ایک ووٹر کی سر گزشت
تحریر ۔ نود سنگت
دی بلوچستان پوسٹ
میں تیس سال سے اس نظام کا حصہ ہوں، ایک ایسے نظام کی بات کر رہا ہوں جس نے مجھے ان تیس سالوں میں ذلت رسوائی پریشانی الجھن اور منافقت کا شکار کیا ہے، اب میری پوری شخصیت میرا وجود سر تا پا ایک پراگندہ مجسمہ بن گیا ہے۔
شروع شروع میں میری وابستگی اس نظام کے ساتھ شعوری نہیں تھی، میں غیر شعوری اور نا پختگی سے اس ہجوم کا حصہ بن گیا، سیاست میں میری جڑت کے وجوہات میرے چارسو سیاست تھی۔ سیاسی باتیں تھیں، سیاسی سرکلیں اور سیاسی لٹریچر تھے، گہما گہمی کے اس ماحول میں کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
یہ فطری عمل ہے جس طرع کے ماحول میں انسان پلے بڑھے گا، جس طرح کے اردگرد میں نشوونما پائے گا، اس ماحول کے سماجی نفسیاتی اثرات اس پر ہوتے ہیں۔
مجھے یاد نہیں آرہا، سب سے پہلے کس سیاسی پارٹی یا تنظیم کے جھنڈے تلے سیاسی پرورش پایا، تھوڑا بہیت یاد آرہا ہے، جب میں پرائمری اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن اسکول میں جلدی چھٹی ہوئی، عرصہ گذر جانے کے بعد پتہ چلا، وہ دن دوم مئی کا دن تھا ایک عظیم کرانتی کاری کا یوم شہادت۔
شہید فدا احمد بلوچ کے ڈے کے مناسبت سے اسکول میں ریفرنس منعقد تھا، غالباً یہی میرا پہلا سیاسی پروگرام تھا۔ آہستہ آہستہ میں بی ایس او کا باقاعدہ ممبر اور پھر سرگرم کارکن بن گیا، بی ایس او کے پروگرام نظریہ سرکلز اور لٹریچرز میں خود کو تحلیل کر دیا۔ ان سر کلز میں نیشنلزم، سوشلزم، مارکسزم اور فلسفے پر علمی گفتگو اور مباحثہ ہوتا تھا۔ یہیں سے مجھے نیشنلزم اور بلوچستان کے قومی پروگرام سے شعوری رغبت پیدا ہوئی۔ سینئر دوستوں کی راہنمائی، تربیت اور قربت سے دل میں دشمن کے لیئے نفرت، ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا۔ استحصال، لوٹ کھسوٹ اور غلامی سے جان کاری پیدا ہوئی اور غلامی کے خلاف جدوجہد ایمان کا حصہ بن گیا۔
کالجوں یونیورسٹیوں اور ہاسٹلوں میں ہمارے سینئر دوست جن میں زیادہ تر شعلہ بیان دوست تھے، جب وہ شہدا کے پروگرام اور ان کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ان کو منطقی انجام تک پہنچانے کی باتیں کرتے، تو ان کی تقریروں سے آگ اگلتی تھی، اتش فشاں پھٹتے تھے، دیواریں گونجتے تھے۔ بی ایس کے کارکناں جذباتی طور پر پروگرامز اور احتجاج منظم کرتے اور ان میں شرکت کرتے، ادبی مجالس میں شعرا کے انقلابی شاعری رونگھٹے کھڑے کردیتے۔ سرکل پروگرامز، لیکچر، انقلابی کتابوں پر تبصرے اور انقلابی تحریکوں پر تجزیے نوجوانوں کے شعور پر چابک لگاتے۔ جس سےغلامی، محکومی، مظلومیت، استحصال اور جبر کے مکروہ چہرہ مزید واضح ہوکر سامنے آجاتے۔
قبضہ گیریت غلامی اور محکومیت کے خلاف جدوجہد اور معرکہ آرائی کو فدا احمد بلوچ کے قتل کے بعد کچھ لوگوں نے ایک غیر منطقی جست کی شکل میں سبوتاژ کرکے موڑ دیا۔ اچانک کے اس جست نے بی ایس او کے کارکنوں سمیت بلوچ عوام کے شعور کو گاوٹین کے تیز دھار سے کاٹ کر شعور کا رسد اور سپلائی تحریک کے لیئے بند کر دیا۔
سب کچھ بدل گیا لوگوں کے خیالات، رحجانات اور سوچ کو قائدین نے بانجھ کرکے موقع پرستی کی تخم ریزی کی۔ جزباتی اور شعلہ زبان مقرر اب بہت دھیمی اور آہستہ آواز میں گویا ہوئے، اب جدوجہد کی جگہ مصالحت اور مفاہمت نے لی تھی۔ یہی دوست ہم کو کچھ وقت پہلے ووٹ کی نہیں انقلاب اور آزادی کا درس دیتے، الیکشن کو بلوچ مسئلے کا حل نہیں بلکہ غلامی سے تعبیر کرتے تھے، یہی دوست ووٹ اور انتخابی سیاست کی باتیں کرنے لگے۔
ہمارا رشتہ چونکہ نظریاتی اور فکری تھا، ظاہر ہے نظریاتی رشتے کی بنیاد بھروسے پر ہوتی ہے، سو ہم نے بھی دوستوں کی ہر بات کو ہہو بہو قبول کر دیا۔ عوام کو اب انقلاب آزادی، سامراج دشمنی کے بجائے ووٹ الیکشن اور مخالفین پر بہتان تراشی جیسے مکارانہ سرگرمیوں پر لگا دیا اب ہمارا مقصد اور مراد انقلاب نہیں اقتدار تک رسائی تھی۔
اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لیئے بلوچ عوام کو نظریاتی تعلیم و تربیت کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ان کے ناپختہ اور کچے ذہنوں کو جھوٹ، بہتان تراشی، منافقت، گندگی، غلاظت کی ضرورت تھی۔ .
