بلوچ: اپاہج قبائلیت کا شکار ایک سیکولر قوم – برزکوہی

561

بلوچ: اپاہج قبائلیت کا شکار ایک سیکولر قوم

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

تمہید میں اس ذکر سے باندھنے کی سعی کرتا ہوں کہ بلوچ کیسے ایک سیکولر قوم ہے؟ ہم کن بنیادوں و اقدار پر ثابت کرسکتے ہیں کہ واقعی بلوچ ایک سیکولر قوم ہے؟

اس امر کی تاریخی حالات و واقعات خود دلالت کرتے ہیں کہ بلوچ قوم نے حضرت عمر فاروق کے دور میں اسلام اپنے رضامندی سے قبول کیا اور مسلمان ہوگئے لیکن اس سے پہلے بھی بلوچ ایک تہذیب یافتہ قوم تھی، بلوچ اعلیٰ اخلاقیات و قومی اقدار کے مالک تھے۔ تمام مذاہب چاہے، وہ اسلام ہو، برہمن، بدھ مت، مسیحی، یہودی یا آتش پرست وغیرہ سب کا حقیقی تعریف مفہوم اور بنیادی فلسفہ اخلاقیات کے وضع اصولوں پر ہے یعنی تہذیب و تمدن پر قائم ہے اور بلوچ ان تمام صفات سے بہرہ ور تھا۔ اسی طرح قبولیت اسلام کے بعد بھی بلوچ ایک سیکولر قوم رہا اور آج بھی ہے۔

سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ خود سیکولرازم کیا ہے؟ اس کے بعد ہمیں صحیح معنوں میں جانکاری ہوگا کہ بلوچ قوم کیسے سیکولر ہے؟

سرمایہ دارانہ و ذاتی ملکیت کے خواہش مند طبقات، رجعت پسند مذہبی مولوی، ظالم و جابر قبضہ گیر استعماری قوتیں، خاص طور پر پنجاپی و پنڈی میڈ دین و اسلام کے دعویدار سیکولرازم کی اصطلاح کے معنی و مفہوم کوعموماً توڑ مروڑ، خلط ملط اور مسخ کرکے پیش کرتے ہیں۔ ہمشہ مفاد پرست طبقات، لوٹ کھسوٹ کرنے والے حاکموں نے اپنے خیالات کی ترویج کے لیئے، سیکولرازم سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں اس کو خدا سے انکاری کافر دین و اسلام سے منحرف و منکر لا دینیت، دہریت اور بداخلاقی کا سرچشمہ قرار دیا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔

خاص طور پر پاکستانی قوم اپنی نام نہاد اسلامی ملک کو جواز فراہم کرنے اور بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین پر اپنے تسلط اور قبضہ گیریت کو دوام اور تقویت دینے کی خاطر دوسرے چیزوں کی طرح سیکولرازم کے اصل مفہوم اور چہرے کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے اور سادہ لوح اور کم علم لوگوں کے ذہن میں جس طرح سیکولرازم کے خلاف گمراہ کن پروپگنڈہ کرچکے ہیں، آج تک لوگوں کی لاشعور میں سیکولرازم ایک لادین، غیر مذہب اور خدا سے انکاری نظریہ ہے، جو سراسر منافقت، دورغ گوئی اور منفی و من گھڑت پروپگنڈہ ہے، جس کی اصل حقیقت سے دور کا کوئی تعلق نہیں ہے، دراصل سیکولرازم کیلئے موزوں اُردو اصطلاح” فکر پسندی”ہوسکتی ہے۔ سیکولرازم کی اصطلاح دراصل چرچ یعنی مذہب اور ریاست یعنی سیاست کو الگ کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے، گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔

سیکولر اور سیکولرازم مغربی اصطلاحیں ہیں،لاطینی زبان میں سیکولم (saeculum )لغوی معنی دنیا کے ہیں ۔ سیکولرازم کا مطلب “ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے، جس کی بنیادیں مذہب اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کی بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہوں”
۔
نامور دانشور اور مصنف سبطِ حسن اپنی تصنیف ‘نویدِ فکر’ میں سیکولرازم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قرونِ وسطیٰ میں رومن کتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیساکے ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے، کلیساء کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولرپادری کہا جاتا تھا، وہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائیداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔ آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاست یا نظم ونسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے۔”

ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق “سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کو کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔”

مولانا وحید الدین خان’ مسائل اجتہاد‘ میں لکھتے ہیں ’’حقیقت یہ ہے سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں، اس کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے، یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلایاجائے ‘‘۔ سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔”

سید سبط حسن مزید لکھتے ہیں کہ ”سیکولرازم کا بنیاد ی اصول یہ ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، لہٰذا ہر فرد کو پوری اجازت ہونی چاہیئے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل خواہ ان کا تعلق سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب و اخلاق سے، فلسفہ و حکمت سے ہو یا ادب و فن سے، اپنے خیالات کی بلا خوف و خطر ترویج کرے۔ طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا دھمکی اور دھونس سے کسی کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانا حقوق انسانی کے منافی ہے۔“

تو بلوچ کب اور کہاں بزور طاقت بزور شمشیر دھونس دھمکی کے ذریعے مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر یلغار کرکے دوسروں کو زبردستی اپنا نظریہ و عقیدہ مسلط کرچکا ہے؟

اگر کوئی آکر یہ کہتا کہ بلوچ ریاست کے حاکم نصیرخان نوری اول مکران میں ذکریوں پر حملہ کرکے ان کو نمازی کرنے کوشش یا جہاد کرتا ہے، تو وہ غلط، قابل تحقیق اور قابل بحث تاریخی واقعہ ہے، جہاں تک حقیقت ہے مکران میں نصیرخان بلوچستان میں حکومت کا رٹ قائم کرنے کیلئے حملہ آورہوتا ہے، وہ ریاستی ٹیکس کا معاملہ تھا، اگر صرف ذکریوں پر حملہ کرنا ہوتا، تو پھر مذہبی بنیاد پر پھر نصیرخان نے کیوں آواران، مشکے، گریشہ، نال اور دیگر علاقوں میں ذکریوں پر حملہ نہیں کیا؟ اس وقت یہاں بھی ذکری فرقہ موجود تھا؟

یعنی سیکولرازم کا بنیادی مقصد اور فلسفہ کہ مذہب کو سیاست، ریاست، ووٹ، الیکشن، ذاتی مفاد و مقاصد، قبضہ اور دیگر عزائم سے الگ پاک و صاف رکھ کر ہر ایک انسان کو اپنے مذہب و عبادت اور پرامن تبلیغ و تشہیر اور دوسروں کو منطق و دلیل کے ساتھ قائل کرنے کی کوشش کرنا، ناکہ اپنے مذہبی نظریات و عقائد کو بزور طاقت دھونس دھمکی کے ساتھ دوسروں پر مسلط کرنا، بلکہ دوسروں کے مذہب دین و درہم کا ہمشہ عزت و احترام کرنا، دراصل سیکولرازم کی اصل و بنیادی تشریح اور شکل یہی ہے۔

کیا بلوچ قبل از پاکستانی قبضہ گیریت یا آج تک اپنے تمام علاقوں میں عیسائی، ہندوؤں و دیگر مذاہب کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک روا رکھتے ہوئے نہیں آیا ہے؟ اگر آٹے میں نمک برابر کوئی فرقہ واریت، نفرت، ہندوؤں کے اغواء، بھتہ خوری اور انہیں تنگ کرنے کا جو بھی واقعہ سامنا آیا ہے، وہ سب جانتے کہ ان میں پاکستان ریاست کا براہِ راست ہاتھ رہا ہے اور آج تک بھی ایسے تمام واقعات میں پاکستان کے خفیہ ادارے ملوث ہیں۔

پاکستان دنیا کے سامنے بلوچ قوم کو ایک مذہبی انتہاء پسند اور ایک وحشی قبائلی قوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پاکستان کے اس کار خیر میں شفیق، اسلم بزنجو، خالد بزنجو، قدوس بزنجو، سرفراز بگٹی، سراج، منیر ملازئی، قمبر مینگل، جیسے ریاستی غنڈے اور ریاستی کاسہ لیس سمیت تمام سردار براہِ راست ملوث ہیں۔ جس کے ایک نہیں کئی شواہد موجود ہیں۔

