جاپان میں ایسے سات مجرموں کو پھانسی دے دی گئی ہے، جنہوں نے ٹوکیو کی سب وے کے مسافروں پر حملے کیے تھے۔ سن 1995 میں کیے جانے والے حملوں میں تیرہ افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
معہ چھ جولائی کو جن سات مجرموں کو پھانسیاں دی گئی ہیں، ان کا تعلق انتہا پسند نام نہاد مذہبی گرو اوم شِن ریکیو سے تھا۔ پھانسی پانے والوں میں اس عقیدے کے لیڈر چیزو ماٹسوموٹو عرف شوکو اسا ہارا اور اُن کے چھ ساتھی شامل ہیں۔ شوکو اساہارا کو سب سے پہلے پھانسی گھاٹ پر پہنچایا گیا۔ بعد میں اُن کے ساتھی تختہٴ دار پر لٹکائے گئے۔
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کی سب وے کے مسافروں پر اوم شِن ریکیو کے اراکین نے اپنے گورو اساہارا کے حکم پر زہریلی سارین گیس حملے سن 1995 میں کیے تھے۔ ان حملوں میں تیرہ انسانی ہلاکتوں کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں نے قاتلوں کی سزائے موت پر عمل درآمد پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اوم شِن ریکیو عقیدے کے لیڈر اور اُس کے چھ ساتھیوں کو پھانسی دینے کی تصدیق جمعہ چھ جولائی کو جاپانی وزیر انصاف یوکو کامی کاوا نے ٹوکیو میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں کی۔ اس موقع پر انہوں نے تمام پھانسی پانے والے مجرموں کے نام بھی پڑھ کر سنائے۔ کامی کاوا نے ان مجرموں کے افعال کو انتہائی ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واردات نے جاپانی معاشرے کو اندر سے دہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس انتہا پسند عقیدے کے افراد کو سنائی گئی سزائے موت کے خلاف دائر اپیلوں پر جاپانی سپریم کورٹ نے بیس برس کے بعد فیصلہ سنایا اور ماتحت عدالت کی دی گئی سزاؤں کو بحال رکھا۔ جاپان میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سپریم کورٹ میں اپیل مسترد ہونے کے بعد کر دیا جاتا ہے۔ مجرم نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتا ہے لیکن یہ اپیل موت کی سزا کے خلاف حکم امتناعی یا اسٹے آرڈر تصور نہیں کی جاتی۔
جاپان میں موت کی سزا پر عمل درآمد پھانسی کے ذریعے کیا جاتا ہے اور بعض سیاسی حلقے اِس سزا کے خلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب جاپانی عوام کا ایک بڑا حلقہ اس سزا کا حامی ہے۔ جاپان میں کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتے وقت صرف ایک راہب اور جیل کا ایک اہلکار وہاں موجود ہوتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سارین گیس سب سے پہلے جرمنی کے سابقہ نازی دورِ حکومت میں تیار کی گئی تھی۔