بلوچ قومی اتحاد… بنیاد کیا ہونا چاہیئے؟
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قومی جنگوں یا قومی تشخص کی بحالی یا بقاء کی جنگیں جہاں شروع ہوئیں، وہاں دشمن کو شکست و ریخت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب منتشر قومی سوچ ایک نقطے پر جمع ہوئی اور کامیابی کے جھنڈے گھاڑنے میں سرخرو ہوئے. بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے آج کی منتشر قوت اور ریاستی سفاکیت کی بڑھتی روش بلوچ عوام کی بیزارگی اور حالیہ الیکشن میں عوام کی شمولیت وہ اسباب ہیں۔ جن کا ادراک رکھتے ہوئے ہر ذی شعور اتحاد و اتفاق کی جانب زور دے رہا ہے۔ بلوچ سیاسی قوت کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ بغیر اتحاد و یکجہتی کے ہم کسی بھی کامیابی کی جانب سفر نہیں کرسکتے.اس ضمن میں سیاسی کارکنان کا کردار انتہائی مثبت دکھائی دیتا ہے کہ ان کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ بغیر یکجہتی کے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔
یہاں ان لوازمات، کوتاہیوں، کمزوریوں، پیچیدگیوں اور عوامی بیزارگی کے اصل وجوہات بالخصوص عوامی رائے کے احترام کو دفن کرکے اپنی منشاء و مرضی سے وقتی خانہ پُری کا روش اصل ذمہ داریوں سے بھاگنے جیسا روش اختیار کرکے صرف لفاظی بنیاد پر چند بات کہہ لیں اور چلتے بنیں کی روایت، لیکن اصل وجوہات یہ نہیں ہیں گذشتہ کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً اتحاد حوالے کوششیں کی گئیں، ہر کوئی اپنا نقطہ نظر بغیر اُن وجوہات کو مدنظر رکھ کر گذشتہ کوتاہیوں اور کمزوریوں اور پیش آنے والی پیچیدگیوں کو بحث کیا جائے، ان کے اسباب ڈھونڈے جائیں، ان اسباب کو سامنے رکھ کر ایک مضبوط پروگرام کے تحت آگے بڑھنا یا اتحاد کے لیئے راہیں ہموار کرنا ہی کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے نا کہ ریاستی جبر کی بڑھتی روش کو دیکھ کر جذباتی بنیاد پر اپنی خواہشوں کے عین مطابق اتحاد کی بات کرنا یا ان کے لئے اپیلیں کرنے سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ جس سے ایسا لگتا ہے کہ ہم آبِ سراب کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ایسا بھی نا ہو کہ ہر کوئی اٹھ کر اس اتحاد کو اپنے مرضی و منشاء کے مطابق بلیک میل کرکے تباہی کے دھانے پہنچادے.
اب جبکہ یہ جنگ بلوچ قوم کی آخری جنگ ہے، جس سے وہ اپنے منزل کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے، اس حوالے سے اُن بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا، جس سے پائیدار و مضبوط قومی اتحاد معرضِ وجود میں لایا جائے اور اگر اس دوران کسی بھی قوت نے اپنے مفادات کو اہمیت دی یا جس سے قومی اشتراکی عمل کو نقصان پہنچا تو اسی وقت عوام یا وہ ادارے اس قوت یا عناصر کو اسی وقت احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کردیں، جس سے کوتاہی سرزد ہوئی ہو کیونکہ پچھلے جتنی بھی اتحادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں، ہرکوئی اپنی کوتاہیوں کو عوامی عدالت میں پیش کرنے سے قاصر رہے۔
آج کے بلوچ قومی تحریک حوالے حالات کسی بھی جزباتی پن، اموشنل رویے کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ بلوچ عوام کی طرف سے بار بار اتحاد پر زور دینے کی اپیلوں کو صرف چند سطروں تک محدود کرکے تاش بازی کی طرح کھیل کا کایا اپنی طرف پلٹ کر قومی و مضبوط اشتراکی عمل کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے، گزشتہ دنوں انٹرنیشنل فرینڈز آف سندھ کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں حوالے ایک کانفرنس ہوا تھا، جہاں تمام آزادی پسند بلوچ قوتوں بشمول دوسرے مظلوم قوموں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی، اس کانفرنس میں بلوچ آزادی پسند کارکنوں کی جانب سے ایک مضبوط قومی اتحاد و اشتراکی عمل کے لیئے زور دیا گیا تھا، جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے.
