درباریت اور بلوچ تحریک- برزکوہی

422

درباریت اور بلوچ تحریک 

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

کسی مہربان نے سوال کیا  کہ کیا بلوچ قیادت  اتنی کم عقل، کم علم اور بے شعور ہے کہ درباریوں کے زیر اثر رہ کرمعاملات کو غلط نقطہ نظر سے دیکھ کر  غلط پالیسیوں ،غلط حکمت عملی، غلط رخ اور غلط سمت سفر کرنے کے مرتکب ہوں ؟

میرا جواب تھا کہ کیا بلوچ قیادت ان تمام مغل سلاطین، بادشاہوں سے زیادہ دانشمند، عالم ،باعلم اور عقلمند ہے جو اس وقت درباریوں اور چاپلوسوں کی درباری اور چاپلوسی کردار اور سوچ کی گھیرے میں ہوکر پھر بھی ان کا شکار نہ ہو، اور ان سے بھی حد درجہ زیادہ مضبوط ہوں، جو اپنے کردار سلطنت،  اور عروج کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے درباری چاپلوس اور خوشامدی کے بھینٹ چڑھا کر اپنے آپ کو تاریخ کی صفحوں میں زوال و فنا کے مقدر میں دھکیل دیں۔

سلطنت ،ریاست ،سیاست ، تحریکات ،قبائلی شخصیات اور جنگ و جدل کی تاریخوں میں درباریوں کا ہمیشہ واضح کردار رہا ہے زمان و مکان کے تناظر میں شاید شکل و صورتاور طریقہ کار مختلف ہوں، لیکن درباریوں کی  فطرت و خصلت تاریخ کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دور میں ایک جیسا ہوا ہے اور ایک جیسا ہوتا ہوا آرہا ہے

ماضی سے لیکر عصر حاضر تک اگر مختصر بھی  حوالہ دیا جائے تو درجنوں صفات بھر جائیں گے ، لیکن درباریوں کے درباری کرداروں کو پورا طشت ازبام کرنا ممکن نہیں ہوگا

کیسے اور کس طرح درباریوں کا کردار دربار پر اثر انداز ہوکر فنا اور زوال کو دعوت دیتی ہے۔؟

شیخ سعدی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس کا بادشاہ جنت میں ہے اور شہر کاایک پارسا آدمی دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔اس نے ایک دانا سے خواب کی تعبیر پوچھی تو جواب ملا کہ یہ بادشاہ فقیروں سے عقیدت رکھتا تھا اس لئے جنت میں جا پہنچا اور پارسا آدمی بادشاہ کے درباریوں کا گرویدہ تھا اس لئے دوزخ میں جلتا نظر آیا۔

جلال الدین اکبر اپنی مضبوط سلطنت اور بہترین زانت کی وجہ سے جانا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے بھی آگے بڑھ گیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ جلال الدین میں پڑھنے کی اہلیت بہت کم تھی اور وہ لفظوں کی ادائیگی صحیح طور پر نہیں کر پاتا تھا۔ شائد اسی وجہ سے اس نے کچھ درباریوں کی باتوں میں آکر دین الٰہی کی بنیاد ڈالی تھی۔ جو کہ بُری طرح ناکام ہوئی۔ اور رہتی دنیا تک اسے منفی انداز میں یاد رکھا جائے گا ۔

برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل بھی بادشاہوں کے مرنے کے بعد سلطنت ان کے اولاد کے حصے میں آیا کرتا، ہر دور کی طرح یہاں بھی سازشیں رہتی جن میں ان کے درباری اور نورتن اہم کردار کرتے، کبھی انعام و اکرام سے نوازے جاتے تو کبھی سولی چڑھائے جاتے، ان نورتنوں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور خاص طور پر دربار اکبر ی میں نورتنوں کی اپنی اہمیت تھی جن میں بیربل، شیخ فیضی، راجہ ٹوڈرمل، عبدالرحیم خان خاناں، مہاراجہ مان سنگھ، ابوالفضل اور تان سین شامل تھے۔

