استعارے اور تشبہیہات – برزکوہی

461

استعارے اور تشبہیہات

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

جان سی میکسویل اپنی کتاب Five Level of Leadership میں لکھتا ہےکہ “قیادت کی پانچ اقسام ہیں۔ ان میں سب سے بہترین لیول”متاثرکن” قیادت ہے۔ متاثر کن قیادت کا مطلب، لوگ قائد سے متاثر ہوں۔ اگر شخصیت متاثر کن ہوتوپھرلوگ پیچھے بھی آتےہیں اورپیروی بھی کرتے ہیں۔ متاثرکن قیادت پراثر شخصیت سے بنتی ہے۔”

پراثرشخصیت ظاہری الفاظ کی حد تک اور صرف چند جملے استعمال کرنے کی حد تک تو سہل ہے لیکن سمجھنے کیلئے وسیع علم اور بننے کیلئے لامحدود قربانی، محنت، مشقت، ایمانداری، بےغرضی، باکردار پاکیزگی اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔

دراصل انسان کو صرف اور صرف اس کی سوچ، متاثرکن اور پر اثر شخصیت کے لبادے میں اوڑھتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سوچ کیا ہے؟ اس سوچ کی معیار کیا ہے، جو انسان کو متاثر کن اور پر اثر شخصیت بنا سکتا؟ پھر دوسرا اہم اور قابل غوروہ سوال، جو ہمیشہ میرے کند ذہن کو ہتھوڑے مار مار کر اذیت میں مبتلا کردیتا ہے کہ کسی بھی متاثر کن اور پراثر شخصیت سے اثر انداز یا متاثر ہونے والے اس کے پیروکار، پرستار، مرید اور چاہنے والوں کی خود کی مردم شناسی آگہی شعور و علم اور سوچ کا معیار کیا ہے، کہ وہ دوسرے شخص کی شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں؟ یعنی کوئی مجھے اچھا متاثر کن عظیم ہستی قرار دیتا ہے، تو پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کہنے والے یا سمجھنے والے خود اچھائی اور عظیم جیسے لفظوں کی علمی و فلسفیانہ سچائیوں سے کس حد تک بلد ہیں؟ مثلاً اگر کوئی الو کو باز کہے یا سمجھے تو الو باز نہیں بن سکتا بلکہ کہنے اور سمجھنے والے کی سوچ و علم شعور اور ادراک کمزور ہے۔ یا پھر سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اکثریت اپنی ذاتی و مادی مفادات، حرص و لالچ، خودغرضی، مجبوری، تابعداری اور خوف کی وجہ سے الو کو باز ثابت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، یعنی بزور قوت جھوٹ و فریب، منافقت اور لفظوں کی ہیرا پھیری سے الو کو باز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر علم شعور اور سوچ کمزور ہو، کمزوری کی وجہ سے بندہ اندھےپن کا شکار ہو، تو پھر اس کیلئے الو کو باز کہنے، بلی کو شیر سمجھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔

اگر سمجھنے کے باوجود معمولی یا غیر معمولی مفادات و غرض کی ہوس، سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود وہ جو کچھ کہے،اگر وہ صرف کچھ دیر کیلئے ٹھنڈے دماغ سے غور کرے اور اپنے ضمیر کی آواز سننے اور ضمیر سے سوال کرے تو اس کو کیا جواب ملے گا؟ کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ کل کو آنے والی نسل کو اور تاریخ کے سبق آموز صفحات کو کیا جواب دوں گا؟ تو پھر انسان کبھی بھی اصل حقیقت اور سچائی کو جھٹلا کر اپنے اور دوسروں کے ساتھ دغابازی و فریب نہیں کرے گا بلکہ مبالغہ آرائی اور مفروضات بازی سے ہمیشہ گریز کرے گا، اگر سچائی کو بیان کرنے کی جرت و ہمت نہیں کرے گا، پھر کم از کم سچائی کو مسخ بھی نہیں کرے گا۔

