جنگِ آزادی اور نوجوانوں پراسکے نفسیاتی اثرات۔
بشیرزیب
نفسیات ایک سائنسی علم ہے اور ایک فلسفہ بھی، جب کسی علم کو حاصل کرنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس علم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تاکہ اس کے تسلسل، ترقی، پرورش، نشوونما اور ارتقاء کے بارے میں اچھی طرح سے جانکاری و آگہی انسان کو حاصل ہو۔ اس سلسلے میں ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ نفسیات کی ابتداء اس وقت ہوئی تھی جب انسان نے سوچنا شروع کیا، یعنی انسان کے وجود کے ساتھ اس کی نفسیات بھی وجود میں آگیا تھا۔
مجھے اس طویل اور وسیع بحث میں مزیدجانے کی ضرورت نہیں، میرا آج کا موضوع صرف نفسیات نہیں ہے، البتہ موضوع کے ساتھ نفسیات کا تعلق مجبور کرتا ہے کہ پہلے ہم نفسیات کے بارے میں مختصراً کچھ نہ کچھ جانیں اور سمجھیں۔ ویسے تو مکمل علم نفسیات کو جاننے کیلئے پھر آپ کو نفسیات دان اور نفسیات کے عالموں ولیم جیمس، ایوان بیولوف، جان وٹسن، یونگ، ہنری برگسان، ڈیوڈ ہیوم، سگمنڈ فراہڈ،اینا فراہڈ،الفریڈ ایڈلر، جان ڈیوڈ اور دیگر کے عہد، نظریات، اختلافات اور خیالات کو پیش کرنا ہوگا کہ ان علم کے معماروں نے انسانی نفسیات کو کیسے اور کس طرح پیش کیا، پھر موضوع بہت زیادہ طویل اور وسیع ہوجائیگی۔ ہم یہاں صرف نفسیات کو سمجھنے اور جاننے کیلئے مختصراً نفسیات کے مفہوم اور تعریف سے استفادہ کریں گے تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ نفسیات انگریزی لفظ سائیکالوجی (psychology)سے ماخوذ ہے، جو دو لفظوں سائیکے (psyche)اور لوگس (logos)سے بنا ہے، یونانی زبان میں سائیکے کا مطلب روح اور لوگس کا مطلب سائنس ہے۔
ماہر نفسیات wood worth کہتا ہے کہ “Psychology is the scientific study of the activities of a individual in relation to the environment.”
یعنی “نفسیات انسانی عمل کا اس کے ماحول کے ضمن میں سائنسی مطالعہ ہے۔” جب بھی ہم لفظ نفسیات استعمال کرتے ہیں یا اس کے بارے میں سنتے ہیں، اگر جدید نفسیات کی بانی سگمنڈ فرائڈ کو یاد نہ کریں، اس کا ذکر نہ کریں تو علم نفسیات مکمل نہیں ہوگا۔
فرائڈ نے اپنے علم اور تجربات کے بنیاد پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ انسانی نفس کے دو سطوحات ہوتے ہیں، ایک شعور (conscious)اور دوسرا لاشعور (unconscious)اور انسان کا طرز عمل ان دو چیزوں پر منحصر ہے، انہوں اس طرح کی فکر کو شعور اور لاشعور کی سائنس (science of conscious and unconscious سے موسوم کیا۔
پھر شعور اور لاشعور نفس کے مطالعے میں ماہر نفسیات نے تحت الشعور کو دریافت کیا۔ اس دریافت کے بعد نفسیات کو شعور تحت الشعور اور لاشعور (science of conscious sub conscious and unconscious کی سائنس تسلیم کیا جانے لگا۔
بہرکیف شعور تحت الشعور اور لاشعور نفس کی وضاحت بھی انسان کی زندگی کے طرز عمل کی بنیاد پر کی جارہی تھی، اس لیئے بیسویں صدی کی ابتداء میں ماہر نفسیات جےبی واٹسن (j.b watson)نے اس طرز عمل کی سائنس (science of behavior)سے موسوم کیا۔(Science of behavior)کا مطلب رویوں کا سائنس
اب رویے کیسے بنتے ہیں، بگڑتے ہیں اور تشکیل پاتے ہیں؟ جب معاشرے و سماج اور ماحول میں مختلف نفسیات نمو پاتے ہیں مثلاً سماجی، غیرطبی، تعلیمی، فوجی، غلامانہ، سیاسی، صنعتی اورجرائم کے نفسیات کے علاوہ جنگی نفسیات۔
ان سب کے علاوہ اس وقت ہمارا موضوع بحث جنگی نفسیات ہوگا، سب سے پہلے یہ وضاحت کروں کہ پہلے میں نے ذکر کیا بقول جے بی واٹسن کے شعور، تحت الشعور اور لاشعور کا نچوڑ زندگی کا طرز عمل ہے، جس کو انہوں نے رویوں کے سائنس سے موسوم کیا۔ تو رویہ کیا ہیں؟
