انسانیت کے دعویداروں کے نام – سنگت بابل بلوچ

297

انسانیت کے دعویداروں کے نام

تحریر: سنگت بابل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تمام مخلوقات میں سے انسان ایک ایسی مخلوق ہے، جسے سب سے زیادہ صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔ ان میں سے ایک صلاحیت ہے سوچنا، جس طرح انسان پیدائش کے بعد سن بلوغت، پھر جوانی پھر بڑھاپا اور پھر آخر مرجاتا ہے یعنی فنا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چرند پرند، حشرات العرض، جانور، درندے وغیرہ تمام حیوانات بھی اپنے مراحل سے گذر کر آخرکار فنا ہوجاتے ہیں، لیکن حیوانات کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ غلط اور صحیح کیا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے اندر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اگر انسان بھی غلط اور صحیح کا فیصلہ نہ کر سکے، تو انسان اور حیوان میں کیا فرق باقی رہے گا؟

دنیا میں کئی چیزوں پر انسان کو اختیار حاصل ہے، کئی ایسے اعمال ہیں جو انسان کے مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے، ان میں سے ایک چیز ووٹ بھی ہے۔ آپ اگر نہ چاہیں تو آپ سے زبردستی ووٹ کوئی حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ ووٹ ڈالنا آپ کے اختیار میں ہے کوئی کچھ بھی کرے لیکن پولنگ بوتھ کے پاس پہنچ کر آپ اپنے مرضی کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جمہوری نظام میں ووٹ کے بغیر کوئی اقتدار حاصل نہیں کرسکتا، کیونکہ ووٹ لینے والا جسے آپ ووٹ دیکر اقتدار دیتے ہیں، وہ چاہے کوئی حکومت ہو یا کوئی پارٹی ہو، آپ کا کارکن یعنی کام کرنے والا نوکر کہلاتا ہے اور آپ جو اسے ووٹ دیتے ہیں، اس کے مالک کہلاتے ہیں۔ اب آپ نے جسے اکثریت میں ووٹ دیا اور اپنا نمائندہ نوکر منتخب کیا، تو اب وہ اس اختیار کو جو آپ نے اسے دیا ہے۔ آپ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا پابند ہے، آپ چاہے اس سے اپنے ضرورت کے مطابق کام لیں، اس کی زمہ داری ہے کہ وہ آپ کے پاس بار بار آئے اور پوچھے کہ مجھے کیا کام کرنا ہے۔ جس طرح باقی معاملات میں نوکر مالک سے پوچھتا ہے اور اگر وہ کوئی غلط کام کرے، تو یہ آپ پر فرض بنتا ہے کہ آپ اسے روکیں، کیونکہ اگر وہ کوئی غلط کام یعنی کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نا انصافی کرپشن، جھوٹ، قتل، دہشت گردی، حق تلفی وغیرہ کوئی بھی غلط کام کرے، تو آپ اس کے اس برائی میں برابر کے شریک ہیں، کیونکہ جس اقتدار و پاور کو استعمال کرکے وہ یہ ساری برائیاں کرتا ہے، وہ اقتدار اسے آپ کے ووٹ سے ملا ہے۔ ایک ووٹ بھی جیتنے اور ہارنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

اس لیئے ووٹ دینے سے پہلے ذرہ سوچیں کہ آپ جسے ووٹ دے رہے ہیں، وہ ان کاموں کو سرانجام دے، جس میں لوگوں کی بھلائی ہو۔ کیونکہ آپ انسان ہیں اگر آپ یہ نہیں سوچیں گے تو پھر آپ انسانیت کے دائرے میں نہیں آتے، پھر آپ میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ حیوانات کو تعلیم، روزگار، بجلی، گیس، مکان وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی اگر آپ انسان ہیں تو سوچیں کہ ایسے لوگوں کو ووٹ دینا چاہیئے جو برائی کو روک نہ سکیں اور بھلائی کر نہ سکیں۔ لوگوں کے مسائل کو حل کروا نہ سکیں، اگر ووٹ دیکر آپ برائی میں شریک ہوتے ہیں، تو بہتر ہے کہ ووٹ ہی نہ دیں۔

اکثر لوگ ووٹ دینے کے بعد حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ گالی ایک سماجی برائی ہے کیونکہ گالی سے انسان کی اپنی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ ذرا سوچو! کیا اس کو گالی دینا مناسب ہے؟ تو پھر آپ خود کو گالی کیوں نہیں دیتے، اسے ووٹ دے کر تو آپ ہی لائے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ دینا فرض ہے، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا ووٹ جو آپ کو اس برائی میں شریک کرے، جو آپ نے کی ہی نہیں، کیا اس چیز کو آپ فرض سمجھتے ہیں، جو آپ کو مجرم بنا دے؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اس جرم میں شریک رہیں، تو آپ بحثیتِ مجرم بن کر شریک ہو سکتے ہیں۔ ایک غلام کی اوقات ہی ہے کہ مالک اسے جو بھی بولے وہ کرتا ہے، کیونکہ وہ ایک غلام ہے۔

جنہیں اپنی سرزمین کا فکر ہوتا ہے اور وہ غلامی کے خلاف کمربستہ ہو کر جدوجہد کرتے ہیں، خیر ہم آتے ہیں اپنے عنوان کی طرف، جتنی بھی پارٹیاں ہیں، سب کے سب آپ کو صرف بیوقوف بنانے کے لیئے آپ کے ہمدرد بننے کی دکھاوا کرتے ہیں۔
آج ہر ایک ذی شعور انسان اس بات سے انکاری نہیں کہ جو بھی پارٹی الیکشن جیتتا ہے، دوبارہ عوام کے پاس نہیں آتا کیونکہ انہیں صرف ووٹ سے مطلب ہوتا ہے۔ اور یہ جو مولوی صاحبان ہیں، اسلام کے فلسفے کو ماننے والے ہیں، خود کو بھی جمہوریت پسند کہتے ہیں، کیا جمہوریت میں غیر مسلموں کو مارنا یا برا بھلا کہنا جائز ہے؟ غیر مسلم تو اپنی جگہ یہ لوگ شہداء کو بھی سب سے گندی گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ کھبی کافر تو کھبی مشرک کہہ کر پکارتے ہیں۔

مظلوموں کا قتل عام کیا جائے یا عورتوں کو گھروں میں گھس کر بے پردہ کیا جائے یا تین چھ سال کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے دہشت گرد دکھایا جائے، استادوں، پروفیسروں، استانیوں اور ڈاکٹروں کو لاپتہ کیا جائے یا گولیوں سے چھلنی کرکے لاشوں کو پھینک دیا جائے، کسی سیاستدان، لیڈر، مولوی کے منہ سے اف تک نہیں نکلتا کیونکہ ان کو تو مطلب ہے کرسی کی جس کی وجہ سے وہ عیاشیاں کر سکیں، تو اب اگر آپ ووٹ دینا جائز سمجھتے ہیں، تو پھر سطورِ بالا میں لکھے ہوئے تمام برائیوں کو بھی جائز سمجھتے ہو، اتنی ظلم و زیادتی کرکے آپ خود کو بری الزمہ کیسے سمجھتے ہو، میرا مطلب ہے کہ آپ تمام برائیوں کی حمایت کرتے ہو، ووٹ کی شکل۔ پھر براہے مہربانی رونا دھونا اور گالیاں بکنا چھوڑ دو۔