مثال کے طور پر، اگر مجھے کوئی انسان کہے کہ پہلے کیا وہ خود انسان ہیں؟ وہ انسان، انسانیت اور انسانی صفات سے پوری طرح واقف ہے؟ یا پھر جانور ہے؟ اگر جانور کسی کو انسان کہے، تو حیرت ہونا چاہیئے خوش نہیں۔ اگر کوئی انسان ہی کسی کو انسان کہے تو وہ سمجھ جائے میں انسان ہوں۔

ایک پسماندہ ذہن اور جاہلانہ ذہن کسی کو عالم و اسکالر سمجھے وہ عالم نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ خود پسماندہ اور جاہل ہے، اس کیلئے چند خوبصورت باتیں بھی علم و دانش کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بزدل اور خوف کا شکار انسان کسی کو بہادر کہے وہ مکمل بہادر نہیں ہوتا کیونکہ بزدل خود ڈر کے مارے دوسرے میں تھوڑی ہمت دیکھ کر اس کو بہادر کہتا ہے، لیکن بہادری کی علمی، دنیاوی معیار اور آخری حد کیا وہ نہیں جانتا ہے، اس کو بہادری کا اصل معیار سے واقفیت نہیں تو پھر اس کی رائے بھی مستند نہیں ہے، اس پر خوش ہونے کی ضروت نہیں۔

کوئی کسی کی نقطہ نظر میں سیاستدان اور فلاسفر ہے تو کیا نقطہ نظر رکھنے والے خود علم سیاست اور علم فلسفہ سے کس حدتک باعلم اور باشعور ہے؟

میرے کہنے کا اور دوسروں کو اپنے بساط کے مطابق سمجھانے کا اہم مقصد، علم نفسیات میں استعارے اور تشبیہات کا جو انسانی ذہن پر اثرات ہوتے ہیں، وہ بیان کرنا ہے۔ ان کو ہم کیوں غلط استعمال کرتے ہیں؟ یہ ہمارے اور دوسروں کے ذہنوں پر بڑی بے دردی سے اثر انداذ ہوتے ہیں، پھر ہمارے شعور کے حصے اور عقائد بنتے ہیں اور ہم ان سے زندگی بھر چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے ہیں۔ ہم شعوری یا لاشعوری اور اپنی ذاتی مفادات کی عیوض، ہمیشہ وہ استعارے اور تشبیہات زبان پر لاتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں، جو صدیوں تک ہمارے نسل درنسل کے ذہنوں پر نقش ہوتے ہیں، مثلاً سب کچھ ہمارے قسمت میں لکھا ہے۔

ہماری بدقسمتی، تمام مصبتیں، غلامی، تکلیف خدا کے طرف سے ہیں، بس اللہ خیر کریگا تحریک میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ انسان سے غلطی ہوتا ہے، تحریک کمزور ہوتے ہیں، ناکام ہوتے ہیں۔ سب کچھ لیڈروں کے ہاتھ میں ہے، وہ جو کریں، ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم بے اختیار اور بے بس ہیں، اب لیڈر کون لیڈر کا معیار کیا؟ کس نے کس کو لیڈر بنایا ہے، بنانے والوں کے سوچ کا معیار؟ لیڈر کیسے بنتے ہیں، کب بنتے ہیں دوسرا بس ہمارا قبائلی سماج ہے، اس طرح ضرور ہوتا ہے، ہم اناپرست ضدی قوم ہیں۔ یہ ہماری فطرت ہے، ہمارے لوگ کٹر مذہبی ہے اور روایات پسند ہیں، ہم لیڈروں کے بغیر کچھ نہیں، بس وہ بہتر جانتے ہیں، ہم کچھ نہیں۔ بس تحریک میں سب کچھ برداشت کرنا ہے، سیاست میں سب کچھ جائز ہے، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سیاست میں کوئی کسی کا دشمن اور مستقل دوست نہیں ہوتا، نظریاتی رشتوں سے ہٹ کر ذاتی رشتوں کی بھی اہمیت ہے کیسے کیوں ؟ کیا نظریے کا تعلق ذات سے نہیں؟ پھر ذات نظریے سے زیادہ ہے، یا نظریہ ذات سے؟

