لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3115 دن ہوگئے اور آج مستونگ سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
بی این ایم کے وفد سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں آج کے دنیا کی سب سے بڑی انسانی بحران جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک درد ناک انسانی المیہ ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اقوام متحدہ یا انسانی حقوق کے دعویدار یہاں نظر نہیں آتے ہیں۔ یہاں لوگ مارے اور اُٹھائے جارہے ہیں، انسانیت سوز تشدد کے بعد ان کی مسخ لاشیں گرائی جارہی ہے ہم اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقت سے کہتے ہیں کہ یہاں ایک جینوئن قومی مسئلہ نیشنل اور نیشنلزم کا مسئلہ ہے کہ بلوچ قوم کو غلام اور بلوچ وطن پر پاکستان نے تمام انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے قبضہ کرلیا ہے، کیا دنیا اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ بلوچ نہ پاکستان میں کسی رجیم تبدیلی کے متمنی ہیں اور نہ ہی اس سے سروکار رکھتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور اقوام عالم کی خاموشی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو دوغلاپن اور دوہرا معیار ہے یہ بلوچ قوم کے لیے کافی تکلیف دہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا میں قذافی رجیم کے خلاف بغاوت کے شروع میں صرف چودہ آدمی مارے گئے تھے کہ عالمی قوتوں نے اسے انسانی المیہ قرار دیا اُدھر باغیوں کو چالیس ہزار ٹن اسلحہ و بارود فرانس نے فراہم کیا اور امریکہ اور نیٹو نے آ کر باغیوں کی کمک کی لیکن بلوچستان میں ہزاروں لوگ لاپتہ ہزاروں شہید اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں، گھروں سے بے گھر ہیں یہاں پر کوئی مذمت کرنے والا ہے اور نہ ہی سلامتی کونسل میں قرار داد پاس کرنے والا۔