سراج رئیسانی: محب وطن یا ایک غدار؟
دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
چیف ایڈیٹر ٹی بی پی ۔ میران مزار
جنوری کی ایک سرد شام، چند مسلح افراد ایک گھر پر دھاوا بول کر اندر گھس جاتے ہیں اور چند لمحوں کی توقف کے بعد ایک عمر رسیدہ شخص کو گھسیٹ کر باہر نکالتے ہیں۔ اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے بندوق کی ایک گولی اسکے کنپٹی میں اتار دی جاتی ہے۔ بزرگ شخص منہ کے بَل گر جاتا ہے اور اور خون کی دھارا اسکی داڑھی پر بہنا شروع کردیتا ہے۔ کوئی سوال پوچھا نہیں جاتا اور نا ہی اس بزرگ شخص کو اسکا گناہ بتایا جاتا ہے۔ سفاکانہ سزا کا یہ منظر محض چند منٹوں کا نظارہ ہوتا ہے۔ مسلح افراد اپنی گاڑیوں میں کود کر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ رات کے گھپ اندھیرے میں گم ہوجاتے ہیں اور اپنے پیچھے محض اپنے گاڑیوں کے دبیز دھویں کی لٹیں، خون آلود جسم اور ایک برباد خاندان چھوڑ جاتے ہیں۔
یہ نازی دور پر بنائے گئے کسی فلم کا منظر نہیں، بلکہ یہ حقیقی واقعات ہیں، جو جنوری 2011 کو بلوچستان کے ایک قصبے میں پیش آئے۔ بلوچستان تحریکِ نفاذ امن نامی تنظیم نے اپنے ” بہادر مجاہدوں” کے اس کارنامے کی ذمہ داری قبول کی۔
اس تحریکِ نفاذ امن کا ذمہ دار عمومی طور پر سراج رئیسانی کو سمجھا جاتا ہے، جس کا کھلا اقرار وہ خود قبائلی جرگوں میں متعدد بار کرچکا تھا۔ جنوری کے اس سرد شام کے ٹھیک سات سال اور چھ مہینے گذرنے کے بعد، ان ” مقدس بہادر مجاہدوں” کے ” پیرہ” کا کچھ اور ” مقدس مجاہدوں” نے وحشت ناک طریقے سے صفایا کردیا۔ ” عظیم مجاہدوں” کی اس لڑائی میں، ایک بار پھر غریب لوگوں کا گھر اجڑنا تھا اور اس بار تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کرگئی۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں پاکستان کے سپہ سالار فوراً جی ایچ کیو راولپنڈی سے جنگ زدہ بلوچستان صرف ایک قاتل کے آخری رسومات میں شریک ہونے کیلئے آتے ہیں؟ کیسے ان ” مقدس جہادیوں” کا سربراہ سراج رئیسانی، “محب وطنی” کا تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا؟ دی بلوچستان پوسٹ اپنے اس تحقیقاتی رپورٹ میں ان سوالوں کا جواب دیگا۔
سراج رئیسانی نے بلوچستان کے علاقے مہرگڑھ میں آج سے 55 سال پہلے رئیسانی قبیلے کے سردار گھرانے میں آنکھ کھولی، تشدد اسکی پوری زندگی کا اٹل حصہ ہونے والا تھا کیونکہ پدرانہ قبائلی خاندانوں میں یہی عمومیت کا معیار ہے۔
سراج کو کم عمری میں ہی موت کا قریب سے سامنا ہوا۔ 1988 کے عام انتخابات کے دوران رئیسانی قبیلے کے لوگوں کا رند قبیلے سے مہر گڑھ کے ایک نواحی علاقے کوٹ رئیسانی میں ایک پولنگ اسٹیشن پر مڈبھیڑ ہوئی، جس میں رند قبیلے کے سات افراد مارے گئے۔ بہت جلد، رند قبیلے نے اپنا بدلہ سراج رئیسانی کے والد غوث بخش رئیسانی کو مار کر لیا، جو ایک وفاقی وزیر اور رئیسانی قبیلے کے سردار تھے۔ اس حملے میں سراج اپنے بھائیوں کے ہمراہ بری طرح زخمی ہوگئے تھے۔