ہمیشہ ایسے اوٹ پٹانگ، غیر منطقی، غیر فلسفیانہ، غیر سائنسی اور عوامی زبان کے استعارے اور تشبہیات، جو جدوجہد میں جہدکاروں کے ذہن میں اثرانداذ ہوکر ایسے خیالات عقائد اور فرسودہ سوچ کو پروان چڑھا کر انہیں افیونی بنادیتے ہیں، جو پھر اپنے تحقیقی، تخلیقی اور قوت ارادی، صلاحیتوں کو بجائے بروکار لانے، اپنی اصل قومی ذمہ داریوں سے غفلت کا شکار ہو کر تقلید پسند ہوتے ہیں۔

جس طرح کارل مارکس کہتا ہےکہ “مذہب داراصل افیون ہے” بلکہ اسی طرح ایسے استعارے اور تشبہات اور ان کے کوکھ سے جنم لینے والے خیالات اور عقائد افیون سے کم نہیں ہے۔

علم نفسیات کی رو سے آپ بار بار ہر بار کسی بھی بڑے یا بچے کو بھی احمق، بےوقوف، نالائق، بدقسمت اور بدبخت جیسے استعارے سے ہر روذ نوازتے رہے، پھر وہ خود نفسیاتی اور ذہنی حوالے سے ہو بہو اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھ کر کچھ کام کا نہیں رہیگا۔

ہم آج غور کریں لاشعوری یا شعوری، دانستہ یا نادانستہ یا پھر ذاتی و وقتی مفادات کی ہوس میں، ایک پورے نسل کو، خاص طور پرنوجوانوں کو کس طرح غلط بیانی اور جھوٹ کے ذریعے اندھیرے میں جھونک رہے ہیں۔ پاکستان کی دشمنی سے زیادہ خطرناک دشمنی یہ ہے۔ پاکستان تو صرف بلوچوں کو جسمانی حوالے سے مار کر شہید کررہا ہے، جسمانی خاتمے سے سوچ ختم اور مفلوج نہیں ہوگا، لیکن دوسری طرف نوجوانوں کو دھوکے میں رکھ کر ایسے جھوٹ، فریب، سبز باغ، خوش فہمی، لالچ، حرص،خوف، نمود ونمائش، آرام پسندی کی لکڑی کی گھوڑے پر سوار کرکے انہیں کسی ویران صحرا میں چھوڑ کر جہاں تپتی دھوپ کے علاوہ پانی کی ایک بوند، ایک قطرہ نہ ہو، جب انہیں پیاس لگے تو تب ہوش آئے کہ میں کہاں کھڑا ہوں، پھر سارے توقعات ٹوٹ کر مایوسی اور پشیمانی کے سوا کچھ نا بچا ہو۔ پھر کوئی کیا خاک کچھ کریگا، پھر کیا دشمن سے زیادہ خطرناک اور بدترین دشمنی نہیں ہے؟ یعنی سوچوں کو مفلوج بنانا اور قتل کرنا۔

خدارا بلوچ جہدکار، علم سے دوستی کریں، خاص کر علم فلسفہ سے، وہ علم فلسفہ ہی ہے جو انسان کے ذہن میں ہمیشہ سوال، جستجو، بے آرامی اور شک پیدا کرتا ہے۔ بجائے اندھی تقلید اور پیروی کئ اور شک ہر انقلابی کیلئے لازمی ہوتا ہے۔ بغیر شک اندھا دھند بھروسہ، تقلید پیروی اور دوڑ لگانا، کم ازکم انقلابی کی خصوصیات نہیں بلکہ جانوروں کی خصلت ہے۔

آج بڑے دکھ اور تکلیف سے کہنا پڑرہا ہے کہ کیسے اور کس طرح بلوچ نوجوانوں کو خوش فہمی، جھوٹ و فریب، مرعات، لالچ، غیرضروری، سطحی، مصنوعی، چیزوں میں پھنسا کر رفتہ رفتہ تحریک آزادی سے بیگانہ کیا جارہا ہے۔ جو ایک تاریخی المیہ ہے اور ناقابل نفرت عمل ہے۔

