ایک نظریاتی سنگت چیسل جان
تحریر: لیاقت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستانی ریاست نے ہماری قومی جنگ کو دبانے کیلئے، ہر طرح کے حربوں کو استعمال کرنے سے باز نہیں آیا، مگر اس کے باوجود بلوچ کبھی بھی اپنی جگہ سے ہٹے نہیں کیونکہ آج بلوچ ایک ایسی جگہ پر کھڑی ہے، اسے دنیا کی مدد اور توجہ ضرورت ہے۔ پاکستانی ریاست کی عقیدہ پرستی اور سنسرشپ نے ہمیں بہت پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی ہے، مگر ہم جہاں پہ ڈٹے ہیں، وہاں سے کھبی ہٹے نہیں۔ ایک انقلابی کیلئے ضروری ہیکہ وہ اپنی منزل کو اچھی طرح سے سمجھ لے اور اسے ایمانداری اور مخلصی سے لے کیونکہ اگر جدوجہد کے دوران، اگر کوئی غیر ذمہ داری یا مخلصی سے کام نہیں کرتا، تو سارے کام آسانی سے بگڑ جاتے ہیں۔
ایک انقلابی کو چاہیئے کہ اپنے منزل کو آسان تر اور مشکلات کم کرنے کیلئے قربانی دینے سے گریز نہیں کرے۔ چاہے وہ مالی ہوں یا جانی کیونکہ دونوں کی قربانی بہت ضروری ہوتا ہے. گوریلا جنگ اگر دشمن کو ہراساں یا نفسیاتی مریض بنادے، تو آپکو اپنی منزل تک کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
آج ہماری قومی تحریک میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جنہوں نے ہر طرح کی قربانی دی ہے اور دینے کیلئے آج بھی آپکو نوجوان ملیں گے کیونکہ وہ ایک ایسی سوچ اور نظریئے پر یقین رکھتے ہیں، جنہوں نے ظالم سامراج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے، بلوچستان میں سرمچاروں نے اپنی زندگی کو ایک ایسی آنے والے کل یا امید کے نام کردی ہے، جو آزادی کی صورت میں طلوع ہوگا۔ اگر آپ اپنے کل کیلئے یا ایک ایسی کام کیلئے امید نہیں رکھیں گے، تو زندگی ایک مایوسی کی طرف بڑھنے لگے گی. ہماری امید ہماری قوم کی آنے والی کل یا آزادی ہے، جس کا خواب ہر بلوچ نے دیکھا ہے، اس خواب کو پورا کرنے کیلئے سامراجیت کا ہتھیار کبھی بھی بلوچوں کو اپنی منزل تک پہنچنے سے روک نہیں سکتی۔
اگر ہم دیکھیں تو بلوچوں نے اپنی آزادی اور خودمختیاری کو برقرار رکھنے کیلئے کتنی طاقتور ریاستوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ ریاست نے ہمیں تباہ کرنے کیلئے مذہب کے علاوہ عام بلوچ کو ایک دوسرے سے بھی لڑایا ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ریاست نے ایک ایسی غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ بلوچ سرمچار، اسرائیل اور دوسرے ممالک کے پالے ہوئے دہشتگرد ہیں، لیکن میں انکو یقین دلاتا ہوں، بلوچ سرمچار اپنے حق کیلئے لڑرہے ہیں۔.
ہماری سرزمین نے ایسے بھی سپوتوں کو جنم دیا ہے، جنہوں نے آخری سانس تک لڑائی جاری رکھا ہے، مگر اپنے آخری گولی بچا کر اپنے سینے میں لگا کر جام شہادت نوش کرگئے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، اسی طرح ہماری تحریک کے ایک نظریاتی کامریڈ حسین شہسوا عرف چیسل اپنی ایک ساتھی سمیت اپنی مادروطن کی مٹی میں دفن ہوئے۔
حسین شہسوار پروم کے علاقے کوہی دمگ مچی میں پیدا ہوا. غریبی کی وجہ سے کم عمری میں ایک چرواہا بھی رہا ہے، بدقسمتی سے شہید کو ایسی سہولیات میسر نا ہوئیں کہ وہ تعلیم حاصل کرے، اس نے اپنی ابتدائی زندگی ہی، اپنے بھیڑ بکریوں کے ساتھ اپنے مادر وطن میں کوچگ اور پہاڑوں میں گزاردی۔.
شہید جب چھوٹا تھا تو اسکے والد صاحب وفات پاگئے. اسکے بعد اس پر ایک چھوٹی عمر میں ہی گھر کی ساری زمہ داریاں آن پڑیں. جب بارش اور آبادی کی کمی ہوئی، تو وہ اپنے فیملی سمیت پروم جائین آباد چلا گیا. ادھر آپ نے مزدوری شروع کیا۔ پنجگور کا سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں تیل کا کام اچھی طرح ہوتا تھا، تو شہید وہاں کبھی تیل کا کام کیا کرتا تھا، کبھی ایران جاکر سالوں سال وہاں مزدوری کرکے اپنے خاندان کو چلاتا تھا، جب وہ وہاں سے واپس آیا تو اس نے اپنی غریبی اور دربدری کے درد کو محسوس کیا، وہ غلامی کے خلاف اٹھنا شروع ہوا.
شہید نے اپنی ابتدائی جدوجہد پروم سے شروع کیا، اس وقت وہ اپنی قریبی ساتھی شہید نوروز سے بہت متاثر تھا، شروع میں وہ بطور ایک ہمدرد تھا بعد میں2014 کو بی ایل ایف کے کیمپوں میں ٹریننگ حاصل کرکے آپ بی ایل ایف کی پلیٹ فارم سے بطور ایک جنگی سپاہی کی حثیت سے اپنے فرائض سر انجام دینے لگے. انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی جنگیں لڑیں، کئی مقاموں پر آپ نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا. جب سی پیک پر کام شروع ہوا تو وہیں پر شہید نے بہت سے کامیاب حملے کئے. بلوچستان کی بہت سی علاقوں میں شہید نے اپنی ساتھیوں کو اچھی طرح سے سنبھالا تھا اور اچھے طریقے سے کمانڈ بھی کرتے رہے۔
2017کوشہید دشمن کے ساتھ ایک گھنٹے کی گھمسان لڑائی میں دشمن کو ناکام کرتے ہوئے، اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے اور وہاں پر خود زخمی بھی ہوئے تھے۔
.
دوسری بار بلیدہ میں اپنی اچھی جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے، وہ دوسری بار زخمی ہونے کے باوجود بھی نکل گیا تھا. جس دن جب قسمت نے ساتھ نہیں دیا، آپ قریبی ساتھی کے ساتھ اپنے ایک تنظیمی کام کیلئے بلیدہ سے نکل کر زعمران کی طرف جارہے تھے، تو راستے میں آپکا سامنا پاکستان آئی ایس آئ کے پالے ہوے منشیات فرشوں سے ہوئی، وہاں دوبدو لڑائی میں شہید چیسل جان اپنے ساتھی حنیف لعل کے ساتھ ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوگئے اور اپنے مادر وطن کے پہلو میں سو گئے اور تاریخ میں اپنے لیئے ایک نام چھوڑ دیا.
شہید انتہائی ایک مہروان آدمی تھا، اسے اپنی مادروطن کی ہر چیز سے پیار تھا، دوستوں سے بے حد پیار کرتا تھا اور یہی کہتا تھا کہ خدا مجھے میرے ساتھیوں سے پہلے شہید کردے.