ثناءاللہ زہری کی ترقی پسندی – زَنپَد زہری

360

ثناءاللہ زہری کی ترقی پسندی

تحریر. زَنپَد زہری

دی بلوچستان پوسٹ

آج ثناءاللہ زہری جو اپنے بڑے بھائی رسول بخش زہری کو قتل کرنے کے بعد اس کے بیٹے میرعنایت اللہ زہری کی کم عمری کے باعث اسکی جگہ زہری قبیلے کا قائم مقام سردار بن کر خود کو اخباری بیانات اور درباری لوگوں کی خوشامد کے باعث خود ساختہ نوابی کے عہدے پر پہنچایا ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں انکا ایک اخباری بیان نظر سے گذرا کہ “ترقی پسند سردار ہوں، عوام کی خدمت میرا مشن ہے۔”

یہ حیران کن اور ترقی پسند سرداری کی دعویداری کا سن کر دھیان یک دم ترقی پسند موصوف کے گاؤں انجیرہ کی طرف گیا سوچا کیوں نہ آج آپ سب کو اسکے گاؤں انجیرہ کی سیر کروا دوں تاکہ آپ سب کو سردار صاحب کی ترقیت پسندی نظر آجائے اور آپ سب اس کے کاموں سے متاثر ہوکر دوبارہ اسے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کردیں.

چلو پھر چند گھروں پر مشتمل گاؤں انجیرہ چلتے ہیں، جہاں سردار صاحب کا خاندان پچھلے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مقیم ہے اور گاؤں کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ انجیرہ جو کم و بیش پچاس گھروں پر مشتمل تھا، جو اب سردار صاحب کی کرم نوازیوں کی بدولت کم ہوکر آدھے رہ گئے ہیں. ان پچاس گھروں پر مشتمل گاؤں کی بنیادی سہولیات کا ایک جائرہ لیتے ہیں کہ وہاں سردار صاحب نے کیا کیا کام کیئے ہیں.

چند گھروں کے گاؤں کے لیئے ایک مڈل یا ہائی سکول کافی ہوتا ہے، لیکن سردار صاحب کے گاؤں میں ایک چار کمروں پر مشتمل اور بنیادی سہولیات سے محروم پرائمری سکول ہے، جو غالباً انیس سو تہتر میں بنا ہے، آج تک اپ گریڈ نہیں ہوسکی ہے (محکمہ تعلیم کے افسران کی بقول کہ ہم سردار صاحب کے علاقے میں اور اسکی کاموں میں دخل اندازی نہیں کرسکتے). اس کے علاوہ اس سکول کی خستہ حالی کا اندازہ یا پھر سردار صاحب کی تعلیم دوستی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس سکول کے کھڑکیوں میں شیشوں کے بجائے لوہے کے چادر ویلڈنگ کے ذریعے لگائے ہوئے ہیں ان چادروں کے لگانے کی وجہ کسی دوست سے پوچھا تو کہنے لگا جب بھی نئے شیشے لگائے جاتے تھے تو سردار کے سپاہیوں اور باہوٹوں کے بچے آکر انہیں توڑتے تھے، تو محکمہ تعلیم والے ہر سال فنڈنگ نہیں کرتے تھے، سال کے آخر اور سکولوں کے کھلتے ہی انجیرہ کا موسم انتہائی سرد ہوتا ہے، تو بچوں کے سکول میں بیٹھنا مشکل ہوتا تھا اس لیئے اساتذہ نے باہمی مشورے سے لوہے کے چادر لگوا دیئے تاکہ نہ رہے کی بانس اور نہ بجے گی بانسری.

دوسری طرف غربت زدہ علاقہ ہونے کے ناطے اکثر بچے پرائمری تک تعلیم مکمل کرکے چھوڑ دیتے ہیں یا کہ دس سے پندرہ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں لاکھوریان میں جاکر مڈل تک تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس کے لیئے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا پڑتا ہے، جہاں مختلف تکالیف برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ انکا قیمتی وقت بھی ضایع ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ حادثات کا شکار بھی ہوجاتے ہیں. بہت کم ہوتے ہیں، جو کسی شہر میں جاکر کسی معیاری سکول میں تعلیم حاصل کرسکیں.