2009 میں خضدار نال سے ہندو برادری کے اہم تاجر کے اغواہ میں سردار اسلم بزنجو، شفیق مینگل اور برکت محمدحسنی کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواید آج ہر عام و خاص بلوچ کے پاس موجود ہیں۔ ایسے سینکڑوں کی تعداد میں واقعات جو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے وابستہ ہوکر، ان تمام واقعات میں براہِ راست ریاست پاکستان اور اسکے کاسہ لیس سردار اور ایجنٹ ملوث رہے ہیں۔ عموعی و مجموعی حوالے سے خود بلوچ قوم کا ایسے واقعات سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے اور نہ ہوگا۔

اگرچہ سیکولر نظام کی بنیادیں انتہائی قدیم ہیں، لیکن سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 19ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور’ارج جیکب ہولی اوک’ نے وضع کی ۔ اوک کا موقف تھا :
1۔ انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔
2۔ اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔
3۔ علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔
4۔ ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیئے۔
5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

کیا حقیقی بنیادوں پر اگر ہم باریک بینی سے تجزیہ کریں تو آج مجموعی طور پر ہر بلوچ جیکب ہولی کی موقف کی طرح ایسا نہیں سوچتا اور ایسا نہیں چاہتا ؟ اور ہر بلوچ کا فطری مزاج و نفسیات ایسا ہی نہیں ہے؟ قطع نظر پاکستان کی فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کے تمام سازشش اور شاطرانہ طریقے سے مذہبی انتہاء پسند سوچ کو 70 سال پھیلانے اور پروان چڑھانے کے منفی اثرات اپنی جگہ لیکن بلوچ قوم کی آج تک سیکولرازم کی سوچ موجود ہے۔

جہاں تک بلوچ قوم کو قبائلی اور قبائلیت سے تشبیہہ دینے کی بات ہے، آج اکیسیویں صدی علم و ٹیکنالوجی کی صدی میں صرف بلوچ قوم میں نہیں دنیا کے دیگر قوموں میں بھی قبائلیت یا تو ختم ہوچکا ہے یا اپاہج شکل میں موجود ہے، اگر اپاہج شکل میں موجود ہے تو وہ بھی کچھ لوگوں کے مفادات کی خاطر، جس طرح انگریز سامراج فاروڈ پالیسی کے تحت بلوچستان میں سرداری یا سنڈیمن نظام کو رائج کیا، جو آج تک چلتا آرہا ہے آج پاکستان بھی اپنے مقاصد عزائم اور مفادات کی خاطر نوابوں سرداروں میر و معتبروں ٹکری ملک وڈیروں کو مضبوط کررہا ہے اور یہ لوگ بلوچ قوم کو قبائلیت کے نام پر اپنے مفادات کی خاطر استعمال کررہے ہیں، یعنی پنجاپی سردار میر و معتبر نواب ٹکری کو اور پھر سردار میر و معتبر نواب بلوچ قوم کو اپنی ذاتی ہوس اور مفادات کیلئے استعمال کررہے ہیں۔

یعنی ذاتی و معاشی مفادات خوف مجبوری کے علاوہ آج بلوچ قوم کی دل و دماغ اور عقل میں کسی بھی نواب و سردار، میر و معتبر، ٹکری و ملک اور وڈیرے کیلئے ایمانداری سے ذرا بھی ہمدردی اور جذبہ محبت موجود بلکل نہیں، بغیر لالچ اور خوف کے یا بس مصنوعی ہمدردی چاپلوسی اور دکھاوے کی حدتک احترام اپنی جگہ لیکن حقیقت میں اور کچھ نہیں ہے۔

اس لیئے بلوچ قوم میں قبائلی، نیم قبائلی یا سنڈیمن کا رائج کردہ نظام مکمل اپاہچ ہوچکا ہے، اگر اپاہچ ہونے کے باوجود ابھی تک زندہ ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اسے پنجابی کی آکیسجن اور مدد حاصل ہے۔