رویہ بقول اسٹیفن آرکوہے اے کے نقطہ نظر اور زوایہ نظر سے بنتے ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زاویہ نظر اور نقطہ نظر کہاں سے بنتے ہیں، وہ انسانی نفسیات اور اس سے تشکیل پاتے ہیں اور آج ہم کس طرح کے نفسیات کا شکار ہیں، غلامانہ یا جنگی؟
اب دوستوں نے موضوع منتخب کیا ہے کہ جنگ کے اثرات اور ہماری نفسیات، تو ہم بھی صرف اس وقت جنگ سے پیدا ہونے والے اثرات کو زیر بحث لائیں، تو شاید ہم موضوع کے ساتھ نا انصافی نہ کریں۔
بالکل دوستوں یہ جنگ ہے، جس کے مثبت یا منفی اثرات کے آج ہم شکار ہیں، ہماری سماجی، معاشرتی، وراثتی، تعلیمی ماحول، قبائلی، سیاسی اور معاشی نفسیات قبل از جنگ مختلف تھے اور آج یکسر مختلف ہوچکے ہیں یعنی طرز زندگی کے ساتھ نقطہ نظر بدل چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں رویے بدل چکے ہیں اور مزید بدلتے رہیں گے اوراس کی بنیادی وجہ جنگ خود ایک وسیلہ اور نجات کا ایک موثر راستہ ہے، لیکن وہ ہمیشہ انسانی سماج، مزاج اور نفسیات کے برعکس ایک بے رحم عمل ہے۔ جب جنگ انسانی نفسیات کے برعکس طرز عمل ہوگا، تو اس کے اثرات ضرور پڑینگے۔ اگر انسان ذہنی حوالے سے مضبوطی کے حد تک تیار نہیں ہوگا، تو جنگ کے منفی اثرات انسان کو اپنے لپیٹ میں لینگے اور انسان ابنارمل نفسیات کا شکار ہوگا اور متعدد ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہوگا۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ ذہنی نفسیاتی اثرات کو لیکر جسمانی امراض بھی جنم لینگے۔
اگر انسان اپنے انفرادی شعور سوچ و اپروچ اور ادراک کے پیمانے کو لیکر اپنے ذہن و علم کے بساط کے مطابق کچھ انفرادی امید توقعات اور خواہشات کو لیکر جنگ کا حصہ بن جاتا ہے، جب وہ پورے نہیں ہونگے، توقعات ٹوٹ جائیں گے، خواہشات بکھر جائیں گے، تو وہ بھی منفی اثرات کی شکل میں انسان کے ذہن میں ذہنی، تناؤ، مایوسی، اضطرابی کیفیت ،الجھن اور ناامیدی پیدا کریں گے جس سے انسان مزید مختلف نفسیات امراض کا شکار ہوگا۔
جنگ کے دوران اپنے دشمن کی طاقت ،جبر ،بربریت ،سازشوں کا اگر انسان کو صحیح معنوں میں علم اور اندازہ نہیں ہو، جب خلاف توقع نتائج اس کے سامنے اچانک رونما ہونگے، تو اس کے بھی منفی نفسیاتی اثرات خوف و پشیمانی کی شکل میں انسان کے ذہن پر اثرانداز ہونگے۔
جنگ کی نتیجے میں انسان کا سماجی ماحول گھربار ،خاندان، علاقہ ،عزیر و اقارب یعنی تمام سماجی و خونی رشتوں سے انسان دور اور لاتعلق ہوگا، تو اس کے بھی منفی اثرات سے مسلسل انسان پریشانی، اداسی اور افسردگی کا شکار ہوگا اور دشمن کی وقتی کامیابیوں، اپنے وقتی ناکامیوں اور پسپائیوں اور نظریاتی دوستوں، رشتہ داروں کی شہادت اور قومی نسل کشی کو دیکھنے کے باوجود، دشمن پر موثر اور کاری ضرب نہ لگانے کی شکل یعنی تشدد کا جواب بہتر انداز میں تشدد سے نہ دینے کے بھی ذہن پر منفی اثرات مرتب ہونگے، جس سے انسان میں بے بسی، لاچاری، احساس کمتری جیسے ذہنی امرض جنم لیں گے۔
جن بنیادی چیزوں یعنی نفسیاتی امراض کا میں نے ذکر کیا، ان منفی اثرات کے گرداب میں ہمارے چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا زوایہ نظر بنتے اور تشکیل پاتے ہیں، اور پھر ہمارے زوایہ نظر اور نقطہ نظر ہی سے ہمارے رویے تشکیل پاتے ہیں، جب نفسیاتی اثرات منفی ہونگے تو نقطہ نظر یعنی پھر رویے بھی منفی ہونگے، جب اثرات مثبت ہونگے تو نقطہ نظر و رویے مثبت ہونگے۔
