بلوچستان میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں پاکستانی فورسز آپریشن نہیں کررہے ہیں: ماما قدیر بلوچ
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3125 دن مکمل ہوگئے، خانوزئی سے پی ٹی ایم کے ایک وفد نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے کیمپ کا دورہ کیا۔
فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب طاقت اندھا ہوتا ہے تو اس کا شکار خود اس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ بلوچ قومی طاقت کو آج اسی اندھے پن کا شکار کرانے کی شعوری و لاشعوری کوشش کی جاری ہے۔ شاید اس لیے کہ تنقید کے نام پر انقلاب کے آنکھوں پر کالی پٹی باندھنے کی کوشش ہورہی ہے- جس کی وجہ انقلاب کا رخ ہر گزرتے وقت کے ساتھ خود اپنی ذات کی جانب ہوتا چلاجارہا ہے-
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی کاروائی نئی بات نہیں اور اس سےہر وہ ایک بلوچ واقف ہے کہ جس نے بلوچستان کی حالات پر نظر رکھی ہے۔ بلوچستان میں ایسے علاقے نہیں جہاں پاکستانی فورسز آپریشن نہیں کررہے، عوام ایف سی کی تشدد کا شکار ہے- ہر روز یہ ضرور سننے کو ملتا ہے کہ بلوچستان کے ایک نہ ایک علاقہ آپریشن کے زد میں ہے، اتنے لوگ اغوء کیئے گئے ہیں، اتنے لوگ شہید ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں بلوچستان میں الیکشن کی مناسبت ایک اور بڑی پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے، عام آبادیوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے مارٹر گولے فائر کیے جارہے ہیں- جس کی وجہ سے معصوم بچے اور بزرگ ہزاروں کی تعداد میں ۱۵ سالوں میں شہید ہوئے اور شہید ہورہے ہیں اور ہر آپریشن کے بعد سینکڑوں کے حساب سے آرمی لوگوں کو نامعلوم مقام پے منتقل کرتے ہیں، آواران کے علاقے بزداد، تیرتیج، ڈانسر، لباچ اور پیرانداد میں کوئی بھی ایسا گھر نہیں جہاں فورسز نے لوگوں پر تشدد نہیں کی ہو۔ مشکے میں فوجی چوکیوں سے مارٹر گولے عام آبادیوں پر فائر کیے جا رہے ہیں جس سے سول آبادی میں سخت خوف و حراس پھیلی ہوئی ہے۔ پنجگور میں روز کسی گاؤں میں چھاپہ ہوتا ہے جہاں سے گھروں میں خواتین اور بچوں پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ تربت کے علاقے تمپ، مند، گوکدان، ڈنک، گورکوپ، شاپک ہوشاب اور پورے ضلع بلکہ پورے مقبوضہ بلوچستان کے لوگ اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں۔ جو روز اپنے آنکھوں کے سامنے کسی نہ کسی فرزند کی اغواء ہوتے ہوئی دیکھتے ہیں۔