بلوچ لاپتہ افراد پر براھمدغ بگٹی کا موقف
توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تحریر لکھنے سے پہلے میں سوچ رہا تھا کہ اگر میں براھمدغ بگٹی کے خلاف کچھ لکھوں تو اُن کے چاہنے والے یہی سمجھیں گے کہ میں اُن کے خلاف گستاخی کر رہا ہوں، لیکن پھر سوچا کہ ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے مجھ پر فرض ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ اس لیئے یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ یہاں میں کسی بھی لیڈر کے ذات پر نہیں بلکہ اُن کے سیاسی رویوں اور پالیسیوں پر تنقید کر رہا ہوں۔
براھمدغ بگٹی کے کچھ حالیہ ٹویٹ اور وڈیو پیغامات میں ایسے تضادات پائے جاتے ہیں، جن کو ہر سیاسی کارکن محسوس کر سکتا ہے۔ جیسے کہ 28 مئی حوالے جناب براھمدغ بگٹی کا موقف تھا کہ اس دن بلوچ سرزمین پر قبضہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس دن بلوچستان کے ایک ٹکڑے پر ریاست پاکستان نے قبضہ کیا تھا۔ اس پر بلوچ دانشوروں سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی جانب سے براھمدغ بگٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللہ نظر سمیت بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے چئیرمین خلیل بلوچ، بلوچ ایڈوکیٹ رحیم بلوچ، بی ایس او آزاد کے چئیرپرسن کریمہ بلوچ، بی این ایم کے انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ اور دوسرے سیاسی کارکنوں نے براھمدغ بگٹی کے موقف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اُنہیں اپنی غلطی صحیح کرنے کو کہا گیا۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں سب سے بڑی آزادی پسند سیاسی جمایت بی این ایم اور بلوچستان میں سب سے فعال آرگنائزیشن اور طلباء تنظیم بی ایس او آزاد نے بھی براھمدغ کے موقف کو غلط قرار دیا اور بلوچ دانشور واجہ صورت خان مری نے بھی براھمدغ کے بلوچستان پر ریاستی قبضہ کے دن کو غلط قرار دینے پر تنقید کیا، ان سب سیاسی اور علمی دانشوروں کے تنقید کے باوجود براھمدغ بگٹی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور براھمدغ کے غلطی کا اُن کے کچھ دوستوں کی جانب سے دفاع بھی کیا گیا۔
اس کے بعد براھمدغ کی بلوچ تاریخ پر غلط بیانی پر اُن کے اپنے پارٹی کے کچھ سینئر اور سیاسی کارکنوں نے سوال اُٹھایا، جس پر اُنہیں پارٹی سے فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ بی آر پی کی جانب سے اُنہیں غدار اور ریاستی ایجنٹ تک قرار دیا گیا، ان کے فارغ کرنے کے کچھ ہی وقت بعد بی آر ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری، ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور ایک مرکزی سی سی ممبر کی جانب سے استعفیٰ دیا گیا لیکن ان سب کے باوجود جناب براھمدغ بگٹی اپنے موقف پر براجمان رہے اور پارٹی کا خیال تک نہیں کیا، جو ایک سیاسی رہنماء کو شبہ نہیں دیتا۔
ہم نے دنیا میں دیکھا اور سُنا ہے کہ جب بھی اگر کسی رہنماء یا کارکن کی جانب سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے، تو وہ شخص خوبخود ادارے سے استعفی دیتا ہے تاکہ میری وجہ سے تنظیم مزید بحران کا شکار نہ رہے لیکن براھمدغ اپنے ایک غلطی پر معافی مانگنے کے بجائے پارٹی کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے پر تیار ہو گیا اور اس بحث کو ایک ایسے موقع پر میڈیا میں اٹھایا گیا، جب پورے دنیا میں بلوچ سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاج و مظاہرے کیئے جا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے کمپین بھی اچھی طرح نہیں چلایا جا سکا۔
