28 جولائی شہدائے کولواہ
تحریر: محراب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایکیسویں صدی میں بلوچستان کی حقیقی سیاست کے میدان میں بی ایس او نے طلبہ آرگنائزیشن کی حیثیت سے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دیا ہے، جو وہ صرف پسماندہ معاشروں کی خوابوں میں ہوتا ہے بلکہ بی ایس او وہ تنظیم ہے جس کی گود سے آزادی کی سوچ، فکر، نظریہ پیدا ہواـ صدیوں سے خوابِ خرگوش غلاموں کو جگانے میں بی ایس او کا ایک اہم کرادرہے، بلوچ نوجوانوں کو قومی غلامی کا احساس دیکر قومی آزادی کیلئے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔
اس بات سے کوئی انکاری نہیں بی ایس او ایک طلبا آرگنائزیشن ہے لیکن بلوچستان کے سیاست میں طلبا سیاست سے ہٹ کر ایک نیم پارٹی کے کام کو سر انجام دیا ہے۔ بی ایس او ایک طلبا آرگنائزیشن کی حیثیت سے صرف یونیورسٹی و کالجوں میں محدود نہیں رہا، بلکہ بلوچستان کے ہر علاقے ہر کونے میں موجود ہےـ
بلوچ سرزمین میں جاری انقلابی جدوجہد میں بلوچ نوجوانوں کا اہم کردار ہےـ اس جدوجہد میں نوجوانوں نے اپنے جانوں کے قربانی تک سے دریغ نہیں کیا ہے اور بی ایس او کی علمی، شعوری ، جد و جہد کو انہیں نوجوانوں نے بلوچستان بھر میں پھیلایا ہوا ہے۔
اس لیئے بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں کی داستان ہمیں ہر جگہ سُننے کو ملتے ہیںـ وہ کوہلو ہو یا کولواہ ،آواران ہو یا مند۔
آج میں اس قربانیوں کے حصہ دار شہید شاکر شاد کے بارے میں کچھ لفظ کاغذ کی اوراق پر اتار رہا ہوں۔
کولواہ کے شہید شاکر شاد کا آج ہمارے معاشرے میں ایک مقام ہے۔ بی ایس او کا آج یہ مقام جن شہدا کی قربانیوں کی بدولت ہے، وہ شہید رضاجہانگیر، ہو سہراب مری قمبر چاکر، الیاس نظر،قیوم، حاصل، یا شہید سراج ہو اُن شہدا کی قربانیاں موجودہ نوجوانوں کی حوصلے کو تقویت پہنچاتے آرہے ہیں۔
اسی طرح کولواہ زون کے زونل انفارمیشن سیکریٹری شہید شاکر شاد کی قربانی بھی ـ
شاکر شاد نے کولواہ کہنیچی کے گاؤں میں جناب یار جان کے گھر میں آنکھ کھولی، وہاں سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی، مزید تعلیم کولواہ مرہ شم سے حاصل کیـ میٹرک کے امتحان وہیں پر دی۔ اب رزلٹ کے انتظار میں تھے کہ پاکستانی فورسسز نے شاکر شاد کو تین ہمراؤں سمیت شہید کیاـ
جناب یار محمد کے گھر سے تعلیم یافتہ صرف شہید شاکر جان تھا، یار جان کی امیدوں کا چراغ تھا۔ یار جان نے سوچا تھا کہ میرے بیٹے پڑھ کر معاشرے میں لوگوں اور ہمارے لیئے دردِ دوا بنے گا، اتنا تو پتہ تھا کہ ہم غریبوں کو پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے لیکن کم از کم ہماری پیری کا عصا بن کر ہمارے ڈگمگاتے قدموں کو کسی کھائی میں گرنے نہیں دیگا ـ
لیکن پاکستان نے یار جان کو ایسے دھار سے زخمی کر ڈالا جو زنگ میں لگا ہوا تھا۔ محمد یار نے دو مہینے پہلے اپنے دونون بیٹے شہید شاکر اور حاصل خان کو شادی دے کر اپنی نیت میں حدا قرانِ شریعت کے مطابق اپنے اوپر بھاری قرض ادا کیـ اب شاکر و حاصل نے اپنے والدین کیلئے خدمات سرانجام دینے تھے لیکن ، 28 جولائی کی صبح یار جان کیلئے ایک نیا پیغام لایا، جو عمرِ غم کی چھٹی
لفافے میں بند تھی۔ اسے کھولنے بعد زندگی آبِ غم میں ڈھل گئی ـ
علی الصبح حال ہوا کہ فوجیوں نے سارا گاؤں اپنے قبضے میں لے رکھا ہے ـ
یار جان کے دونوں فرزند اپنے اپنے نئے نویلی دلہنوں کے ساتھ پرسکون نیند میں تھے، سوبین کے بیٹے صادق جان نے آکر شاکر شاد کو نیند سے اُٹھا کر کہا اُٹھو گاؤں میں فوجی آچکے ہیں، شاکر نیند سے بیدار ہو کر کہا مجید کو بھی بیدار کرو، وہ کم بخت بادشاہی کے خواب میں ہے۔
کولواہ کے ہوا نے اسے نشہ کر دیا ہے۔ صادق مجید کو بیدار کرنے کیلئے اسکے آنگن کی طرف چل پڑا لیکن مجید پہلے سے بیدار ہو چکا تھا۔ مجید اور صادق حاصل کو بیدار کرنے کے بعد چاروں نے پاکستان کے درندہ صفت فوج سے آپنے زندگیوں کو بچانے کیلئے گاؤں کے قریبی پہاڑوں کی جانب چلنے لگے جیسے ہی انہوں نے پہاڑوں کی جانب رُخ کیا تو دیکھا سامنے والی پہاڑ پر دو فوجی اہلکار کھڑے تھے۔
مجید اور حاصل کو آواز دیکر رکنے کو کہا وہ نہیں رُکے انہیں پتہ تھا پاکستانی فوج کے ہاتھوں جو بھی بلوچ نوجوان گرفتار ہوئے ہیں، اُن میں سے بہت کم واپس لوٹ آئے ہیں اکثریت مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس آئے ہیں۔
نہ رکنے کی صورت میں دونوں کی اوپر گولیاں برسا کر دونوں کو
مادر وطن کی دلبند میں ابدی نیند سُلا دیا گیا ـ
صادق اور شاکر دوسرے ندی میں داخل ہورہے تھے اُن دونوں کو ایک فوجی گاڑی نے مشین گن سے فائرنگ کرکے شہید کردیا اور شہیدوں کی مبارک لاشوں کو تین دن بعد انتہائی بے حرمتی کرکے اہلخانہ کی حوالے کردیا ـ
یاد رہے شہید شاکر شاد اور حاصل دونوں بھائی تھے، ایک مہینے پہلے دونوں کی شادی ہوئی تھی۔ ایک مہینے بعد دونوں خالقِ حقیقی سے جاملے ـ صادق جان و مجید عاجز بھی شہید شاکر شاد کی فیملی سے تعلق رکھتے تھے ـ