دوسری طرف لڑکیوں کی تعلیم کا بھی یہی حال ہے، ایک ہی پرائمری سکول تھا جو وہاں کی استانی کے اپنے گھر میں قائم تھا کیونکہ جو سرکاری دو کمرؤں اور چار دیواری پر مشتمل سکول تھا وہاں سردار صاحب کا ایک باہوٹ مستی خان مڑداشہی جو ایک مالدار آدمی تھا، اپنے سینکڑوں بکریوں پر مشتمل بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ مقیم تھا، جسے مشرف کے مارشل لاء لگتے ہی مقامی لوگوں نے خالی کروایا تھا، کیوںکہ اس وقت سردار صاحب خود دبئی میں مقیم تھے، نہیں تو شاید اب تک انجیرہ سے بہت سے بھیڑ بکریاں بلوچستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوچکے ہوتے.

گوکہ بعد میں گرلز سکول کی مڈل تک اپ گریڈیشن ہوئی تھی لیکن سردار صاحب کے فیملی کا ہر بندہ ٹھیکہ دار سے الگ کمیشن مانگ کر ہر ہفتے اسے سامان سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور کرتا تھا. اس لیئے اکثر لڑکیوں کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے.

دونوں سکولوں کے پہلوؤں میں قائم انجیرہ کا واحد ہسپتال ہے، جو ایک خستہ حال بلڈنگ پر مشتمل ہے۔ جسے خود علاج کی ضرورت ہے، جہاں شاید پونسٹان کے علاوہ کوئی دوا میسر ہو. اب تو خیر یہ بھی پتہ نہیں کہ آیا وہاں سکولز میں کوئی ٹیچر اور ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر ہے کہ نہیں کیونکہ پہلے سکول میں جو چار جے وی ٹیچر تھے وہ انجیرہ سے ہی تھے اور ہسپتال کا ڈسپینسر بھی انجیرہ کا تھا لیکن بعد میں سردار صاحب نے انجیرہ کے مقامی/بنیادی لوگوں کو جبری طور پر گاؤں سے بے دخل کیا تھا، جو آج تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آئی ڈی پیز کی زندگی گذار رہے ہیں. جہاں انہیں بہت سے مشکلات کا سامنا ہے. اسکے علاوہ پانی کا بھی یہی حال تھا کہ تمام لوگ اپنے گھروں میں موجود کنوؤں کا پانی پیتے تھے یا پھر کچھ گھروں میں کچھ این جی اوز کی مرہونِ منت چند ہینڈ پمپ لگے تھے وہاں بعد میں ایک سرکاری ٹیوب ویل بھی لگایا گیا تھا جو سرکاری سے زیادہ سرداری ثابت ہوا، اور اسی کی جاگیر ٹہرا جس کا پانی شاید چند محدود گھروں تک سپلائی ہوتا تھا، جو سردار کے منظورِ نظر تھے.

ٹیوب ویل کے عقب میں انجیرہ کی یونین کونسل کا بلڈنگ ہے، جس میں سردار صاحب کے باہوٹ رہائش پذیر ہیں.

اسکے علاوہ انجیرہ جہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش گلہ بانی و کھیتی باڑی تھا اور اکثر لوگ انہی چیزوں پر گذر بسر کرتے تھے، سردار صاحب کے مہربانیوں کی بدولت ان سے بھی محروم ہوگئے ہیں کیونکہ انجیرہ کے مقامی لوگوں کو ٹیوب لگاکر فصلیں اگانے کی اجازت نہیں تھی، جو کچھ بھی کاشت ہوتا تھا وہ بارانی ہوتا تھا، پھر یوں ہوا کہ سردار صاحب نے ایک دو ڈیم بنواکر اہم ندی نالوں کو بند کروا دیا اور علاقے کے اکثر کاوچر “چراہ گاہ” کو رکھ (ممنوعہ) کرکے علاقے کے مال مویشیوں کے لیے بند کروا دیا تاکہ یہ لوگ مجبور ہوکر یہ علاقہ چھوڑ دیں.

بعض دفعہ تو غریب لوگوں کے جانور اگر غلطی سے بھی وہاں جاتے، تو انہیں پکڑ کر لے جاتے تھے. لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ وہاں بہت سے ٹیوب ویل لگاکر انجیرہ کو آباد کیا جارہا ہے لیکن یاد رہے یہ سب کچھ اگر ہورہا ہے تو مقامی لوگوں کی بے دخلی کے بعد ہورہا ہے. اور آباد بھی کچھ اس طرح کیا جارہا ہے کہ یہ آبادی دوسری علاقوں اور لوگوں کے لیئے بربادی ثابت ہورہا ہے، کیونکہ انجیرہ کی زمینیں مقامی لوگوں سے قبضہ کرنے کے بعد انکے گھروں میں سے اکثریت کو منہدم کیا گیا ہے یا پھر وہاں جرائم پیشہ افراد کو بسایا گیا ہے.