اگر جنگ کے منفی اثرات ذہنوں پر تیزی کے ساتھ اثر انداز ہوں، تو انسان آخر کار ذہنی الجھن، مایوسی اور بزدلی کا شکار ہوگا، پھر انسان میں قوت فیصلہ اور جنگ میں فعال اور مثبت کردار نبھانے سے محروم ہوگا، وہ ہمیشہ عدم اطمینان، تذبذب کا شکار ہوکر کبھی بھی، کسی جگہ، تنظیم، کیمپ، ذمہ داری، کام اور کسی سے بھی کبھی بھی مطمین نہیں ہوگا، وہ آخر اس حدتک الجھن اور کفیوژن کا شکار ہوگا کہ کبھی کبھار اپنا راستہ، عمل ،مقصد اور فکر سے بھی عدم اطمینان کا شکار ہوگا اور سوچے گا کہ شاید میری سوچ و فکر، عمل و مقصد اور سارا راستہ ہی غلط ہے۔
گوکہ ضرور وہ اظہار کی حد تک یہ کہتا رہے گا کہ میں فکر مقصد اور جنگ سے مطمین ہوں، لیکن علم نفسیات کی روشنی میں غور کرکے باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو ان کے تمام اعمال و افعال سے وہ علامتیں واضح صورت میں ظاہر ہوتی ہیں کہ وہ فکر مقصد اور جنگ سے بھی عدم اطمینان کا شکار ہوکر مایوس خوف اور بدظنی کا شکارہوچکے ہیں، بحالت مجبوری اگر وہ جنگ کا ساتھ بھی دے لیکن وہ پرعزم،باحوصلہ ،قربانی کے جذبے سے سرشار ہونے کے بجائے لمحہ بہ لمحہ کنفیوژن کا شکار ہوکر اپنا پورا وقت نقطہ چینی ہر چیز میں کیڑا نکالنے میں مصروف عمل ہوگا۔
اگر یہ منفی اثرات دیرپاء ثابت ہوئیں تو پھر انسان کا ذہن مکمل طور پر مفلوج ہوگا اور مفلوج زدہ اور ہمیشہ الجھن کا شکار ذہن ہی آخر کار مایوسی اور بزدلی کا شکار ہوکر انسان جنگ سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔
قومی جنگ سے وابستگی کا ہرگز یہ مقصد اور تقاضہ نہیں ہوتا کہ صرف جنگ کی حمایت کرنا، جنگ کی صفت و ثناء کرنا، جنگ کیلئے دل میں ہمدردی رکھنا اس طرح الجھن مایوسی اور خوف کے شکار لوگ بھی کرسکتے ہیں، جنگ کا تقاضہ اور جنگ کے مقاصد،جنگ کے حوالے سے ہمیشہ اور ہر وقت متحرک اور فعال ہونا، اس کیلئے بلند حوصلوں، مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کی اشد ضرورت ہوتی ہے یہ اس وقت ممکن ہوگا جب انسان خود الجھن کنفیوژن ،مایوسی، ناامیدی کا شکار نہ ہو ،بلکہ اپنی فکرو جنگ اور عظیم مقصد پر سوفیصد شعوری اور ذہنی طور مطمین ہو۔
جنگ کے اثرات ہر جنگ زدہ سماج کے تمام انسانوں پر کم یا زیادہ ضرور پڑتے ہیں، ہر صورت اور ہر حالت میں لیکن ان کے منفی اثرات سے ان نوجوانوں کو بچانا اور خود بچنا جو جنگ کے ساتھ عملاً وابستہ ہیں۔ وہ کیسے اور کس طرح بچ سکتے ہیں؟ یا ان کو بچایا جا سکتے؟ وہ حالت اورواقعات ہر ایک پر مختلف شکل میں رونما ہونے، نفسیاتی کیفیت کے اوپر منحصر ہے۔
بہرحال کچھ چیزیں ضرور ہیں کہ نوجوانوں کی ہمیشہ ذہنی تربیت، حقائق اور سچائی کی بنیاد اور فکر و سوچ کی بنیاد پر ہونا چاہیئے ناکہ اشیاء، ضروریات، رتبہ، مقام، مصنوعی احترام، سہولت اورآسائشوں کی بنیاد سے لیکر تصورات، جھوٹ ،سبز باغ، خیالی اور تصوراتی خوابوں میں نوجوانوں کو سیر کراکے ان کی توقعات اور امیدوں کو پرورش اور تحریک دینا، پھر جب یہ توقعات پورے نہیں ہوں گے، تو سارے خواب وتصورات جھوٹ اور دکھاوے کے خوبصورت محل گرکر منفی نفسیاتی اثرات کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائیگا، اور اس ڈھیر سے جنگ کیلئے توانا اور باشعور سپاہی اور مستقبل کے لیڈر نہیں بلکہ نفسیات مریض میسر ہونگے۔
خود کی تربیت اور ہر نوجوان کی تربیت، علمی،نفسیاتی اور فلسفیانہ انداز میں کرنا اس وقت بہت اہم ہے اور جنگ کا تقاضہ بھی ہے اور ساتھ ساتھ قومی جنگ بھی موثر، مضبوط اور شدت کے ساتھ جاری رہے گی۔ جب ذہنی و فکری تربیت بھی تسلسل کے ساتھ لازم اور ملزوم ہوکر جاری رہینگے، تب جاکر وار سائیکو کے کیس ضرور سامنے آئیں گے لیکن زیادہ نہیں بلکہ کم تعداد میں۔