دربار میں یہ لوگ دن بھر بادشاہ کی رضا جوئی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیاہ کو سفید اور دن کو رات کہتے نہیں تھکتے ،شاید ان میں جو درباری مسلمان ہوں گے وہ تنہائی میں بادشاہ وقت کی نئے دین، دین الٰہی کی اپنی حمایت پر افسوس کرتے ہوں اور توبہ کرتے کہ دربار میں کیسی کیسی حماقتیں کرتے ہیں مگر اپنے حریفوں کو شکست دینے کا یہی حل تھا کہ بادشاہ کی ہر جائز ناجائز بات کی حمایت کی جائے تا کہ ان کے دشمنوں کا منہ بند ہو۔ وہمشہور محاورہ بھی کہتے تھے کہ ہم بادشاہ کے نوکر ہیں بینگنوں کے نوکر نہیں، اکبر بادشاہ کا مشہور نورتن ابوالفضل فیضی جو اس کا دودھ شر یک بھائی بھی تھا، اس کی ہاں میں ہاں ملانے سے اس قدر خائف ہو گیا تھا کہ اس کا تکیہ کلا م بن گیا تھا، ہائے ایسا نہ کروں تو کیا کروں وہ بار بار یہ الفاظ دہراتا اور ٹھنڈ ی آہ بھرتا تھا ۔

اکبرکے یہ نورتن ذہین ہو نے کے ساتھ ساتھ چاپلوسی اور خوش آمدی میں ماہر تھے، خوشامدی کا فن سب سے زیادہ شاہی دربار میں پروان چڑھا کیونکہ بادشاہ کی ذات  عقل کل اور اختیارات کی حامل تھا،خوشامد کرنے والے اپنی زبان میں شائستگی و خوبصورت اشعارکا استعمال کرتے بادشاہوں کی تعریف میں ان کی شجاعت و بہادری کے قصے سناتے، زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے، طاقت و اختیارات اور اقتدار ایک انسان کی شخصیت کو بدل دیتے ہیں، خوشامد کے لفظوں میں اس قدر جادو ہوتا کہ بادشاہ وقت اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا

چودھویں صدی کی بات ہے۔
ہندوستان میں دہلی کے چیف جسٹس قاضی کمال الدین نے اپنی عدالت لگائی ہوئی تھی ۔ ہندوستان کے بادشاہ محمد تغلق کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا ۔ دہلی کے عالم اور فاضل شیخ زادہ جام نے کہا تھا کہ بادشاہ ظالم اور بربریت پسند ہے۔

جب شیخ کا یہ الزام سلطان تک پہنچا تو وہ شاہی سواری کی بجا ئے پیدل قاضی کمال الدین کی عدالت میں پیش ہوا تھا ،وہ یہ الزام برداشت نہیں کرسکتا تھا کوئی اسے ظالم کہے ، وہ تو انصاف کے لیے مشہور تھا ،تغلق نے چیف جسٹس قاضی کمال الدین سے کہا شیخ ذادہ جام کو فوراً عدالت میں طلب کیا جائے اور ثبوت مانگے جائیں ۔

اب شیخ زادہ جام عدالت میں ایک ملزم کی حیثیت سے کھڑا تھا ، اسے بادشاہ کا الزام پڑھ کر سنایا گیا اور قاضی کمال الدین نے پوچھا ”آپ نے بادشاہ سلامت کو ظالم بادشاہ کہہ کر پکارا تھا ؟ ‘‘شیخ زادے نے سر اوپر اٹھایا خاموش رہا۔ بادشاہ کی طرف دیکھا تو اسے وہ دن یاد آیا جب محمد تغلق بادشاہ بنا تھا ،پوری عدالت شیخ زادے جام کی طرف دیکھ رہی تھی کہ وہ اس الزام کا کیا جواب دیتا ہے جبکہ شیخ ماضی میں کھو چکا تھا ۔