گوکہ کامیابی ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے، اب سچائی خود کیا ہے؟ سچائی کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ سچائی کی پہچان کیا ہے؟ سچائی کو کیسے جانا جاتا ہے کہ وہ سچ ہے؟ کیا دنیا میں اصل سچائی موجود ہے؟ اگر ہے تو کہاں پر ہے؟ اور کیوں ہے؟ سوچنا چاہیئے، غور کرنا چاہیئے، اپنے اندر جھانک کر غور کرنا چاہیئے میں شعوری یا لاشعوری طور پر غلط ہاتھوں میں استعمال، غلط جانب سفر تو نہیں کررہا ہوں، سوچنا چاہیئے، بار بار سوچنا چاہیئے، یہ سوچنا اور غور کرنا اس وقت ہوگا، جب انسان علم سے مسلح ہوگا، نہیں تو انسان جانور ہے، جانور اور انسان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ انسان سوچتا ہے اور غور کرتا ہے، اپنے آپ کو پہچانتا ہے، دوسروں کو پہچانتا ہے، یہی فرق انسان کو جانور سے ممتاز کرتا ہے۔

ہمیں بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں انسان بننا چاہیئے، تب جاکر ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے جہد کو پایہ تکیمل تک پہنچا دینگے۔

فریڈرک اینگز لکھتے ہیں “فرانس کے بڑے فلسفیوں نے جو لوگوں کے ذہن کو آنے والے انقلاب کے لیے تیار کررہے تھے، خود بھی انتہائی درجہ انقلابی رویے اختیار کئے رکھے، وہ کسی قسم کی خارجی قوت کے قائل نہیں تھے، مذہب، مظاہر قدرت کے تصورات، سوسائٹی، سیاسی نظام، غرض یہ کہ ہر چیز ان کی بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ ان کے نزدیک ہر چیز کیلئے ضروری تھا کہ وہ اپنے ہستی کو عقل کی میزان میں ثابت کریں یا پھر اپنی ہستی کے تمام دعووں سے دست بردار ہوجائیں۔”

انقلاب کیلے لوگوں کو تیار کرنا اور خود بھی انتہائی انقلابی رویہ اپنانا، ابھی ہم جائزہ لیں بلوچ عوام کو مزید اگر انقلاب کیلئے تیار کرنا ہے اور تحریک سے عملاً وابستہ کرنا ہے، تو تیار کرنے والوں کا انقلابی رویہ کیسا و کس طرح ہے؟ ان کی اپنی نظر میں انقلاب اور انقلابی کا کیا معیار کیا ہے؟ کیسے اور کس بنیاد پر کن کن چیزوں پر لوگوں کو انقلاب کیلئے تیار کیا جاسکتا ہے؟

بات واپس وہیں پر آکر رک جاتی ہے کہ لوگوں کی ذہنی و فکری تربیت، اس سے بغیر کسی تحریک کی کامیابی ناممکن ہے، اب ذہنی تربیت کون کریگا اور کیسے کریگا؟ غلط بیانیوں پر مبالغہ آرائیوں پر، سبز باغ دکھانے پر، لالچ فراہم کرنے پر، جھوٹی تسلیاں دینے پر، جذباتی لگاو پر، وغیرہ وغیرہ یہ تمام کے تمام حقیقی تربیت کے برعکس وقتی طور لوگوں کو تحریک کا ساتھ وابستگی کے حربے ہیں، جو وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں اور لاحاصل ہیں۔

کم سے کم ہر جہدکار ہر خیال استعارہ اور تشبیہہ زبان پر لاتے یا استعمال کرتے ہوئے کئی بار سوچے سمجھے کیونکہ ان کے دورس اثرات ضرور ہونگے مثبت یا منفی پھر یہ تمام اثرات مجموعی طور پر تحریک پر اثر انداز ہونگے۔