سیمنار کے اندر تمام حصہ داران نے اس حوالے سے اپنی آراء پیش کئیں، کارکنان کے اندر ایک مضبوط تشنگی ہے، جسے وہ یکجہتی کا پانی پی کر بجھانا چاہتے ہیں لیکن افسوس لیڈرشپ کی ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں، لیڈر شپ کو کارکنان کے جزبات و احساسات کا احساس ہونا چاہیئے (میں نے ہہلے بھی ذکر کیا تھا کہ قومی خالص اتحاد و موجودہ بلوچ تحریک کی حالیہ لہر کسی بھی جزباتی اموشنل رویے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اب کی بار یہ بلوچ کی مرگ و زیست کا سوال ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو سائنسی بنیادوں پر تشکیل دیکر ایک مضبوط پروگرام دیا جائے) کارکنان کی تشنگی بحث طلب ہیں۔
اس ضمن میں بنیادی لوازمات کا اندازہ ہونا لازمی ہے کیونکہ یکجہتی و اشتراکی عمل کسی کے خواہشات کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتیں، اس کے لئے ان بنیادی وجوہات اور بالخصوص ان رویوں کا ذکر کرنا ان کے سدباب کے لیئے اصولوں سمیت وہ روڑ میپ دینا جس سے عمل کرکے ایک نقطہ پر بیٹھا جاسکتا ہے نا کہ یہ کہہ کر کہ آئین اتحاد کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے. ہمیں اس چیز کا شدت سے احساس ہے کہ جب تک ہم عوامی امنگوں کے عین مطابق پچھلے کئے گئے ان تمام رویوں کوتاہیوں کمزوریوں کو آشکار نہیں کرینگے اس وقت تک ایک ٹیبل پر جمع ہونا ناممکن تصور کی جائے گی.بلوچ قومی تحریک کے اندر پائی جانے والی اس خلیج کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے، جس کا خاتمہ بلوچ عوام چاہتی ہے، اس کے علاوہ ہمیں بہ حیثیت سیاسی کارکن اُن وجوہات کو جاننا ہوگا، ان کا ذکر کرنا ہوگا ان کو سامنے رکھکر ایک ٹیبل پر بیٹھکر نئی راہیں تلاش کرنی ہونگی۔ اگر تمام سیاسی پارٹیاں اُن بنیادی نقاط کا جائزہ لیں تو یقیناً کامیابی سے ہمکنار ایک اشتراکی عمل کو وجود دینے میں آسانی پیدا کی جاسکتی ہے اور اسی تناظر میں حالیہ سیاسی پیچیدگیوں عوامی بیزارگی اور ناکامی کے اسباب ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ جو بنیادی ان پانچ چیزوں پر مشتمل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
1.Apeal of The Case یعنی موقف کا کلئیر ہونا
2.Quality of Leadership معیاری قائدانہ صلاحیت
3.عوامی سپورٹ اور عوامی اہمیت
4.یکجہتی،اتحاد (وہ بھی نیک نیتی مخلصی ایمانداری پر مشتمل ہو)
5.بین الاقوامی سپورٹ
اب یہاں ہمارے سیاسی پارٹیاں جذباتیت کے آڑ میں عوام کے ان امنگوں کو کیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جن کی بنیاد پر بلوچ عوام بلوچستان کی سطح پر ان کوتاہیوں کمزوریوں و کارستانیوں کا سدباب چاہتے ہیں، جو عسکری تنظیموں کی طرف سے ہوئی ہیں۔ جس سے عوامی حمایت کا غائب ہونا روز بہ روز تحریک سے متنفر ہونا، آئے روز بے گناہ لوگوں کو مخبری کے نام پر قتل کرنا اور بہت سے وجوہات ہیں، جو تحریک سے جڑے عناصر سے سرزد ہورہی ہیں.
اب ہم ان پانچ بنیادی اصولوں سے صرف ایک پر اکتفاء کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ کررہے ہیں، جو کہ قومی تحریک کے علاوہ بلوچ عوام کے ساتھ سیاسی دوغلہ پن کے سوا اور کچھ نہیں. اتحاد سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہو کہ پارٹیوں سے بالاتر عوام کی اہمیت ہے، جب کامل عوامی حمایت عوام کی گری ہوئی اعتماد کو بحال نہیں کیا جاسکتا اس وقت تک صرف اپنے تئیں پارٹی سطح پر آگے، جانا شاید ہمیں وقتی طور پر یکجا کرلے لیکن دائمی طور پر ہم کبھی بھی یکجاء نہیں ہوپاتے، جب خالص عوامی اہمیت اجاگر ہوگا اور واقعی عوام کو اتنی اہمیت دی جائیگی کہ کل کوئی بھی سیاسی حوالے دغابازی کا مرتکب پایا گیا، تو عوام اس اہل ہے کہ اس کو سزا و جزاء کے ترازو میں تولے.
جب اس جانب ہم سوچنے میں کامیاب ہوئے، اس امر پر متفق ہوئے تو موجودہ پائی جانے والی سیاسی بے چینی عوامی بیزارگی پر قابو پاسکے گیں، وگرنہ صرف پارٹی دائروں پر محدود رہ کر قومی ذمہ داریوں سے بھاگنا اور جزباتیت سے سرشار سوچ کو فروغ دینا شاید اُس اتحاد کو وجود دیں گی جس سے مزید دوریاں معرض وجود میں آئیں گی اور وقت کے ظالم لہروں کے ساتھ غائب بھی ہوں گے.
پچھلی کمزوریوں و خامیوں پر تجربہ کرنا سیاسی دانستگی ہے، آج بلوچستان میں الیکشنز کی گھما گھمی عوام کی شمولیت اور ریاست کی جانب سے مزید اکٹیو ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ میدان میں ہم سے فیلئیر ہوچکا ہے، جس کا سدباب وقت کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنا اتنا مشکل نہیں یہ وہی عوام ہے جو تحریک کے ابتداء میں تحریک کے لئے مضبوط کردار ادا کررہی تھی اور ہماری کوتاہیوں سے آج ہم سے کوسوں دور ہے لیکن پھر بھی ان کی جانب یکجہتی کا سوال ہر لمحہ اٹھتا ہے اگر ہم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا اپنی کوتاہیوں کا سدباب کیا، تو وہ دن دور نہیں جس سے ہم منزل کی جانب تیزی سے محو سفر ہوں.