رند و رئیسانی جنگ، جس کی لپیٹ میں بعد ازاں بگٹی قبیلہ بھی آگیا، اب تک سینکڑوں لوگوں کی جانیں نگل چکا ہے، جس میں سراج رئیسانی کا بھائی میر اسماعیل خان رئیسانی بھی شامل ہیں۔
1990 میں ایک بار پھر سراج رئیسانی بال بال بچ گئے، جب وہ اسی قبائلی جنگ میں ایک حملے کے دوران بری طرح زخمی ہوگئے تھے۔
گو کہ سراج نے کچھ وقت نیدرلینڈ میں پڑھائی بھی کی لیکن احساسِ مردانہ برتریت، قبائلی دشمنیاں اور کچھ بھی کرنے کی آزادی کے اداراک نے اسے جرم و تشدد کی زندگی کی طرف راغب کردیا، جس پر وہ مرتے دم تک چلتا رہا۔
اس راستے کا آغاز چھوٹے چھوٹے جرائم سے ہوا، نوے کے دہائی اور گذشتہ دہائی کے اوائل میں کوئٹہ سریاب روڈ اور بروری روڈ پر سارے سائکل چوروں کے تانے بانے رئیسانی بھائیوں اور انکے غنڈوں سے ملتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بلوچستان خاص طور پر کوئٹہ میں افغان مہاجرین کے آبادی کا بہاو زوروں پر تھی۔ سراج نے اس صورتحال میں ایک موقع تلاشہ۔ افغان مہاجرین کو روزگار کی اشد ضرورت تھی، لہٰذا انہوں نے چھوٹے چھوٹے کاروباروں کا آغاز کیا، خاص طور پر ترکاری، قصاب خانے اور کباڑی کی دکانیں برما ہوٹل، کلی بنگلزئی، موسیٰ کالونی اور کسٹم کے علاقوں میں کھولنے لگے۔
یہ کوئٹہ کے بلوچ اکثریتی علاقے تھے، اسلیئے افغان مہاجرین کو یہاں کسی بلوچ تمندار کی طرف سے یقین دہانی کی ضرورت تھی، جو سراج رئیسانی کی صورت میں پرتشدد طریقے سے سامنے آیا، جو بھتہ وصول کرکے انہیں تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتا تھا اور جو بھتہ دینے سے انکار کرتا پھر اسے سراج کے گروہ کے ہاتھوں تشدد برداشت کرنا پڑتا، جو ان مہاجرین کو مار مار کر لہولہان کرنے سے نہیں کتراتے تھے۔
یہ رئیسانی خاندان پر کڑا وقت تھا، مخالف قبیلے کا سربراہ یار محمد رند حکومت میں تھا اور اس نے رئیسانی بھائیوں کے خلاف بہت سے کیسز درج کروائے تھے، رئیسانی خاندان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو تھی، لیکن سراج رئیسانی ایسے وقت میں اپنے کالے دھن سے خاندان کو چلاتے رہے۔
سراج رئیسانی اپنے اس دھندے میں اور وسعت لانا چاہتے تھے، لہٰذا سائکل چوری موٹر سائیکل چوری میں بدل گئی جو بعد میں گاڑیاں چھیننے تک پہنچی۔ 2004 سے لیکر 2008 تک کوئٹہ میں متعدد افراد موٹر سائکل یا گاڑیاں چھیننے کے وارداتوں کے دوران ڈکیتوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ سراج کا گینگ جو “رئیسانیوں” کے نام سے پکارا جاتا تھا، ان وارداتوں کے پیچھے تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ کے تحقیقاتی ٹیم کے مطابق، اس دورانیئے میں صرف کوئٹہ سے ہزاروں گاڑیاں چوری کی گئیں۔ ان گاڑیوں کو یا تو کھول کر حصوں میں بیچ دیا جاتا یا پھر کوئی قبائلی میر گاڑی کے مالک کو فون کرکے فراخدلانہ انداز میں گاڑی واپس دلوانے کی پیشکش کرتا اور بدلے میں ” چائے پانی”(بھتہ) طلب کرتا۔
