مشرقی افغانستان میں بدھ کے روز انتہائی مسلح دو خودکش بم حملہ آوروں نے محکمہٴ تعلیم کے دفتر پرحملہ کیا، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ مشرقی صوبہٴ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد کی ایک عمارت کے اندر نامعلوم حملہ آوروں نے عملے پر بلا امتیاز شدید گولیاں چلائیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، عطااللہ خوگیانی نے کہ حملے میں 17 افراد زخمی ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ عمارت کو گھیرے میں لیے جانے کے بعد، افغان سکیورٹی نے فوری طور پر احاطے کی ناکہ بندی کی اور چار گھنٹے کی کارروائی کے بعد 20 افراد کو بازیاب کرایا۔ ابھی تک کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
دوسری جانب امریکی حکومت افغانستان میں اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینے پر غور کر رہی ہے۔ امریکی عہدے داروں نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ یہ جائزہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کی 17 سالہ جنگ میں امریکی شمولیت میں توسیع کے ایک سال بعد کیا جا رہا ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال اگست میں انہوں نے اپنی افغانستان حکمت عملی کے تحت شورش زدہ ملک میں مزید فوجی مشیروں، تربیت کاروں اور سپشل فورسز کے اہل کاروں کی تعداد بڑھائی تھی اور عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے دائرے میں اضافہ کر دیا تھا تاکہ طالبان کو کابل کی حکومت کے ساتھ مذاكرات کی میز پر لانے پر مجبور کیا جا سکے۔
صدر ٹرمپ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کے خلاف تھے لیکن ان کے مشیروں نے انہیں اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ اپنے فوجیوں کو زمینی کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے مزید وسائل اور وقت دیں۔ انہوں نے پچھلے سال فوجیوں میں تین ہزار اضافے کی منظوری دی تھی جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 15 ہزار کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔
نئی حکمت عملی کے تقریباً ایک سال کے بعد افغانستان کی صورت حال جوں کی توں ہے جس کی قیمت عوام کو اپنی جانوں کے بھاری نذرانے کے ساتھ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں طالبان کا کنٹرول اور اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے لیکن وہ بڑے شہری علاقے حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جب کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر بدستور سوالیہ نشان ہیں۔
حالات سے براہ راست آگاہی ر کھنے والے کئی عہدے داروں اور مشیروں کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ابھی تک باضابطہ طور پر جائزے کا حکم نہیں دیا لیکن وہ اگلے چند مہینوں کے دوران و ہ سرکاری سطح پر تفصیلی جائزے کی تیاری کر رہے ہیں۔
عہدے داروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمیں کچھ ایسے اشارے ملے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ اگلے کچھ مہینوں میں جائزہ لینے کے لیے کہہ سکتے ہیں اس لیے ہم تیاری کر رہے ہیں کہ وہاں صورت حال کیا ہے۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جائزے میں موجودہ حکمت عملی سمیت تمام حقائق کی جانچ پڑتال کی جائے گی جن میں یہ معاملات بھی شامل ہوں گے کہ امریکی فوجی موجودگی، طالبان کے ساتھ مذاكرات، اور اب تک ہونے والی پیش رفت بھی شامل ہو گی۔ جائزے میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر بھی غور کیا جائے گا۔ ایک سینیر عہدے دار نے بتایا کہ کئی امریکی عہدے پاکستان پر شورش پسندوں کی مدد کا الزام لگاتے ہیں جب کہ پاکستان اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
امریکی قیادت کی فورسز نے 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا کیونکہ انہوں نے القاعدہ کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی۔
یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہے جس میں اب تک تقریباً 1900 امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ افغانستان میں کرپشن اور بدعنوانی اپنے عروج پر ہے اور ملک کی سیکیورٹی بدستور کمزور ہے۔
حال ہی میں ایک امریکی نگران ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغان حکومت کے کنٹرول اور دائرہ اثر میں ملک کا صرف 56 فی صد علاقہ ہے جب کہ باقی ماندہ حصوں پر طالبان قابض ہیں یا ان کا اثر ہے۔
سرکاری عہدے داروں نے روئیٹرز کو اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ صدر ٹرمپ افغانستان کی صورت حال میں بہتری نہ آنے پر سوال اٹھا چکے ہیں۔ اور وہ کئی بار یہ پوچھ چکے ہیں کہ ہم نے افغانستان میں کیا پیش رفت کی ہے۔ اور ہم وہاں 2001 کے بعد سے کتنا کچھ خرچ کر چکے ہیں۔
ایک امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ صدر افغانستان کے حالات میں بہتری نہ آنے پر مایوس ہیں اور یہ پوچھ رہے کہ اتنی سرمایہ کے بدلے میں ہم نے وہاں کیا حاصل کیا ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر کے جنوبی ایشائی أمور کے ایک ماہر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ انتظامیہ، ریویو کے بعد لازماً یہ کہے گی کہ زمینی صورت حال میں بہتری نہیں آئی ہے، اس لیے وہاں رکنے کا مقصد کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے پیر کے روز افغانستان کا اچانک دورہ کیا جس کا پہلے سے اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور طالبان سے مذاكرات پر بات کی ۔ انہوں نے امریکہ کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امریکہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں ان کی حمایت کرتا رہے گا۔
دریں اثناءافغانستان میں امن کو فروغ دینے سے متعلق اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او آئی سی کا دو روزہ بین الاقوامی اجلاس آج منگل کے روز جدہ میں شروع ہو گیا ہے جس میں دنیا بھر کے 57 مسلم ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس کا اہتمام سعودی عرب میں قائم اسلامی تعاون کی تنظیم نے کیا ہے۔
اس کانفرنس میں اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والے علماء اور سینئر مذہبی دانشور شرکت کر رہے ہیں۔ اس دو روزہ اجلاس میں افغانستان میں امن و استحکام کے حصول میں مدد دینے کے طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ مزاکرات پر زور دیا ہے۔ لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغان حکومت کے بجائے براہ راست امریکہ سے بات چیت کے خواہاں ہیں جس نے بقول اُس کے 2011 میں افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا ۔
تاہم افغانستان کے سیاسی ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس کانفرنس کے دوران دنیا بھر کے علماء اور مذہبی دنشور افغانستان میں جاری لڑائی اور بدامنی کے خلاف سخت مؤقف اختیا ر کریں گے جس کے باعث طالبان کیلئے افغانستان میں حملے جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
افغانستان سینیٹ کے رکن محمد عالم عزت یار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ جدہ کانفرنس میں علما طالبان اور دیگر جہادی گروپوں کے حملوں اور تشدد کو خلاف قانون قرار دیں گے جس سے افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں مدد ملے گی۔