تو کیسے اور کس بنیاد پر آج اور کل ہم بلاجھجک اور غیر منطقی اور سطحی بنیادوں پر کہتے ہیں کہ بلوچ قبائلی و مذہبی سماج و قوم ہے؟ یا بلوچ قوم کا مزاج و طبیعت قبائلی و مذہبی ہے؟ کیسے کس طرح؟ نا دانستہ آراء ہیں یا شعوری؟ یا پھر پاکستانی سرکاری بیانیہ اور پروپگنڈے کو دانستگی میں تقویت فراہم کررہے ہیں؟ یا تو پھر اکیسویں صدی علم و شعور کی صدی میں اپنی کم علمی، نالائقیوں کمزوریوں کو جواز فراہم کررہے ہیں کہ بلوچ ضدی، اناپرست، چاکر اور گہرام کی نسل اور قوم ہے یعنی منتشر آپسی جھگڑوں میں مدغم قوم ہے۔ جو سراسر جھوٹ اور گمراہ کن بات ہے۔ اگر واقعی بلوچ قبائلی قوم ہے، تو پھر دودا گورگیج کے میار اور روایات اس کے بھائی بالاچ گورگیج کی بیرگیری روایات و میار کہاں ہیں؟

رند و لاشار کی تیس سالہ جنگ، گوہر نامی خاتون کے اونٹ کی چوری اور دودا اور بالاچ کی سردار بیورغ بلیدی کی ساتھ روایات یعنی ایک خاتون سمی کی باہوٹ کے خاطر جنگ آج قبائلیت اور راویات کے پرچار کرنے اور فخر کرنے والوں میں کہاں ہیں؟ کیوں نہیں ہیں؟ قبائلی ضد، انا، روایات اس وقت کیوں سرد مہری کا شکار ہوتے ہیں، جب ڈیربگٹی، کوہلو، کوئٹہ، مشکے، جھاؤ سے خواتین پنجابی کے ہاتھوں اغواء ہوتے ہیں اور انسانیت سوز تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اس وقت کہاں پر قبائلیت میرو معتبری سرداریت اور نوابیت اور ضد غائب ہوتے ہیں کہ گوہر کےاونٹ چوری نہیں بلکہ گوہر خود اغواء اور جنسی تشدد کاشکار ہوتا ہے؟ ہزاروں کی تعداد میں بھائی دودا گورگیج کی طرح دشمن کی ہاتھوں مار دیئے جاتے ہیں، کہاں قبائلی روایات، کہاں ہیں بھائی کا بیر(بدلہ ) لینے والے بالاچ گورگیج، قبائلی کردار کہاں پر ہیں؟ بالاچ کی وہ جرت جو سردار بیورغ جب اپنے قاصد کے ذریعے طنزیہ پیغام کرتا ہے(جو آج پنجاپی ہم پر طنز کررہا ہے ) کہ بالاچ تم لومڑی کی طرح رات کو آکر حملہ کرتے ہو، لہٰذا دن کو آو آمنے سامنے لڑو، تو بالاچ اپنے جواب اس شعر کے ذریعے روانہ کرتا ہے۔

من کوہ آں پہ ایر کپتگاں
جاہ پہ ماں کُلاناں اتکگاں
دیستاں ماں کیمیا گرایں
دیستاں ماں شاعر ایں
شاعر ءُ کیمیا گریں
شئر شاعراں نوکین جتاں
بیبگر شغانے گون کتاں
بالاچ کہ بدفعل کہ توئے
کائے چوں دزیں تولگاں
منی ہمراہ آن جنت ءُ روئے
من کہ جواب گردینت پدا
بیبگراگل ماں تئی سرے
من چوں تولگ ءَ جنگے نہ داتاں
من چوں شیرے ءَ بور ینتہ بدی
نئے کہ مناں بورے استیں دہ سدی
نئے کہ منا لشکرے گون انت دہ سدی
من گوں وتی ھیسی سرا
ہر شپ چران ءُ کایان پہ مڑا
مثلِ چوں بشامی جڑا
بور انت تئی دہ سدی
بُن جاگہاں بستگ آں
ورنا آنی سنج ءُ سلاھ
ماں کُلاں در اتکگاں
ورنا زوق جنانی گپتگاں
بیبگر اے وڑی ءَ بیر چون گرگ بیت
آ مُرگ کہ نیم شپاں بال انت
بالاچ ءِ کمان ءِ تیر انت

