واشنگٹن میں سندھی ایسوسیئیشن آف نارتھ آمریکا (سانا) کے انفارمیشن سیکرٹری ذاکر بلو نے میڈیا میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے سانا کی جانب سے سندھ میں گذشتہ کئی عرصے سے جاری قوم پرست کارکنوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور صحافیوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے خلاف امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہال کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں امریکا کی مختلف ریاستوں سمیت کینیڈا اور سندھ سمیت مختلف ممالک سے آئے ہوئے سندھیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرے میں شریک سندھی رہنماوں نے مختلف پلے کارڈز اور بینر اٹھائے ہوئے تھے جن پہ گم شدہ افراد کی بازیابی، پاکستان کے آئین اور قانون پر عمل درآمد اور انسانی حقوق کی پاسداری کے نعرے تحریر تھے۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سانا کی مرکزی صدر محمد علی مہر نے کہا کہ وہ سندھ میں جاری انسانی حقوق کی پامالی، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور آج اسی حوالے سے سانا کے سیکڑوں ممبران کے ہمراہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ گمشدہ سندھی کارکنان کی بازیابی کے لئے جاری تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ جب تک ان کے پیارے اپنے گھروں میں واپس نہیں آجاتے سانا ہر موقع پر ان کی شانہ بشانہ چلے گی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے محمد علی مہر نے کہا کہ اگر کسی بندے کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہے تو اسے ظاہر کر کے اس پر ملکی عدالتوں میں کیس چلایا جائے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون ماورائے عدالت قتل یا جبری گمشدگی کی اجازت نہیں دیتا۔ عوام کے جان اور مال کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہٰذہ پاکستان کی حکومت اور ریاستی اداروں کو چاہیئے کے وہ پاکستان کے آئین اور قانون پہ عمل کرتے ہوئے بلا تاخیر جبری گمشدہ لوگوں کو ظاہر کریں بدیگر صورت وہ احتجاج کا دائرہ وسیع کر سکتے ہیں۔ اس
جبکہ اس موقع پہ سانا کے دیگر رہنماء اور شرکاء عزیز ناریجو، اعجاز ترک، ڈاکٹر مظہر لاکو، ارشاد عباسی، ذاکر بُلو، صفدر سرکی, فريد بهڻو، نورالنساء گھانگھرو اور دیگر رہنماوں بھی نے خطاب کیا۔