ایران میں کسانوں کے احتجاج نے ملک گیر حکومت مخالف مظاہروں کی شکل اختیار کرلی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق تہران میں رواں ماہ کے اوائل سے شروع ہونے والے کسانوں کے احتجاج اب حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ڈالر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قدر نے معیشت کو بدحال کر دیا ہے۔ دارالحکومت کی ہر بڑی شاہراہ پر ہزاروں شہری سراپا احتجاج ہیں اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے ہیں۔
گذ شتہ روز تہران میں مکمل ہڑتال کی گئی تھی اس دوران تمام مرکزی بازار بند رہے اور معمولات زندگی معطل رہے جب کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔
11 جولائی کو مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والا کسان پلٹ گولیوں کے نشان دکھا رہا ہے۔
دوسری جانب ایرانی حکومت نے 2009 سے گھروں میں نظر بند اصلاح پسند اپوزیشن رہنماؤں 76 سالہ میرحسین موسوی خامنہ اور 80 سالہ مہدی کروبی کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر آیت اللہ خامنہ ای 10 دن کے اندر حتمی فیصلہ کرلیں گے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ مظاہروں کو روکنے کے لیے ان دونوں رہنماؤں کو رہا کردیا جائے گا۔
واضح رہے 11 جولائی کو ایک ایرانی صوبے کے کسانوں نے حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاجاً اپنے ٹریکٹر شاہراہ پر کھڑے دیئے تھے جس پر ایرانی فورسز نے کسانوں پر پلٹ گنوں کا استعمال کیا تھا جس کے بعد کسانوں کا احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا تھا دوسری جانب امریکی ڈالر کی قیمت 1 لاکھ 15 ہزار 4 سو ایرانی ریال تک پہنچنے کے بعد تاجر اور عام شہری بھی احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں۔