بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی – اسماعیل بلوچ

266

بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی

تحریر : اسماعیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

انسانی حقوق کا عالمی منشور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948 کو ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ منظور کر کے اس کا اعلانِ عام جاری کیا۔

عالمی منشور کے دفعہ3 میں لکھا گیا ہے کہ ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفّظ کا حق ہے۔

اور دفعہ4 میں لکھا ہے کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا۔ غلامی اور بَردہ فروشی، چاہے اس کی کوئی شکل بھی ہو، ممنوع قرار دی جائے گی۔

پاکستانی ریاست نے عالمی منشور پر دستخط کی ہے اور وہ اس کا پابند ہے۔ مگر پاکستانی ریاست اس کی سرے عام خلاف ورزی کررہا ہے۔ بلوچستان میں عالمی قوانین کو پاؤں تلے روند کر بلوچ قوم پر انتہا درجے کا ظلم روا رکھا جا رہا ہے، آج بلوچستان کو مکمل ایک فوجی چھاونی کی شکل میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم کے پاس 45 ہزار گمشدہ افراد کے رکارڈ موجود ہیں، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ جنہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فوج نے گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم جگہ منتقل کیا ہے۔ جن کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ 18 ہزار مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ملے ہیں۔ سینکڑوں گھر جلائے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے منشور دفعہ 11 میں یہ صاف لکھا ہے کہ ایسے ہر شخص کو جس پر کوئی فوجداری کا الزام عائد کیا جائے، بے گناہ شمار کئے جانے کا حق ہے تاوقتیکہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہو جائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع نہ دیا جا چکا ہو۔ کسی شخص کو کسی ایسے فعل یا فروگذاشت کی بنا پر جو ارتکاب کے وقت قومی یا بین الاقوامی قانون کے اندر تعزیری جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا، کسی تعزیری جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا ، مگر پاکستانی فوج بغیر وارنٹ کے لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کرتے ہیں۔ گرفتار لوگوں کو نہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُن کے فیملی ممبران کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔

پاکستان نہ عالمی منشور کی پاسداری کررہا ہے اور نہ ہی خود کے بنائے گے آئین و قانون کو مانتے ہیں۔

17 فروری 2014 کو بلوچستان کے علاقے توتک خضدار میں ایک اجتماعی قبر سے 169 مسخ شدہ لاشیں برامد ہوئی تھی، جو ناقابل شناخت تھے اور اس سنگین مسئلے پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا ایک وفد توتک کا دورہ کرنا چاہتا تھا لیکن کمیشن کی بلوچستان شاخ کے سربراہ طاہر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستانی فوج نے اجازت نہیں دی تھی۔

یاد رہے اجتماعی قبروں کی برآمد سے پاکستانی فوج نے سارا علاقہ اپنے قبضے میں لیکر کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے علاوہ پہلے بھی پنجگور کے علاقے سوراپ میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں اوربلوچ نیشنل موومنٹ کے رہنما آغاعابد شاہ ،ماسٹرستار اور سفیر بلوچ کے لاشیں ایک اجتماعی قبر سے برآمد ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ پنجگور ہی کے علاقے پیرئے جہلگ سے ایک اور اجتماعی قبرسے برآمد ہونے والی لاشیں مسخ ہونے کی وجہ سے ناقابل شناخت تھیں۔

حال ہی میں
‎جولائی 18 2018 کو بلوچستان کے علاقے پنجگور سے ایک اجتماعی قبر برآمد ہوا تھا، جہاں لاشیں ناقابلِ شناخت تھے۔ جہاں ایک اجتماعی قبر سے چار لاشیں برآمد ہوئی تھی، جو بہت زیادہ مسخ ہونے کی وجہ سے ناقابل شناخت تھے۔ علاقائی ذرائع کے مطابق برآمد ہونے والے چاروں لاشیں بہت پرانے اور صرف ہڈیوں کی شکل میں رہ گئے ہیں