کیوں بالاچ اکیلے اپنے نقیب کے ساتھ انتہائی ماہرانہ گوریلاطرز، انتہائی طاقتور سردار بیورغ بلیدی کے ساتھ لڑتا رہا؟ وہ بھی اس وقت یہ کہتا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا، میں اکیلا ہوں بیورغ طاقت ور ہے میں کیسے اکیلے لڑسکتا ہوں، بیورغ کے ساتھ لڑنا اپنے سر کو پہاڑ سے مارنا ہے، میں کیسے ماروں میں بے بس بے اختیار مجبور ہوں۔

کیا یہ بزدلی کے جواز اور من گھڑت دلیلیں بالاچ کے پاس نہیں تھے؟ بلکل نہیں تھے، کیونکہ وہ قبائلی بلوچ تھا میاری و راواجی قبائلی بلوچ تھا، صاف و پاک قبائلی بلوچ تھا اور بلوچ قبائلی روایات کا پاسدار پاسبان ضدی بلوچ تھا۔

آج اگر کوئی فخر سے یا لاشعوری طور پر یا سرکاری بیانیئے کو تقویت دیکر یہ کہتا ہے کہ ہم قبائلی بلوچ ہیں، روایتی بلوچ ہیں؟ پھر وہ روایات، ضد، بالاچ، چاکر اور گوہرام کا کہاں ہیں؟ پنجابی دشمن کے حوالے سے جو روزانہ کی بنیاد پر کہیں گوہرو سمی شہید اور اغواء کررہا ہے اور کہیں دودا جیسے بھائی اغواء اور شہید کررہا ہے، کہاں ہیں وہ بلوچ باہوٹ، روایات، ضد اور قبائلی میارجلی؟

صرف اور صرف نام و مقام خالی خولی شوشہ، دکھاوا، ذاتی مفاد، ذاتی و مصنوعی عزت و احترام کی خاطر قبائلیت، روایات کا چرچا؟ میں نے ہمیشہ باریک بینی سے غور کیا ہے، جہاں بھی ہماری اپنی ذاتی مزاج، خواہش، ہوس، خوف، مفاد وابستہ ہوں یا کم علمی لاشعوری کارفرما ہو، تو وہاں ہم کیوں قبائلیت اور مذہب کا درس و تدریس دیتے ہیں؟ اور پورے بلوچ کا حلیہ بگاڑتے ہیں، صرف ذاتی کمزوری، منشاء، طبیعت، خواہشات کی تکمیل کیلئے کہتے ہیں کہ بلوچ سماج مذہبی اور قبائلی ہے؟ قطع نظر پاکستان کے دونمبری قبائلیت اور مذہب کے فروغ اور غلامی کے اثرات کے۔

کیا فرسودہ قبائلی، پسماندہ، جاہلانہ، مذہبی عقائد دنیا کے باقی قوموں میں نسل درنسل موجود نہیں تھے؟ آج وہ قابل ذکر اقوام کہاں پر کھڑے ہیں؟ ذرا غور کریں مثلاً اگر ہم عرب قوم کا مثال لینگے کہ وہ اپنے لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔

ازتیک (Aztec )قبائل انسانی گوشت کھانے کو ناگوار سمجھنے کے باوجود، رسماً پورا کرتے تھے، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ انسانی گوشت نہ کھائیں گے تو سورج کی روشنی مدھم ہوجائے گا اور بعض قبائل دس سے سترہ برس کی لڑکیوں کو سورج سے چھپا کر رکھتے تھے، انھیں ڈر ہوتا کہ سورج کی شعائیں ان دوشیزوں کو حاملہ کردیں گی۔

