شازیہ – جلال بلوچ

813

شازیہ

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

وہ جوانی کی دہلیز پر نئی نئی جلوہ افروز ہوئی تھی. بے چینی سے آس پاس دیکھتی آخر سکول سے باہر ایک بند دکان کے سامنے کھڑی ہوگئی. گبھراہٹ سے پورے جسم پر ایک لرزا سا طاری تھا. سڑکوں پر وہ پہلے بھی بلا جھجھک نکلا کرتی تھی مگر آج کیفیت کچھ الگ تھی، کیونکہ چند ہی دن قبل وہ محسوس کر چکی تھی، کہ اسکا بچپن اس کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے.غلامی جیسے لعنت کی وجہ سے کھلونے تو آج تک اس نے کبھی دیکھے بھی نہ تھے، مگر ہاں بچپن کی ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ جو اسکی غم دنیا سے لاتعلقی کی پہچان تھی، وہ اب ہوس اور وحشت سے بھری نظروں کے زیر مرچکی تھی. کھیل کود و ہنسی مذاق جیسے معمولی الفاظ کی جگہ اب عزت و عصمت جیسے موٹے و بھاری الفاظ لے چکے تھے۔ غلامی کے دلدل میں پھنسی ہوئی شازیہ روڈ کنارے تھکتی نگاہوں سے دیکھ دیکھ کر تھک گئی تھی۔ آج بابا جان دیکھائی نہیں دے رہے تھے، جس کے بارے میں سوچوں میں مدہوش ہوکر شازیہ کے جسم کی کپکپاہٹ تیز بخار کی طرح تیز ہورہی تھی۔

انتظار کرکرکے آخر کار شازیہ کے معصوم چہرے پر ایک عجیب و غریب سی کیفیت طاری ہورہی تھی، جس کی وجہ سے شازیہ کی پھول جیسی چمکتی ہوئی آنکھ پرنم ہونا شروع ہوچکی تھی۔ آخر کار ایک لمبی اور گرم آہ نکال کر شازیہ نے فیصلہ کرلیا کہ بابا جان شاید کسی کام میں پھنس گیا ہوگا، اس لیئے میں خود اپنے سرے گھر کی جانب پیدل نکل لیتی ہوں۔

شازیہ لرزتے قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھنے لگی، جس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوئے آنسووں کو ہر کوئی دیکھ سکتا تھا۔ وہ آنسو درندگی سے بھرے پڑے انسانیت کے نام پر دھبے کے مانند اس گند سماج سے خوف کے آنسو تھے۔ بلوچ سماج میں لڑکی کا گھر سے اکیلے باہر نکلنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اور بلخصوص جب کوئی لڑکی پہلی بار اکیلے کسی روڈ پر پیدل سفر کرے تو انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ اس درندہ صفت سماج کے ساتھ، درندہ صفت دشمن سے بچنا۔ گہری دھوپ کی وجہ سے کچھ زیادہ پیدل سفر نہیں کرپارہی تھی۔ جس کی وجہ سے شازیہ روڈ کنارے تھکان محسوس کر کے کچھ دیر کیلئے بیٹھ گئی۔

دیکھتے ہی دیکھتے گرمی کی وجہ سے بازار میں لوگوں کا طوفان تھم گیا اور چہرے پر اداسی کے آثار لیئے سر گھٹنوں پر رکھ کر وہ بیٹھ گئی۔ کچھ لمحات بعد اس نے محسوس کیا کہ تھوڑے فاصلے پر کھڑا آرمی کے گاڑی میں بیٹھا آفیسر اسے انتہائی غور سے دیکھ رہا ہے، جسکی وجہ سے وہ ڈر گئی اور ایک نظر خود کو سر سے پاؤں تک دیکھنے لگی۔ سکول کی قمیض چھوٹی ہونے کی وجہ سے ایک جانب سے شلوار سے ذرا اوپر اٹھ سی گئی تھی، جسکی وجہ سے اسکی کمر نظر آ رہی تھی۔ اس نے فوراً ہی قمیض کا دامن کھینچ کر نیچے کردیا۔ دن انتہائی گہری دھوپ سے ریزہ ریزہ ہوتی جارہی تھی اور اب تو کمزوری کی وجہ سے سر بھی چکرانے لگا تھا۔

مگر مسلسل غور سے دیکھنے کی وجہ سے شازیہ بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہورہی تھی، جسم کے لرزنے کو خوف کی وجہ سے بھول کر قدموں میں تھوڑی سی ہمت لانے میں کامیاب ہوئی۔ اور لرزتے دانتوں کے ساتھ سر نیچے کرکے گھر کی جانب روانہ ہوئی۔