بلوچستان میں یہ خون ریزی عالمی منشور کو پاؤں تلے روندنے کا واقعہ آج نہیں بلکہ پہلے دن سے ہی شروع ہے، جہاں سب سے پہلے 27 مارچ 1948 کو آزاد بلوچستان پر غیرقانونی طریقے سے حملہ کرنا اور قابض ہونا اور بلوچ ساحل وسائل کو بے دریخ لوٹنا بلوچ معاشرے میں نفرت پھیلانا حقوق اور اپنے اقتدار اعلی کے لیے ہر آواز کو کچلنا شامل ہے۔

عالمی منشور کے دفعہ 6 میں لکھا ہے کہ ہر شخص کا حق ہے کہ ہر مقام پر قانون اس کی شخصیت کو تسلیم کرے۔

مگر پاکستان بلوچ قوم پر قبضہ کرنے کے بعد بلوچ قوم کو ایک قوم کجا ایک انسان بھی تسلیم نہیں کرتا۔

نواب نوروز خان ایک نوے سالہ بُزرگ بلوچ رہنما تھے، جو بلوچستان کی پاکستان کے ساتھ غیرقانونی الحاق و قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو پاکستان ایک نوے سالہ بُزرگ شخص کو قرآن کا واسطہ دیکر جب مذاکرات کے لیے آمادہ کرتے ہیں تو نہ عالمی جنگی قوانین کی پاسداری ہوتی ہے اور نہ ہی قرآن پاک کی عزت و احترام کی جاتی ہے بُزرگ رہنما کے ساتھ وعدہ خلافی کرکے اُنہیں اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کیا جاتا ہے۔ تمام ساتھیوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے اور نواب نوروز خان کو عمر قید کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفعہ8 میں لکھا ہے کہ ہر شخص کو ان افعال کے خلاف جو اس دستور یا قانون میں دیئے ہوئے بنیادی حقوق کو تلف کرتے ہوں، بااختیار قومی عدالتوں سے موثّر طریقے پر چارہ جوئی کرنے کا پورا حق ہے۔

مگر جب بلوچ قوم پاکستانی بدمعاشیوں کے خلاف عالمی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں، تو پاکستان سیاسی بلوچ کارکنوں و رہنماؤں کے فیملی ممبران کو بلوچستان میں غیرقانی طریقے سے گرفتار کرکے سیاسی رہنماوں و کارکنوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ وہ آواز اُٹھانا و عالمی عدالتوں میں اپیل کرنا بند کریں، ورنہ اپنے فیملی والوں کی مسخ شدہ لاش قبول کریں جس کا واضح ثبوت موجود ہیں بلوچ نینشنل مومنٹ کے رہنما کچکول علی ایڈوکیٹ کے زمینوں پر قبضہ اور ان کے بچوں کو گرفتار کیا جانا ہے اور اُنہیں دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر وہ عالمی عدالتوں میں بلوچستان کا کیس لڑینگے تو وہ اپنے بچوں کے نقصان کا ذمہ دار خود ہونگے۔ مگر بلوچ قوم کے شدید احتجاج و عالمی فورم میں اس مسئلے پر جب آواز بلند کی گئی تو بعد میں بچوں کو رہا کردیا گیا۔

پاکستان کی پیدا کردہ ڈیتھ اسکواڈوں کا زمینوں پر قبضہ اب بھی قائم ہے اور بھی ہزاروں ایسے واقعات ہیں جنہیں ایک تحریر میں بیان کرنا مشکل ہے ۔

مگر ان تمام صورت حال کو عالمی دنیا دیکھ کر بھی پاکستان کے خلاف اقدام لینے میں بے بس دیکھائی دیتی ہے ۔
پاکستان کو جوابدہ نہ کرنا اور بلوچ نسل کشی کو نہ روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کا اس سنگین مسئلے پر آواز نہ اُٹھانا خود اقوام متحدہ کے وجود پر بھی سوالیہ نشان ہے .