نعیم بنگلزئی جس کا کلٹس کار کوئٹہ کے علاقے بی بی زیارت سے چوری ہوا تھا نے ٹی بی پی کو بتایا کہ گاڑی کے چوری ہونے کے تین دن بعد اسے ایک علاقائی “مِیر” کا فون آتا ہے، جو کہتا ہے کہ اس نے اپنے ذرائع سے چوروں کا معلوم کرلیا ہے، لیکن گاڑی واپس لانے کیلئے اسے ” چائے پانی ” دینا پڑے گا۔ نعیم کو اپنا ہی کار واپس حاصل کرنے کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے دینا پڑا، اسے میر صاحب کا شکر گذار بھی ہونا پڑا، جو دراصل خود اس واردات کا ایک حصہ دار تھا۔
یہ دراصل سراج رئیسانی کا منصوبہ تھا کہ ایک طرف سے چوریاں کروائی جاتیں اور دوسری طرف سے اسکے علاقائی میروں سے رابطے تھے، جو چوری کے بعد مالک سے رابطہ کرکے اسکی اپنی ملکیت واپس کرنے کے عویض ” چائے پانی” کی صورت بھاری رقم ہتھیاتے۔ بادی النظر یہ ظاھر کیا جاتا کہ علاقائی میر کوئی احسان کررہا ہے، جو دراصل خود پھر اس معاوضے میں حصہ دار بنتا۔ اس طرح نا صرف چوری کا مال کہیں اور سستے داموں بیچنا پڑتا اور نا ہی مالک کا پولیس کے پاس جانے کا ہزیمت پیش آتی۔
لیکن پھر سب کچھ بدل گیا، دسمبر 2007 کو پاکستان کے معروف لیڈر بینظیر بھٹو کو ایک خود کش حملے میں قتل کردیا گیا، بینظیر کی پیپلز پارٹی ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور عام انتخابات میں جیت گئی۔ رئیسانی خاندان تاریخی طور پر پیپلز پارٹی سے وابسطہ رہی ہے، سراج رئیسانی کے والد غوث بخش رئیسانی پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے، جس کے بعد وابستگی جاری رہی اور سراج کے بھائی اسلم رئیسانی نے 2008 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے مقابلہ کیا اور کامیاب ہوئے۔ پی پی نے بلوچستان میں اپنی حکومت قائم کی اور اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے، بعد ازاں 2009 میں انکے دوسرے بھائی لشکری رئیسانی سینیٹر منتخب ہوگئے۔
ان کامیابیوں کا رئیسانی خاندان کیلئے بے پناہ طاقت مطلب تھا۔ اسلم رئیسانی کی حکومت بلوچستان کی بدعنوان ترین حکومت ثابت ہوئی۔ پاکستانی نیب کے مطابق اسلم رئیسانی دور میں کھربوں روپے کی خرد برد ہوئی۔ ایک طرف رئیسانی بھائی حکومتی خزانے کو لوٹ رہے تھے تو دوسری طرف سراج رئیسانی کو وہ آزادی حاصل ہوگئی تھی جس کا کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
چند ہی مہینوں میں، اس نے ایک خطرناک گروہ تشکیل دے دیا، جو منشیات اور اغواء برائے تاوان کے کالے دھندے میں بام عروج پر پہنچا۔ کوئٹہ اور گردو نواح کے علاقوں میں ایک بھی خاندان اس گروہ کے کرتوتوں سے محفوظ نہیں رہا۔ اغواء برائے تاوان کے واقعات آسمان کو چھونے لگے۔ بلوچستان کے تقریباً ہر امیر گھرانے سے کسی نا کسی وقت، کوئی ایک فرد ضرور اغواء ہوا۔ اپنے پیاروں کو بازیاب کرانے کی خاطر ساری دولت لٹانے کے باعث یہ خاندان بس دنوں میں ہی شاہ سے گدا بن جاتے تھے۔