کیا ہم یقین اور مکمل اعتبار کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ہم میں ایسے فرسودہ عقائد و رواج، سوچ، خیالات موجود نہیں ہیں؟ شاید موجود ہیں، ضروری نہیں من و عن اس طرح ہوں لیکن وقت و حالات کی وجہ سے مختلف ضرور ہو شاید ہمیں ان کی موجودگی کا علم نہ ہو، جس طرح اس وقت عرب ازتیک اور دیگر قبائل کو یہ علم نہیں تھا، آج ہم ان کے ان مذہبی و قبائلی رسم و رویات، عقائد کا مذاق اور تمسخر اڑا رہے ہیں، ایسا نہیں آج ہم لاشعوری بنیاد پر یا دانستہ بنیادوں پر جن چیزوں، جن عقائد اور خیالات کا پوجا کررہے ہیں یا ان پر فخر کررہے ہیں، وہ اگلے نسلوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مضحکہ خیز اور باعث حیرت چیزیں ہو ں؟ زیادہ سے ذیادہ اس لیئے کہ ہم من الحیث البلوچ، اکیسویں صدی علم اور ٹیکنالوجی کی صدی میں قدم رکھ چکے ہیں۔

عرب و ازتیک دیگر قبائل اور رند و لاشار کی ضد زمانہ قبل میں تھا، اکیسویں صدی میں نہیں تھا، اگر آج ہم بالاچ گورگیج کی باقی حقیقی کردار چاکر و گہرام کی بہادری، سخاوت، راست گوئی، مہمان نوازی، قول کی پاسداری وغیرہ سب کے سب خصوصیات سے خالی خولی ہوکر صرف اپنی نالائقی، طفلانہ ذہنیت، ہٹ دھرمی، کم علمی اور منفی و محدود سوچ کو چاکر و گہرام کی ضد اور بلوچوں کی نااتفاقی کو رند و لاشار کی آپسی جنگ سے تشبیہہ دیں تو خود کو اور پورے بلوچ قوم کو دھوکا اور فریب دینے کے مترادف اور انتہائی احمقانہ کوشش ہے۔

بلوچ جہدکار ہمیشہ علم و تحیقیق سے لیس ہوکر لاشعوری اور غیردانستہ طور پر بھی اپنے تحریکی اور جہدوجہد کی خامیوں اور کمزوریوں کو کم از کم مذہبی نقطہ نظر سے، خدا پاک اور مقدر سے وابستہ کرنے کی کوشش نہ کریں اور اپنی جاہلیت، غیرذمہ داریوں، نالائقیوں، عدم توجہ، عدم دلچسپیوں، فکری کمزوریوں کو چاکر و گوہرام کی ضد سے تشبیہہ نہ دیں کیونکہ چاکر و گہرام کی ضد و جنگ گوہر کی اونٹنی تھی، باہوٹ تھی یا کچھ اور تھا، وہ آپسی ضد، غلط تھا صحیح تھا بزدلی تھا بہادری تھا مثبت تھا یا منفی تھا، جو بھی تھا وہ ایک الگ تحقیق اور مفصل بحث ہے۔

بہرحال میں کہتا ہوں آج بھی کاش دوداء، بالاچ، چاکر و گہرام کی ضد قبائلی رسم و رواج روایات بلوچ قوم اور بلوچ قبائلیت پر فخر کرنے والے اور دعویداروں میں ہوتا، لاکھ قابل قدر قابل تحسین ہوتا لیکن ظاہری دکھاوا اور شوشے کی حد تک بلوچ سیکولر سماج کو اپاہج، قبائلیت اور انتہاء پسندی، مذہبی بنیاد پر شعوری اور لاشعوری طور پر گردانا، اتنہائی نقصاندہ اور غلط عمل ہے۔ جس کے منفی اثرات برائے راست قومی آزای کی جہد پر پڑرہیں اور مذید پڑتے رہینگے، جن سے ہر ممکن حد تک گریز کرنا اور بلوچ قوم کی ذہنی تربیت کرنا آج اور کل مکمل تحریکی تقاضہ ہے۔