شیخ ز ادے کو 1325 کا سال یاد آیا جب سلطنت دہلی کا بادشاہ غیاث الدین تغلق پانچ سال ہندوستان پر بادشاہت کے بعد حادثے میں مرچکا تھا ۔ اگرچہ شک اس کے بیٹے محمد تغلق پر کیا جارہا تھا جو اس وقت شیخ زادے کے خلاف شکایت لے کر عدالت میں
کھڑا تھا ، تاہم محمد تغلق نے ایسے ظاہر کیا تھا کہ اسے باپ کی موت کا بہت صدمہ تھا ۔

شیخ کو یاد آیا چالیس دن بعد محمد تغلق ایک بڑے جلوس کے ساتھ دلی کی طرف روانہ ہوا تھا اور پوری دلی کو دلہن کی طرح نئے بادشاہ کے استقبال کے لیے سجایا گیا تھا ، لوگوں کا ہجوم دیکھ کر محمد تغلق نے تقریربھی کی تھی کہ ” میرا باپ غیاث الدین تغلق بھی انصاف کرتا تھا میں بھی انصاف کروں گا ‘‘۔ عدالت میں کھڑے شیخ زادے کو نئے سلطان کے لفظ یاد آئے ” بوڑھا ہو یا جوان سب میرے باپ اور بچوں کی طرح ہیں ۔ میں سب کی فلاح کے لیے کام کروں گا ۔ میں انصاف کے ساتھ حکومت کروں گا اور ایسا انصاف لاوں گا کہ مجھے منصف بادشاہ کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔‘‘

اور پھر محمد تغلق نے اپنے انداز میں انصاف شروع کیا اور سلطنت دلی کے تین سو سال کا سب سے مشکل ترین دور شروع ہوا ۔ شیخ زادہ جام بھی ہندوستان کے بہت سارے مورخوں کی طرح شروع میں یہ فیصلہ نہ کر سکا تھا کہ سلطان محمد تغلق ایک خونی درندہ ہے یا پھر ایک انہتائی ذہین اور سجھدار بادشاہ ۔ بادشاہ ایک طرف لوگوں پر تحائف کی بارش کرتا تو اس سے زیادہ اس دن انسانی لہو بہاتا تھا۔ محل کے دورازے سے فقیر خالی ہاتھ نہیں جاتا تو کوئی دن ایسا بھی نہ گزرتا جب محل کے سامنے کسی انسان کا لہو نہ بہایا جاتا ۔ دھیرے دھیرے سلطان تغلق کے بارے میں مشہور ہونا شروع ہوگیا “اے سینٹ ود دا ہارٹ آف ڈیول “. ۔ جو ہروقت انسانی لہو بہانے کے لیے تیاررہتا تھا ۔ روزانہ اس کے دربار میں سینکڑوں لوگ لائے جاتے جن میں عالموں سے لے کر عام لوگ ہوتے۔ جن کا سر قلم ہونا ہوتا تھا ان کا سر قلم کر دیا جاتا، جن پر تشدد کا حکم ہوتا انہیں تشدد کا شکار کیا جاتا۔ محل کے دورازے پر ہر وقت انسانی لہو بہتا رہتا تھا ۔ دنوں تک لاشیں لٹکی رہتیں تاکہ لوگوں کو سلطان سے ڈرا کر رکھا جائے۔ جمعہ کے علاوہ روزانہ وہاں انسانوں کا لہو بہایا جاتا تھا ۔ سلطان محمد تغلق ایک پڑھا لکھا بادشاہ تھا لیکن اس کے اندر رحم نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

سب عالم اور بڑے لوگ سلطان تغلق سے خوفزدہ تھے۔ آواز کون اٹھائے اور پھر دلی کے شیخ زادہ جام نے کہا کہ وہ آواز اٹھائے گا کہ بادشاہ ظالم اور بے انصاف ہے۔ عالم کا کام ہے جب بادشاہ ظالم ہو تو وہ عام انسانوں کا ساتھ دے، بادشاہ کو چیلنج کرے اور پھر شیخ جام زادہ نے آواز بلند کردی جس کی گونج بادشاہ تک پہنچ گئی اور آج بادشاہ اسے چیف جسٹس کی عدالت میں لے آیا تھا اور متمنی تھا کہ ” شیخ کو کہیں میرے خلاف ثبوت دے ‘‘