مشہور ڈاکٹروں سے لیکر، سرکاری افسران، و تاجران تک کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ اغواء برائے تاوان نے اربوں روپے مالیت کے کاروبار کا شکل اختیار کرلیا، اور اسکا پورا انتظام سراج رئیسانی کے ہاتھ میں تھا۔ ایک واقعے میں،مینگل قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک چھیاسٹھ سالہ ڈاکٹر کے خاندان نے پانچ کروڑ تاوان ادا کرکے اپنے پیارے کو بازیاب کروایا۔ کچھ اور واقعات میں اس سے بھی بھاری رقم ادا کیا گیا تھا۔
ساری انگلیاں سراج رئیسانی کی جانب اٹھ رہیں تھیں، لیکن اس نے نا صرف اس دوران بے تحاشہ دولت اکھٹا کیا بلکہ علاقے میں اپنا اثرو رسوخ بھی قائم کرلیا۔
تاہم، سراج کو خطرہ صرف ایک اور ابھرتے ہوئے طاقت سے تھا۔ آزادی پسند بلوچ مسلح جماعتیں: جو تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے اور مضبوط ہورہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب سراج رئیسانی اور پاکستانی فوج کا ایک مشترکہ دشمن تھا۔ پاکستان فوج اس وقت بلوچ مزاحمت کو کچلنے کیلئے علاقائی ملیشیاء جسے عرف عام میں ” ڈیتھ اسکواڈ” کہا جاتا ہے، تشکیل دے رہا تھا۔ اس غرض سے فوج با اثر علاقائی موتبرین، منشیات فروشوں اور مذہبی شدت پسندوں کو اس میں شامل کررہا تھا۔ جنہیں بلوچ آزادی پسندوں کی مقبولیت سے یکساں خطرہ تھا۔
یہ وہ وقت تھا، جب شفیق مینگل کی بلوچ مسلح دفاع تنظیم، سپاہ شہداء، الانصارلمجاہدین، بلوچستان بنیاد پرست آرمی اور بہت سے چھوٹے بڑے “امن لشکر” خفیہ اداروں کی سرپرستی میں بلوچستان میں تشکیل دیئے جاچکے تھے۔ ان امن لشکروں میں ایک اور تنظیم کا اضافہ بلوچستان تحریکِ نفاذ امن کے نام سے ہوا۔ ان گروہوں نے بہت سے بلوچ سیاسی کارکنان کے قتل کی ذمہ داریاں قبل کئیں، جن کا تعلق مختلف آزادی پسند سیاسی جماعتوں سے تھا۔ یہ بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان کے اہلخانہ کو بھی نشانہ بنانے سےنہیں کتراتے تھے۔
2011 کے اوائل سے ہی تحریک نفاذ امن کے قیادت کے بابت انگلیاں سراج رئیسانی پر اٹھ رہیں تھیں، وہ نجی قبائلی جرگوں میں ببانگ دہل اس گروہ سے اپنا تعلق ظاھر بھی کرتے تھے۔ سماجی رابطے کے ویب سائٹوں پر متحرک بلوچ سیاسی کارکن تواتر کے ساتھ ان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ مستونگ، کوئٹہ اور گردو نواح میں بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور ٹارگٹ کلنگ میں مصروفِ عمل ہے۔
مستونگ کے علاقوں کانک اور درینگڑھ میں تحریکِ نفاذِ امن کے زیر سرپرستی اذیب گاہوں کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا۔
2011 اور 2013 کے بیچ میں مذکورہ تنظیم کے ترجمان غازی خان نے متعدد بلوچ سیاسی کارکنان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی اور الزام لگایا کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے ” را” کے حمایتی تھے۔