مگر وحشی درندوں کی نظریں معصوم شازیہ پر اس طرح پڑی ہوئی تھیں کہ ان کے ناپاک عزائم سے خدا ہی کسی مظلوم کو بچائے۔

شازیہ اپنے لرزتے قوموں اور کپکپاتے دانتوں کے ساتھ روانہ ہوئی، مگر فوجی آفیسر کی گاڑی معصوم شازیہ کے پیچھے آنے لگا۔ جسم کی کمزوری کی وجہ سے کئی بار شازیہ روڑ پر گر پڑی جس سے شازیہ کا دوپٹہ اور کتابیں روڑ پر بکھر گئیں اور شازیہ زار و قطار رونے لگی، خدا کیلئے کوئی میری مدد کرو، یہ وحشی درندے میرے جان کے پیچھے پڑے ہیں، ریاستی دہشت گرد فوج کے خوف و ڈر سے کوئی شازیہ کی طرف متوجہ ہونے سے کتراتے ہوئے رائے فراریت اختیار کررہے تھے۔

افسوس! شازیہ کی جگہ اگر ان لوگوں میں سے کسی کی بھی بیٹی، بہن یا کوئی عزیز ہوتا تو شاید ہی کوئی غیرت کرکے اسکی مدد کیلئے مجبوری کے 4۔5 الفاظ درندہ پاکستانی فوج کے خلاف بول پاتا۔ مگر شازیہ کا کوئی نہ ہونے کی وجہ سے شازیہ انتہائی بے بسی کے عالم میں رو رو کر بے ہوش ہوگئی۔

آج اگر میں کسی بلوچ عورت کے اوپر دشمن کا ظلم برداشت کررہا ہوں، یقیناً میں ایک مردہ ضمیر انسان ہوں۔ کیوںکہ میں دوسروں کا درد دیکھ تو سکتا ہوں لیکن محسوس نہیں کرسکتا۔ جب تک میرے ساتھ ایسے واقعات نہ ہوں، تو میں محسوس نہیں کرتا کیوںکہ میرا ضمیر مر چکا ہے۔ میں صرف اور صرف نام کا انسان ہوں اور نام کا بلوچیت میرے اندر ہے لیکن عملاً میں ایک کھوکھلا اور زندہ لاش ہوں۔

وحشی اور درندہ صفت آفیسر انتہائی بے رحمانہ انداز میں دوڑتے ہوئے شازیہ کے پاس آکر شازیہ کو اٹھا کر گاڑی میں پھینک کر چلے گئے ۔ جیسے کسی جنگلی جانور کو ایک معصوم شکار مل چکا ہو۔ گاڑی میں شازیہ کو بٹھا کر چند ہی لمحوں بعد وہ شہر کے بے حس ہجوم اور آنکھوں کو نیچے کرنے والے جم غفیر سے گذرتے ہوئے ایک نامعلوم منزل کی جانب گامزن ہوگئے۔

شہر میں شازیہ کے اغواء ہونے کی خبر عام ہوگئی، شازیہ کے ابو شازیہ کیلئے زار و قطار رو رو کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر ہر کسی کا درواذہ کٹکھٹاتے رہے، مگر ہر کوئی اس معاملے سے لاتعلقی اختیار کرکے شازیہ کے ابو کو دھکے دیکر اپنے دہلیز سے نکال دیتا تھا۔ جس کا صدمہ برداشت نہ کرکے شازیہ کے ابو دلبرداشتہ ہوکر خالق حقیقی سے جا ملے۔

شہر کے بے ضمیر لوگوں کو مجالس گرم کرنے کیلئے ایک نیا موضوع مل چکا تھا، جو روز قہقہہ لگا کر دشمن سے زیادہ باتوں میں معصوم شازیہ کی تذلیل کرتے رہتے تھے۔

مگر ان بے ضمیروں کے قہقہے زیادہ دن تک نہیں چل سکے تھے۔ سنا ہے ایک صبح شہر کی کچرا کنڈی سے ایک کم عمر معصوم لاوارث لڑکی بے ہوشی اور نشے کی حالت میں ملی، جس کی ٹانگوں پر سرخ دھبے تھے مگر حیرانی کی بات کہ جسم پر کوئی واضح زخم نہیں تھا۔

لیکن وہ لاوارث لڑکی نہیں، اس کے وارث بے حس بے ہمت لوگوں کی نظروں سے کوسوں دور ایک ایسے طلوع سحر کی جہد اور انتظار میں ہیں، جہاں ہر شازیہ کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کو جرت نہ ہو۔
وہ طلوع سحر جلد ہی چمکتی ہوئی آنے کو ہے
اس امید کے ساتھ ہم ساتھ ہیں اورتا ابد زندہ رہینگے۔