سب نظریں اب شیخ پر لگی ہوئی تھیں۔ قاضی کمال الدین اور سلطان تغلق بھی شیخ زادہ جام کو دیکھ رہے تھے۔
آخر شیخ نے سر اوپر اٹھایا اور بولے جی میں نے سلطان تغلق کو ظالم اور بے انصاف بادشاہ کہا ہے۔ یہ ظالم ہے۔
پوری عدالت ایک دفعہ ہل کر رہ گئی ۔
سلطان تغلق بھی کانپ کر رہا گیا ۔ کچھ دیر بعد سنبھل کر بولا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں نے ظلم کیا اور بے انصاف بادشاہ ہوں۔

شیخ زادے نے کہا جب آپ کے سامنے ملزم لایا جاتا ہے تو آپ کا شاہی استحقاق ہے انصاف یا ناانصافی پر مبنی اس کو سزا دیں لیکن آپ اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ اس ملزم کے بیوی اور بچوں کو بھی جلاد کے حوالے کردیتے ہیں کہ وہ جو جی چاہے ان کے ساتھ سلوک کریں ۔ اسلام یا کس اور مذہب میں لکھا ہے کہ آپ یہ ظلم کریں؟ کیا یہ ظلم اور بے انصافی نہیں؟
سلطان چپ چاپ عدالت سے باہر نکل گیا ۔

عدالت سے باہر نکل کر تغلق نے حکم دیا شیخ زادہ جام جب عدالت سے باہر نکلے اسے گرفتارکر کے لوہے کے پنجرے میں قید کردیا جائے۔
دوسری طرف بادشاہ کے درباری پریشان تھے کہ سلطان کو کون سمجھائے کہ وہ یہ شیخ زادے کے خلاف یہ سلوک نہ کرے کیونکہ وہ عدالت شکایت لے کر گیا تھا اور اس کی شکایت کا جواب سلطان کے پاس نہ تھا۔

بادشاہ کے درباری پہلے بھی سلطان کے ہر ظلم پر نہ صرف خاموش رہتے بلکہ تعریفوں کے پل باندھتے تھے ۔ ان درباریوں کو یہ ڈر لگا رہتا تھا اگر انہوں نے سلطان کو سمجھانے کی کوشش کی یا سچ بول دیا تو جہاں انہیں دربار سے باہر پھینکا جاسکتا تھا، ان کی شان و شوکت اور دولت سب کچھ چھن سکتی تھی۔ اس لیے وہ سب درباری منافق بن گئے تھے۔ منہ پر بادشاہ کی تعریفیں اور نجی محفلوں میں بادشاہ کے ان مظالم کی آنکھوں ہی آنکھوں میں برائیاں کرتے۔ دنیاوی خواہشات نے اب سب کو منافق بنا دیا تھا ۔ بادشاہ کا ڈھول بجا کر ہی یہ درباری عہدے لے سکتے تھے۔ انہیں سلطنت، معاشرہ یا لوگوں پر ظلم کی پروانہ نہ تھی۔ پرواہ تھی تو ان عہدوں کی جو وہ بادشاہ کی خوشامد کر کے لیے بیٹھے تھے۔ جو بھی زبان کھولنے کی جرات کرتا اسے یہ درباری ہی غدار قرار دے دیتے۔ اس لیے ان درباریوں نے بھی یہی سوچا منافق بن کر جیو اور سلطان سے عہدے لو اور میراثیوں کی طرح بادشاہ کا ڈھول پیٹو۔۔

مشہور مورخ ضیاء الدین برنی نے جو خود بھی سلطان کے قرببی درباری تھے، نے اپنے جیسے ان سب درباریوں کے بارے میں لکھاہے ” دنیاوی دولت اور عہدوں کی لالچ نے ہم سب کو منافق بنا دیا تھا ۔ ہم سب درباری سلطان کے دربار میں کھڑے سلطان کو غیرانسانی اور غیرقانونی سزائیں دیتے دیکھتے رہتے اور چپ رہتے۔ سلطان کی وجہ سے ملنے والی دولت اور عہدوں نے ہم سب درباریوں کے منہ بند کر دیے تھے کہ ہم بادشاہ کو کہہ سکتے آپ غلط کررہے ہیں۔سلطان محمد تغلق کے ہم سب درباری اپنے اپنے ذاتی فائدوں کے لیے منافق بن گئے تھے‘‘ ضیاء الدین برنی نے یہ جملہ اپنی آخری عمر میں لکھا ۔