جولائی 2011 کو بلوچستان لبریشن فرنٹ نے ایک فٹبال میچ کے دوران مستونگ اسٹیڈیم میں سراج رئیسانی پر حملہ کردیا۔ سراج رئیسانی تو بچ گئے لیکن انکے بیٹے اکمل رئیسانی اس حملے میں ہلاک ہوگئے۔ سراج نے بدلہ لینے کا قسم اٹھایا اور چند ہی ہفتوں میں متعدد بلوچ قوم پرست سیاسی کارکنوں کو مستونگ میں قتل کردیا گیا۔ ان میں وہ چار کزن بھی شامل ہیں، جن کا تعلق ایک طلبہ تنظیم
سے تھا، جنہیں ایک ساتھ اغواء کیا گیا اور کچھ دنوں بعد ہی انکی انتہائی تشدد زدہ لاشیں پھینک دی گئیں۔
اکمل کے ہلاکت کے بعد سراج کھلے عام بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف کام کرنے لگا، اس نے بلوچستان متحدہ محاذ کی صورت میں اپنا سیاسی ونگ بھی تشکیل دیا۔ اسکے نائیبین میں فرید رئیسانی، عطاء اللہ بڑیچ، نورا گڑاری، مولا بخش راہیجو، شمس مینگل اور اسلحہ جات کا ماہر مجید رئیسانی شامل تھے۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی گردش کرتی نظر آئی، جس میں سراج رئیسانی کو مسلح افراد کے ہمراہ پاکستانی جھنڈا لہراتے دیکھا جاسکتا تھا۔ اسی طرح کے ایک ویڈیو میں سراج رئیسانی کو ان مسلح افراد سے قرآن پر حلف لیتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا تھا، جہاں جہادی نغے بھی بج رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق اس ویڈیو کو اس وقت فلمایہ گیا تھا، جب سراج رئیسانی کے کارندے بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف ایک آپریشن کیلئے روانہ ہورہے تھے۔
بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنوں پر حملوں کے علاوہ سراج رئیسانی پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ وہ وہاں سے گذرنے والی نیٹو ٹرکوں پر بھی حملہ کرکے لوٹتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں نیٹو ٹرکوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کیلئے سراج رئیسانی نے ایک ڈیل کرلیا اور بہت بھاری رقم بھی ہتھایا۔
ان پر لشکرجھنگوی اور اہل سنت والجماعت جیسے شدت پسند گروہوں کے ساتھ اتحاد کرنے کا بھی الزام لگا۔ بعد ازاں انکے لشکر جھنگوی کے علاقائی سربراہ رمضان مینگل اور اہل سنت و الجماعت کے اورنگزیب فاروقی کے ساتھ ملاقات کے تصاویر بھی میڈیا کے ذینت بنے۔
علاقائی ذرائع کے مطابق سراج رئیسانی ان شدت پسند گروہوں کو شیعہ ہزارہ مسلک کے خلاف اپنے مالی مفادات کے غرض کیلئے استعمال کررہا تھا۔ سراج کی نظریں ہزارہ ٹاون کوئٹہ کے مہنگی زمینوں پر تھیں، مذکورہ شدت پسند تنظیموں کے حملوں نے سراج کیلئے یہ آسان بنادیا کہ وہ یہ زمینیں کوڑیوں کے دام خرید سکے۔
بدلے میں سراج نے لشکر جھنگوی کو رئیسانی قبیلے کے آبائی علاقوں، کانک اور گردو نواح میں محفوظ جنتیں مہیا کیئے۔