ہمارے قائدین نے انقلاب، آزادی و نظریے کی سیاست چھوڑ کر ووٹ الیکشن کی سیاست کو باقاعدہ بنیاد رکھ دیا۔ ووٹ اور الیکشن کی بنیاد رکھ کر ہماری قیادت ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے بلوچ بلوچستان اور بلوچ قومی آجوئی کے پروگرام سے منحرف ہو کر دستبردار ہو گئی۔ قیادت کی دستبرداری اور غداری کی سزا آج تک بلوچ سرزمین بھگت رہی ہے۔
1988 کا الیکشن ہمارا پہلا الیکشن تھا، ان دنوں ہم نیا نیا منحرف ہوئے تھے، غداری کا طوق پہنے ماتھے پر غلامی کا کلنک لگا کر جب ہم ماں بہنوں بزرگوں بوڑھوں کو الیکشن کھینچ کر لے آتے، خدا کی قسم دل میں شہدا کے خون کی قیمت ہم اپنے قائد کی کامیابی اور انھیں اقتدار تک پہنچانے سے تعبیر کرتے، ان کے مشن کو اسمبلیاں اور منزل پارلیمنٹ تک رسائی سمجھتے۔
1988،کے بعد 1993،1997،2003،2008،اور 2013 تک ہم ووٹ الیکشن کے سیل کاریوں، گند کاریوں کے ساتھ ہوتے رہے اور اب 2018 میں بھی منہ کالا کرنے کا فرمان جاری ہوا ہے۔
اسی دوران ہم بحثیت ووٹر تحریک اور نظریے کو لہولہان کرنے اور ان کا کھلواڑ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بلوچ قومی تحریک اور آزادی کے پروگرام کو ہم نے ووٹ، الیکشن، اسمبلی، اقتدار، منافقت، موقع پرستی، جھوٹ، مراعات، مفادات اور چند خاص افراد کے مفادات کو تحفظ دینے تک محدود کر دیا۔
ہمارے اکابرین جن کو ہم ہر الیکشن میں ووٹ دیتے، اقتدار کے منزلوں تک پہنچاتے جو کھبی اس پارٹی میں تھے، تو ہم اس پارٹی میں اسکے گن گاتے، جب وہ کسی اور پارٹی میں جاتے تو ہم ووٹر اپنے خاندان احباب کیساتھ ان کی پیروی کرتے، یہی ہمارا نظریہ اور فکر تھا۔ ان پر ہمارا ایمان تھا، عقیدہ تھا، بھروسہ تھا، اس ایمان، عقیدے اور بھروسے نے غلامی، ذلت، رسوائی، منافقت اور دوغلےپن کے دلدل میں ہمیں ڈبو دیا۔ سبھی سماجی رشتے اور انسانی تعلق دروغ گوئی، دھوکہ بازی، ریاکاری اور فراڈ پر مبنی ہوگئے۔
ووٹ الیکشن اور انتخابی سیاست کے ساتھ تیس سال بیت گئے، ان تیس سالوں میں ہم نے بہت کچھ کھو دیا، ہمارے سماج میں سماجی اقدار و روایات بھی نام کے حد تک رہ گئے ہیں، ہمارے سیکولر معیار اب مذہبی تعصب اور بنیاد پرستی میں ڈھل گئی ہیں، انسان دوستی اور اخلاقیات کی جگہ دوغلے پن نے لی ہے، معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر محض انسانوں کا ایک بھیڑ بن گیا، جہاں ہر کسی کے سوچنے اور بولنے پر پابندی ہے۔
آج بلوچ سماج شدید ترین انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہر طرف بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے، مایوسی کی وجہ سے بیگانگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، نوجوانوں نے سنجیدہ بحث مباحثہ اور علمی رویوں کو چھوڈ کر ذہنی عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں، ایسے حالات میں زمینی حقائق کو سمجھنا اور درست سمت کا تعین ناگزیر ہو چکا ہے۔ درست راستہ کونسا ہے، درست راستہ درست نظریہ ہے، درست پروگرام، وہی پروگرام، جو تیس سال پہلے ہم نے بلوچ راج کو دیا تھا۔ بلوچ عوام کے امنگوں کا ترجمان تھا۔ جس کی بنیاد ترقی پسندانہ نظریات اور قومی و طبقاتی جدوجہد تھی، جس کو آج کے انتخابی سیاست نے مسخ کرکے آلودہ کردیا ۔ لیکن درست فیصلہ اور درست راستہ انقلاب کا کسوٹی ہے جس پر کاربند ہو کر ایک آزاد انسانی سماج کا قیام اور استحصال سے پاک سماج کا قیام ممکن ہے، جو غلام قوموں کی تقدیر اور منزل ہے۔