنی انتہاء کو ہوگا تو پھر ذاتی مفادات و غرض حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔

آج بلوچ قوم اور بلوچ سماج کو جس بے دردی سے قبائلیت، مذہبیت، سماجی رویات اور نام نہاد قومیت کے خیالات اور فرسودہ نظریات میں جس طرح مقید کرکے، مخصوص گروہوں میں بانٹ کر اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ اکیسیویں، علم و ٹیکنالوجی کی صدی میں بلوچ قوم کیلئے تاریخی المیہ سے کم نہیں ہے۔

کیا یہ حربہ، فارمولہ، پالیسی اور فن کاری آزادی پسندی کی جہدوجہد ماحول میں موجود نہیں ہے؟ اگر ہے تو کس حد تک ہے اور کیوں ہے؟ آزادی کی جہدوجہد تو ہمیشہ سچائی کی جہدوجہد ہوتی ہے اور مقدس جہدوجہد ہوتی ہے؟ اس کا واضح مقصد اور واضح راستہ ہوتا ہے اور یہ ذاتی مفادات و ذاتی خواہشات سے بالاتر ہوتا ہے۔

تو پھرکیوں تنظیم، شعور، ادارہ سازی، زہنی و فکری تربیت، اکیڈمک ماحول، جستجو و تجسس والے رجحان ہمیشہ ناقابل برداشت اور ناقابلِ قبول اعمال ہوتے ہیں؟ بھیڑ و بکریوں کی طرز زندگی اور طرزعمل والا فارمولہ قابل قبول اور قابل عمل ہوتا ہے؟ عقلیت پسندی کے بجائے تقلید پسندی لازمی ہوتا ہے؟

اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اکثریت آنکھوں پر عقائد بے علمی، لاشعوری، اندھا دھند بھروسے، مصلحت پسندی، جذبات، بے وقوفی، احمقی، اندھی تقلید کی سیاہ پٹی، دماغ اور آنکھوں پر باندھ کر یا پھر اپنی صلاحیتوں طاقت وقار، اقدار اور اہمیت سے نابلد اور لاعلم ہوکر انتہائی معمولی سے معمولی ذاتی خواہش، مفاد، سستی شہرت، آسائش اور ضروریات کی خاطر بھیڑ اور بکریوں کے ریوڑ کی طرح سر اور آنکھوں کو نیچے کرکے دوڑ رہے ہیں، جو انتہائی قابل تکلیف، درد آمیز، باعث حیرانگی اور دکھ کا لمحہ ہے۔

جب سیاسی علم و شعور، عقل اور ادراک ہوگا، تو اس وقت کوئی بھی کسی کی ذاتی و معاشی مفادات و خواہشات کی خاطر استعمال اور ایندھن نہیں بن سکتا۔

اب سب سے بڑا مسئلہ اور پیچدگی یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ کوئی سیاست، سیاسی علم، شعور، عقل اور ادارک سے خود نابلد ہو اور اس کے باوجود بھی وہ سیاست، سیاسی علم و شعور، عقل اور ادراک کے دعویدار ہوں، یہیں سے غلط فہمی دکھ خود فریبی، جھوٹاپن اور گمراہ پن کا سفر شروع ہوگا اور لوگ استعمال ہوتے رہینگے اور ہونگے کچھ افراد کچھ لوگ کچھ مخصوص گروہوں کے مفادات کے حصول کی خاطر۔

کم از کم بلوچ آزادی پسند جہدکاروں کو پارلیمانی مذہبی، قبائلی، روایتی، کارکنوں کی طرح معمولی، ذاتی مراعات، مفادات، سستی شہرت یا عقل و شعور سے پیدل ہوکر تقلیدی و جذباتی نہیں ہونا چاہیئے، ورنہ میں آج کہتا ہوں اور آئندہ بھی اپنی اسی آراء پر قائم رہوں گا، ایسے جہدکار ضائع اور بھیڑ بکری ہیں، ان کی تاریخ کے صفحات میں کوئی اہمیت و حیثیت نہیں۔

علم و شعور اور عمل ہی تاریخی اور مثبت کردار کا ضامن ہوتا ہے، جس کیلئے نوجوانوں کو ہردم خود کو تیار کرنا چاہیئے اور قوم کو تیار کرنا چاہیئے نہیں تو ہمیشہ غلط سمت اور غلط رخ سفر کرنے کو اپنا مقدر سمجھنا چاہیئے۔ جستجو اور تجس کے دامن کو تھام کر قدم اٹھانا، فیصلہ کرنا، ہر بلوچ جہدکار کا شیوہ ہونا چاہیئے۔