خیر ہمارا آج کا موضوع الگ ہے، اس لیئے اپنے بحث پر آتے ہیں کہ کچھ دنوں پہلے مجھے کسی دوست کی جانب سے جناب براھمدغ کا بلوچ لاپتہ افراد کے معاملہ پر ایک وڈیو موصول ہوا، پہلے پہل میں خوش ہوا کہ شاید براھمدغ صاحب حالیہ کچھ وقتوں سے بلوچستان میں ریاست کی جانب سے لاپتہ ہوئے، بلوچ لاپتہ عورتوں کے بارے میں قوم کو ایک پیغام دے رہا ہے، سوئے ہوئے قوم کو بلوچ تاریخ میں بلوچ عورتوں کے اعلیٰ مقام پر لیکچر دے گا، بلوچستان میں آئے روز لاپتہ ہونے والے بےگناہوں کے بابت بتائے گا، دنیا کو پاکستانی مظالم کے بارے میں آگاہی دے گا، قوم کو ریاست کے خلاف مزید جنگ کی تلقین کرے گا۔ نوجوانوں کو ان حالات میں اُن کی ذمہ داری کا احساس دلائے گا۔
لیکن وڈیو شروع ہونے کے بعد میں نے سُنا کہ براھمدغ صاحب بجائے ریاستی مظالم پر آگاہی دینے کے ریاست اور حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں، اُن کا شکریہ ادا کر رہا ہے اور جنوری سے ابھی تک لاپتہ ہونے والے بےگناہ بلوچ مرد، بچے اور خواتین کا لسٹ سامنے لانے کے بجائے وہ حلیہ آپریشوں میں بازیاب ہونے والے کچھ جسمانی اور ذہنی تشدد زدہ لوگوں کی بازیابی پر حکومت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ جیسے حکومت و ریاستی ادارے ہم پر احسان کر رہے ہیں، یہ بازیاب ہونے والے لوگ بھی زیادہ تر اسی سال لاپتہ ہوئے ہیں اور اگر کچھ مزید چھوڑ بھی دیئے ہیں، تو اس لیئے کہ الیکشن کے دوران ریاست اپنی پوری زور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں لگائے گا، اس لیے شاید فوجی کیمپوں میں اُنہیں مزید جگہ کی ضرورت ہے۔ اس لیئے جو لوگ ٹارچر سیلوں میں اپنی ذہنی توازن کھو چُکے ہیں اور کچھ کو پیسہ لیکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب ان بازیاب ہونے والے تشدد شدہ جسموں کو مہرہ بنا کر ریاستی اداروں اور حکومت کی تعریف کرنا، بلوچ عوام کے لیئے ایک حیران کن بات ہے۔
دوسری جانب جناب براھمدغ بگٹی نے اپنے وڈیو پیغام میں ایک بار پھر اپنے آپ کو کمزور اور ریاستی فورسز کو طاقت ور قرار دے کر قومی آجوئی کا حوالے اپنے موقف میں تذبذب دکھایا، ہم نے پڑھا ہے کہ ایک لیڈر کا موقف ہمیشہ کلئیر ہوتا ہے اور دشمن کے سامنے کبھی بھی کمزوری نہیں دکھاتا بلکہ کمزور ہونے کی صورت میں پھر بھی دشمن کو للکارتا ہے تاکہ دشمن کمزور نہ سمجھے لیکن یہاں بھی ہمیں بار بار جناب براھمدغ بگٹی کی جانب سے یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمزور اور دشمن کو طاقت ور فریق کہہ رہا ہے۔ ایسی باتیں عوام کے دل میں مایوسی پھیلاتے ہیں، اس لیئے ایک قومی رہنماء کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کس بات کو کس جگہ پر کرنا چاہئے۔
جناب براھمدغ بگٹی اگر واقعی بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں مخلص ہیں اور قومی آجوئی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، تو اُنہیں چاہئے کہ وہ تذبذب کے بجائے کلئیر اور دو ٹوک موقف رکھیں اور ایسے اقدامات کرنے سے گریزاں رہیں، جہاں پہ قوم و عالمی سطح پر ہماری جدوجہد کو کمزور سمجھا جائے۔
بلوچستان آج ایک ایسے حالت میں ہے، جہاں پر بلوچ قوم کیلئے صرف دو راستے ہیں ایک یہ کہ قومی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے پوری بلوچ قوم متحد ہوکر دشمن کی بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے، قومی آجوئی کے جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچائے یا دوسری صورت میں دشمن کی غلامی کو قبول کرتے ہوئے اپنے زبان، تہذیب، کلچر اور تاریخ کو بھول جائیں کیونکہ آج ہمارا مقابلہ ایک ایسے جابر ریاست سے ہے، جو تہذیب سے واقف ہے نا کہ اخلاقی اقتدار سے۔ اس لیئے اس جدوجہد سے بلوچ قوم کی مرگ و زند کا سوال وابستہ ہے، ناکامی کی صورت میں ہم اپنا سب کچھ گنوا بیٹھنگے اور کامیابی کی صورت میں ہم پھر سے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پہ قائم رہیں گے۔