اسی شیخ زادے جام کی لاش کو عدالت کے باہر سلطان نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھنکوا دیا جہاں شیخ زادے نے جرات کر کے ظالم بادشاہ کے خلاف گواہی دی تھی۔
جب دلی کے قاضی کمال الدین کی عدالت کے باہر انصاف کا قتل ہورہا تھا اورشیخ زادے جام کی لاش ٹکڑوں میں تبدیل ہورہی تھی اس وقت بھی سلطان محمد تغلق کے یہ سب منافق اور عہدوں کے لالچی درباری عدالت کے باہر خوشی سے بے حال ہو کر مبارکبادوں کے شور میں ڈھول کی تاپ پر لڈیاں ڈال کر لڈو بانٹ رہے تھے اسی طرح ہر دور میں
بادشاہوں کو ایسے درباری علماءنصیب ہوئے ہیں جنہوں نے دین کی اصل شکل کو مسخ کرکے دین کے احکامات کو بادشاہوں کی خواہشات کے تابع کیا۔ بادشاہ اپنی مرضی سے قاضی مقرر کرتا جو بادشاہ کے حکم کے مطابق فیصلہ سناتا ۔ یہی وجہ تھی کہ بعض اوقات علمائے حق بادشاہوں کے دربار میں ایسے مناصب قبول کرنے سے اجتناب کرتے تھے ، یہاں تک کہ وہ بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی پر سزا پانے کے لیے تیار ہوجاتے تھے لیکن چند ٹکوں کے عوض دین بیچنے پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ مغلیہ دور میں اکبر بادشاہ کا دور بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ اکبر بادشاہ خود تو ان پڑھ تھا لیکن اعلیٰ دماغ کا حامل تھا ۔ اس نے ہندووں کی تالیف قلوب کی خاطر انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دیں اور ان کے ساتھ ازدواجی رشتے قائم کیے۔ اس نے دین الہٰی کے نام سے ایک نیا دین بھی جاری کیا۔ جو ایک انتہا پسندانہ اقدام تھا اور اکبر کے ہندو رتنوں کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اس نے اپنے غیر اسلامی معاملات کو رواج دینے کے لیے اپنے دربار میں ایسے لوگ جمع کیے ہوئے تھے جو علم و فن میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ اکبر بادشاہ کو ابو الفضل اور فیضی جیسے معتبر علماءکی صحبت نصیب ہوئی جنہوں نے بادشاہ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ متذکرہ دونوں علماءاپنے علم و فن میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ فیضی کے متعلق آتا ہے کہ وہ بہت بڑا مصنف تھا۔ اس کی تصنیفات کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ تھیں۔ تاریخ ، فلسفہ اور طب وادبیات کا ماہر تھا۔ اس کے علم و فن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے سواطع الالہام کے نام سے قرآن مجید کی غیر منقوط تفسیر لکھی۔ اکبر بادشاہ کی سوانح تین جلدوں پر مشتمل اکبر نامہ کے نام سے اسی کی کاوش تھی۔ اس طرح دربار اکبری کا دوسرا عالم ابو الفضل بھی اپنے وقت کا بلند پایہ مصنف تھا ۔ اس کے خطوط کا مجموعہ فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔یہ آزاد خیال شخص تھا ۔ علماءاسے دہریہ سمجھتے تھے۔ اکبر کے دین الٰہی کے اجراءکا سبب یہی بناتھا۔ اسی نے اکبر بادشاہ کے مذہبی عقائد پر بہت اثر ڈالا اور بادشاہ کو یقین دلایا کہ مذہب کے معاملات آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ دربار اکبری کے دونوں علماءکی ترغیب و تحریص اور تعاون سے اکبر بادشاہ دینِ الٰہی کے نام سے ایک نیا دین قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اس دین کو کامیاب کروانے میں درباری علماءکا بہت بڑا کردار تھا۔ اگر کوئی علمائے حق میں سے اکبر بادشاہ کے خلاف آواز اٹھاتا تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتایا اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ حضرت شیخ مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے

پروفیسر عزیر بگٹی لکھتے ہیں
بلوچوں کے خان میر محراب خان کی دربار میں درباریوں کا غلبہ تھا، ان میں داود محمد غلزئی اخوند فتح محمد اس کا بیٹا اخوند محمد صدیق ملا محمد حسن اور شریف محمد خصوصی طور پر قابل ذکر ہے ان کو بلوچ سرزمین اور بلوچ حکومت سے کوئی دلچسپی اور وابستگی نہیں تھی۔

انھیں محض اپنے وزارت اور ذاتی مفاد سے غرض تھا لطف کی بات یہ ہے مذکورہ درباری حصول مال و زر کی خاطر ایک دوسرے سے خار رکھتے تھے اور آپس میں مستقل چپقلش سی کیفیت میں رہتے تھے ان میں سے ہر ایک اپنی حریف کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ قلات کا وزیر بننے کی خواہش رکھتا، اس مقصد کی حصول کے خاطر انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، اخوند قتح محمد اور داود محمد علزئی بھی اس چپلقش کے بھینٹ چڑھ گئے اسی چپقلش اور ذاتی مفاد کے لالچ انھیں انگریز کی ایجنٹ بننے کی طرف مائل کیا، مذکورہ درباریوں کی باہمی چپقلش محض ان تک محدود نہیں رہی ان کے لپٹ میں بیشتر بلوچ سردار بھی آگئے کیونکہ انہوں نے مختلف سرداروں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادی کرکے ان سے قربت داری پیدا کی تھی خان کے سرداران سراوان اور سردار جھالاوان اخوند فتح محمد کے داماد تھے اس طرح متذکرہ درباریوں کی چپقلش اور سازشیں بلاواسطہ طور بلوچ قباہلی معاشرے پر اثر انداز ہو کر ان کے اندر نفاق اور گروہ بندی پیدا کردیتی تھی جس کے باعث بلوچ کنفڈریسی میں رخنے پڑنا شروع ہوگہے

کیا اس وقت بلوچ تحریک درباری گری کا شکار نہیں ؟ پارلیمانی پاکستانی طرز سیاست کی طرح چاپلوسی خوشامدی پوائنٹ اسکورنگ ایک دوسرے سے بازی لیجانے، پاوں کیچھنے کی رجحانات خاص کر موجودہ نام نہاد الیکشن میں پارلیمانی پارٹیوں میں جو سرکشی اور منظر کشی دکھائی دے رہا تھا کیا وہ منفی اثرات اور جراثیم بلوچ تحریک پر اثر انداز نہیں ہیں ؟کیا قومی تحریک یا قومی جنگ جس کی سفر صرف بلوچ قوم کی خون  اور بے شمار قربانیوں کی بدولت محو سفر ہو پھر ایسے منفی رجحانات کے متمحل ہوسکتا ہے ؟قطع نظر پارلیمانی مراعات یافتہ مفادات اور سستی شہرت کی سیاست میں یہ سب کچھ مناسب جائز اور ضرورت ہیں کیونکہ جہاں قربانی اور خون کی تصور نہیں

کیا پھر تحریک آزادی کی جہد میں ایسے فرسودہ آزمودہ نسخوں اور رجحان کو پروان چڑھانا تحریک کے لیے سود مند ہونگے؟

ہر گز نہیں میں پہلے بھی بارہا کہہ چکا ہوں آج بھی کہوں گا اور آئندہ بھی کہوں گا اگر اس دفعہ حالیہ بلوچ مزاحمت خدانخواستہ سردمہری کا شکار ہوا تو اس میں اور بھی کوئی نہ کوئی وجوہات ضرور ہونگے لیکن سب سے اہم وجہ درباریوں اور چاپلوسیوں کا کردار اور دوسرا تحریک میں غیر سنجیدگی اور سطحی پن سوچوں کی بھرمار ہوگا۔