جرائم پیشہ افراد کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو زہری سمیت آس پاس کے علاقوں میں کسی کے قتل یا چوری و سیاہ کاری کے جرم کا مرتکب ہوکر انجیرہ میں باہوٹ بنکر رہتے ہیں، جن سے پھر سردار ثناءاللہ زہری اور اسکے بھائی اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ قبائلی جنگوں کو بھڑکانے کا کام لیتے ہیں۔ جس کی حال ہی میں مثال جمالزئی خاندان کا آپسی دشمنی اور وڈیرہ اکبر جمالزئی کے قتل اور اسکے قاتلوں کو پناہ دینا ہے۔ اسکے علاوہ بھی سینکڑؤں ایسے لوگ ہیں جو انجیرہ میں رہ کر سردار کی خدمت کررہے ہیں، یہ لوگ مقامی لوگوں کے زمینوں پر بیٹھ کر وہاں چرس، بھنگ، ہیروئن سمیت دیگر منشیات کاشت کرکے کروڑوں روپے کماکر سردار کے جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرکے قوم کی بربادی کا سامان پیدا کرتے ہیں.

ان لوگوں کو حکومتی سرپرستی بھی میسر ہے، کیونکہ یہی لوگ سرکار کے لیئے ڈیتھ اسکواڈ کا کام بھی کرتے ہیں. یہ سب کچھ اس لیئے لکھا جارہا ہے کہ انجیرہ بلوچستان میں واحد گاؤں ہے جہاں سے ہردور میں ایک وزیر ضرور ہوتا ہے اور 2008 کے الیکشنز اور کابینہ بننے کے بعد انجیرہ سے دو صوبائی اور ایک وفاقی وزیر تھا لیکن سب سے زیادہ بربادیاں اسی دور میں انجیرہ اور آس پاس کے علاقوں پر نازل ہوئیں. اسی دور میں سردار صاحب نے مقامی لوگوں کا سرکار کے ساتھ ملکر قتل عام شروع کیا، جس میں ابھی تک پندرہ کے قریب لوگ قتل کیئے جاچکے ہیں، اسکے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اغواء قتل کیئے گئے۔ جن کا آج تک کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے اہم شاہراہ آر سی ڈی روڈ پر بھی دہشتگری و لوٹ مار سمیت اغواء برائے تاوان کا بازار گرم کیا گیا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو لوٹا گیا۔ غریب ٹرانسپورٹروں سے زبردستی بھتہ لیا گیا اور سینکڑوں کی تعداد میں عام لوگوں کی گاڑیاں چوری کی گئیں۔ سوراب سمیت آس پاس کی علاقوں میں زبردستی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا. زہری کے بزرگوں کی سرعام روڈوں پر تذلیل کی گئی. بعض دفعہ انجیرہ سے گذرنے والے لوگوں کے ساتھ موجود عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں. یہ سلسلہ دوہزار اٹھارہ تک جاری رہا، جب تک موصوف وزیراعلی کے عہدے پر براجمان رہے.

آج ہم دیکھ رہے ہیں سردار صاحب ووٹ کی خاطر ہر کسی کے پاس جاکر اپنے نواب اور ترقی پسند ہونے کی دہائی دے رہا ہے لیکن یاد رہے کہ جو لوگ آج انکے پرانے کرتوت دیکھے بنا اور اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کو نظرانداز کرکے لالچ و مراعات کی خاطر انکو ووٹ دینے کی تلقین کررہے ہیں، کل جب یہ اقتدار میں آئینگے تو اپنے پرانے کرتوت دہرائینگے (کل کوئی اور ان کے غضب کا نشانہ بنا تھا، اگلی باری آپکا ہوسکتا ہے) کیونکہ یہ لوگ میرے اور آپ کا نمائندے نہیں ہیں بلکہ کسی اور قوت کے نمائندے ہیں، جو ہمیں پہلے بھی ختم کرنا چاہتا تھا اور اب بھی کوشش کررہا ہے.

نوٹ: اسکے علاوہ سردار صاحب کے حلقہ انتخاب زہری کا بھی آنکھوں دیکھا حال بیان کریں گے (
اور سردار صاحب کے کوٹ میں مقیم عورتوں کا ذکر بھی الگ الگ آرٹیکلز میں کرنے کی کوشش کرونگا).