سراج رئیسانی اور لشکر جھنگوی دونوں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ہمنوا تھے، لیکن زیادہ وقت نہیں گذرا، جب دونوں کے بیچ اختلافات شروع ہوگئے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق لشکرجھنگوی اور سراج رئیسانی کے بیچ اختلافات کا آغاز 2011 میں اس وقت شروع ہوا، جب لشکرجھنگوی نے ہمیشہ کی طرح شیعہ زائرین کے ایک بس کو مستونگ کے قریب نشانہ بنایا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق حملے کے بعد حملہ آور اپنے محفوظ ٹھکانے کانک روانہ ہوئے۔ اس حملے کے بعد سراج کے اوپر بہت دباو پڑا، لہٰذا اس نے لشکر جھنگوی سے علاقہ خالی کرنے کو کہا۔
اس کے بعد لشکر جھنگوی نے اپنا کیمپ مستونگ کے قریب کندھاوا میں ایک مدرسے کے قریب قائم کیا۔ کچھ وقت بعد فوج نے اس ٹھکانے پر حملہ کیا اور اس حملے میں لشکر جھنگوی کے سات کارندے مارے گئے۔ لشکر جھنگوی نے اس کا ذمہ دار سراج رئیسانی کو ٹہرایا۔
یہ تعلقات مزید اس وقت بگڑے جب فرنٹیئر کور نے لشکر جھنگوی کے ایک اور ممبر کو کوشکک کے مقام پر مار دیا، اطلاعات کے مطابق سراج رئیسانی کے دستِ راست منیر رئیسانی نے مقتول کی لاش کو اپنے گاڑی کے پیچھے باندھ کر پورے شہر کے گلیوں میں گھسیٹا۔ بعد ازاں منیر رئیسانی لشکر جھنگوی کے ہاتھوں مارا گیا۔
سراج رئیسانی کے ایک اور قریبی ساتھی ماسٹر قدوس کو بھی لشکری جھنگوی نے کندھاوا میں مار دیا۔
اسی طرح سراج رئیسانی گروپ کے بہت سے کارندے بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتوں کے ہاتھوں بھی قتل ہوئے، جن میں قابلِ ذکر انکے قریبی ساتھی عطاء اللہ بڑیچ ہیں، جو بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ہاتھوں مارے گئے۔
ایک ایسے وقت میں جب بہت سے مذہبی شدت پسند تنظیموں کو یا تو ختم کیا گیا یا پھر وہ فوجی حکام کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے، سراج رئیسانی گروپ وفاداری کے ساتھ فوج کی سرپرستی میں تابعداری کے ساتھ کام کرتا رہا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہی وجہ تھی کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اتنے قریب آگئے تھے۔
جب داعش کا اس خطے میں ظہور ہوا، تو لشکر جھنگوی کے بہت سے ارکان نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی، داعش نے بلوچستان میں بہت سے حملے کیئے۔ ایسے ہی ایک خود کش حملے میں 13 جولائی 2018 کو سراج رئیسانی درینگڑھ کے علاقے میں مارے گئے۔ ان کے علاوہ اس حملے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
سراج کے آخری رسومات سرکاری سطح پر ادا کیئے گئے، جس میں سینئر فوج و سول افسران بشمول گورنر اور چیف آف آرمی اسٹاف شامل تھے۔
علاقائی سیاسی کارکنان اور تجزیہ نگار اس صورتحال کو بہت ہی عجیب اور خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ” اگر ایک ایسا شخص جو اتنے زیادہ جرائم میں ملوث ہو، صرف فوج کا گندہ کام کرکے صاف ستھرا ہوسکتا ہے، تو پھر اس سے ایک انتہائی خطرناک روایت کا آغاز ہوگا۔ اس پاگل پن کے اثرات سالوں تک زائل نہیں ہونگے۔” ایک سینئر تجزیہ نگار نے نام ظاھر نا کرنے کے شرط پر دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا۔