راہِ فراریت – لطیف بلوچ

362

راہِ فراریت

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ زندہ رہنے کے لیئے انسان کے پاس کوئی بڑا مقصد ہو، بڑا نظریہ ہو،ورنہ انسان کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی جھک جاتا ہے، تھک جاتا ہے یا بِک جاتا ہے۔

جب انسان کا سوچ اور نظریہ پختہ نہ ہوں اور وہ ہمیشہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اور مایوسی چاروں اطراف سے اُسے گھیر لیتا ہے، ایسا شخص ہمیشہ منفی رائے قائم کرتا ہے اور اپنے مایوسی اور نظریاتی بے راہ راوی کو خوبصورت الفاظ کا پوشاک پہنا کر بیان کرتا ہے، تاکہ لوگ اُس کے الفاظ کے گورکھ دھندے کا شکار ہوں اور وہ جو موقف یا نظریہ پیش کرتا ہے، اُس موقف کو بناء کسی بحث و مباحثہ، سمجھنے اور جانچنے کے قبول کریں اور وہ تحریک و جدوجہد کے متعلق جو مایوسی پھیلا رہا ہے، اُس سانچے میں لوگ اُتر جائیں ہم بلوچ سیاسی اور مسلح تحریک کا باریک بینی سے جائزہ لیں، تو ایسے بہت سے کردار ہمیں ملتے ہیں، جو تحریک میں شامل اپنے مفادات کے حصول کے لیئے ہوتے رہے ہیں، جب اُن کے مفادات تکمیل تک پہنچ گئے یا وہ اپنے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں پھر مختلف حیلے بہانے بناکر فراریت کا راہ تلاش کرتے ہیں۔

ایسے لوگ اپنی فکری تھکاوٹ،کمزوریوں، کوتاہیوں اور کاہلی و سستی کو تحریک پر تھونپنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ شہداء و لاپتہ اسیران کے قربانیوں، جدوجہد، مصائب و اذیتوں کو نظر انداز کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ تحریک ناکام ہوچکا ہے، لوگ مایوس ہورہے ہیں، گراونڈ (بلوچستان) پر کچھ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان سے کوئی پوچھے جب آپ تحریک کا حصہ تھے، آپ نے کہاں تک اپنے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور سیاسی ورکروں اور عام لوگوں کی تربیت کس حد تک کی ہے؟ اگر آج لوگ مایوس ہورہے ہیں، تو کیوں ہورہے ہیں؟ ہم سے کہاں کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے؟ جس کے وجہ سے لوگ تحریک سے دور ہورہے ہیں؟ اس کے اسباب کو ڈھونڈنے کے کھبی ہم نے کوشش کی ہے؟

جب بلوچ تحریک فعال اور منظم تھا، گراونڈ سے لیکر بیرون ممالک میں سیاسی سرگرمیاں منظم انداز سے ہورہے تھے، تو ہر کوئی کامیابی پر نازاں تھا بلکہ ہر کامیابی اور نفع میں حصہ دار تھا لیکن آج ناکامی اور نقصان کا کوئی ذمہ داری اُٹھانے کو تیار نہیں بلکہ ہر کوئی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر دوسروں کو ذمہ دار ٹہرانے کی کوشش کررہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس قومی نقصان، سیاسی اور مسلح محاذ پر ہونے والے نقصانات اور کمزوریوں کا ہم سب برابر کے ذمہ دار ہیں اور یہ رونما ہونے والے واقعات ایک تو اس لیئے ہوئے کہ ہم ایک مضبوط ادارہ بنانے میں ناکام ہوئے، بلکہ بلوچ تحریک میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو پروان چڑھاتے رہے ہیں اور آج بھی انفرادیت ہی تحریک (جہاں کوئی ایک کمزور ادارہ موجود ہے) پر حاوی ہے۔

ادارہ اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے 70 کے دہائی میں بھی بلوچ تحریک ایسے غیر نظریاتی رحجانات سے گذرا ہے، بلوچستان سے بہت سے سیاسی کارکن تحریک کے حوالے سے ماسکو چلے گئے وہاں تعلیم حاصل کیئے اور دیگر ذاتی مفادات حاصل کیں۔ جب واپس آگئے تو تمام نقصانات اور کمزریوں کا ذمہ دار قیادت کو قرار دے کر خود سرکاری ملازمت حاصل کرلی اور اپنے آپ کو اپنے ذاتی زندگی، بچوں اور ملازمت تک محدود رکھے بلکہ تحریک کو نقصان دینے کے لئے سرگرم ہوگئے، موجودہ تحریک کا اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں ایسے بہت سے رحجانات نظر آتے ہیں، بہت سے سیاسی کارکن تنظیموں کے آڑ لیکر حالات اور واقعات کو جواز بناکر یورپ سمیت دیگر ممالک کا رُخ کیا، وہاں اعلیٰ تعلیم اور سیاسی اسائلم بھی سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں کے ذریعے حاصل کیا لیکن آگے چل کر اپنے قومی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے جس مقصد کے لئے انہوں نے اسائلم حاصل کیا۔ وہ اپنے مقصد کو بھول گئے، بلکہ مختلف طریقوں سے بلوچ قیادت اور تنظیموں کے درمیان اختلافات کے ذریعہ بننے، ایسے بہت سے کارکن واپسی کےلیئے پرتول رہے ہیں۔

تحریک سے راہِ فراریت اختیار کرنے کے لیئے جس طرح کی من گھڑت تاویلیں پیش کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ لوگ ایک مخصوص ایجنڈے اور ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے، اب اُن کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔ اب علیحدگی کے لیئے راہ تلاش کررہے ہیں۔ اپنے کمزوریوں، کوتاہیوں، ناکامیوں، غلطیوں اور عدم فعالیت پر پردہ ڈالنے کے لئے تحریک اور قیادت کو مورد الزام ٹھہرائیں گے اور اُنکی اگلی منزل خاموش سیاسی سر نڈر کے صورت میں نکلے گی۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ بلوچ تحریک ختم نہیں ہوگا۔ کچھ لوگوں کے کردار ضرور سامنے آئیں گے۔

جو سیاسی کارکن روس سے واپسی پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ تحریک ختم ہوگیا ہے، وہ اپنے ذاتی کاروبار، سرکاری نوکری دیگر ایسے ذاتی اور وقتی مفادات کا شکار ہوگئے لیکن ان کو تحریک میں جس نام و کردار سے یاد کیا جاتا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ غلط اور جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ اُنکے تمام کردار اور شخصیت کو داغ دار بنادیا، آج اگر کوئی اُنہی کرداروں کی تاریخ کو دہرانے کے کوشش کررہا ہے، تو زندگی بھر بلکہ موت کے بعد یہ داغ ان کے کردار و شخصیت پر لگا رہے گا۔

آزادی پسند بلوچ سیاسی پارٹیوں، تنظیموں اور قیادت کو چاہیئے ایسے منفی رحجانات کے حوصلہ شکنی کرنے کے لئے ادارہ سازی اور ذہن سازی پر توجہ مرکوز کریں تاکہ نوجوان مایوسی، سیاسی بیگانگی سے نکل کر تحریک میں مثبت اور فعال کردار ادا کرسکیں۔