درباریوں کا بنیادی نفسیات خصلت اور طریقہ واردات ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے سب سے پہلے قیادت، بادشاہ، سردار، نواب، حاکم وغیرہ کی پورے طرح ذاتی مزاج طبعیت ،خواہشات ،خوشی ،ناراضگی، غم، پریشانی، تکلیف و سکون، لطف و بے چینی سب چیزوں کو انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے بعد سب چیزوں کو مدنظر رکھ عمل درآمد شروع کرتے ہیں انتہائی شاطرانہ اور چرپ زبانی کے ساتھ صفت خوانی خوشامدی شروع کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ذیادہ تر قیادت کے سامنے اس کے مخالفین پر زبردست کیچڑ اچھالنے کاکام کرتے ہوئے مخالفین کو غلط، ناکام، نالائق اور کچھ نہ ہونے کی حد تک پیش کرتے تاکہ وہ مزید خوش ہو ، تو پھر بادشاہ ،قیادت ،حاکم وغیرہ جتنا باصلاحیت اور باکمال ہو وہ درباریوں اور چاپلوسی کی زد سے اس طرح نہیں بچ سکتا ہے جس طرح کوئی ہیروہنی  نشے میں دھت انسان نہیں بچ سکتا ہے کیونکہ وہ پھر صرف تعریف صفت و ثناء اور خوشامدی کی عادی ہوگا ،بعد میں درباریوں اور چاپلوسیوں کی کمال ہے وہ کس طرف اور کہاں اسے لیجائے، آخر کار درباریوں اور چاپلوسیوں کی آپسی چپقلش ضد و انا ذاتی مفادات مقام رتبہ دربار سے قربت کی آپسی جنگ و جدل سازشیں جھوٹ فریب منافقت حسد و بغض سب ملکر قیادت، بادشاہ، سردار، حاکم وغیرہ کو زوال اور فنا سے دوچار کردینگے

ایسے بے شمار حقیقت پر مبنی واقعات سے پوری ایک زندہ تاریخ آج بھی انسانی دلوں اور کتابوں میں موجود ہے جن کو پڑھنے سمجھنے اور سننے کے بعد ایک انجان قسم کا خوف محسوس ہوتا ہے،جب سب کچھ انسان اپنی آنکھوں سے خود اپنی حالت کو کبھی کبھار دیکھتا ہے

ہر ایک انسان کو کوئی بھی انسان حقیقت اور سچائی کے بنیادوں پر کبھی بھی خوش اور مطمن نہیں کرسکتا البتہ جھوٹ دورغ گوہی دھوکہ، مصنوعی دکھاوئے کے بل بوتے پر ہر ایک کو مکارانہ اور شاطرانہ طریقے سے خوش اور مطمن تو کرسکتا ہے لیکن یہ منفی عمل خود چاپلوسی اور درباریت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، اگر آپ ایسا نہیں کرو گے تو آپ لوگوں کی آراء میں ضرور ناقابل قبول اور متنازعہ ہونگے لیکن وقت اور تاریخ کی صفحوں میں ضرور غیر متنازعہ اور قابل قبول ہونگے تو پھر اصل چیز تاریخ اور وقت ہے، لوگوں کی آراء اور آج نہیں ہے کیونکہ فیصلہ ہمیشہ وقت مورخ اور تاریخ کی ہوگی لوگوں کے صرف آراء ہونگے جن کی وقتی ہی اثر ہی صحیح مستقبل میں کوئی اہمیت نہیں ہوگا

بہرحال تمام جہدکاروں کو  اگر تاریخ اور وقت کی صفحوں میں زندہ ہونے کی خواہش اور تمناء ہے کم از کم غلطی ،ناسمجھی اور لاشعوری سے بھی دن کو رات اور رات کو دن، سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کسی کی طبعیت ،خواہش اور مزاج کی خاطر کہنے سے گریز کریں بصورت دیگر تاریخ وقت اور مورخ انتہائی بے رحم ہے۔