استاد نے سرمچاری کا حق اداکردیا – سمیر جیئند بلوچ

770

استاد نے سرمچاری کا حق اداکردیا

تحریر: سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

استاد جنگی من گشت مرو کولواہ تو گشت “واجہ من بابارا یلہ نہ دئیں‘‘ تئی دپا ہمے گپ سرجمی ء در نئے اتکگ ات کہ بابا در ائیت کندت ءُ گشت ’’استاد منی ھاسیں مردم انت من بے استاد ءِ نباں ‘‘ راستاں بابا نئے تو بے استاد ءَ بوتے نئے استاد بے تئی ء دوئیں ہمراہی ءَ شُت ءِ۔‘‘

یہ پیرا گراف پڑھ کر انسان کے دل میں گَرو پیدا ہوتا ہے کہ سرمچارواقعی چیز ایسی ہی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ جب پندرہ جولائی کو ناپاک فوج اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کرائے کے دلال جب بلوچ فرزندوں کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے ہیں، تو دشمن کی ایک گولی شہید بابا کو زخمی کرتا ہے، تو اس موقع پر کچھ فاصلے پر دوسرے بلوچ سرمچار سینہ تان کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں کہ کسی طرح زخمی کو دشمن کے گھیراؤ سے نکال کر اسے کسی محفوظ ٹھکانے لے چلتے ہیں۔ اس دوران تقریباً دو گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے، اور دوسرے کامریڈ استاد شہید جنگیان عرف استاد جعفراور شہید واحد عرف تلاکر کو آواز دیتے ہیں کہ آپ محفوظ ٹھکانے کی طرف نکال جائیں، مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ بابا خیربخش ناز شہیداور پٹھان عرف ساربان شہیدہوچکے ہیں، تو وہ مورچہ بند ہوکر دشمن پر گولیوں کی بارش شروع کردیتے ہیں اور میدان چھوڑنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس دوران دشمن کے کرائے کے ٹٹوں کو وہ سبق سکھاتے ہیں کہ ان کی روحیں بھی کانپ اٹھتی ہیں کہ وطن کے حقیقی جیالوں سے اپنا جان کیسے چھڑائیں، بلآخر کئی فوجی جہنم واصل ہوتے ہیں، تا وقتیکہ انکی جان میں جان باقی ہوتی ہے وہ مقابلہ کرتے رہتے ہیں اوربلآخر یہ قومی ہیرو ان شہیدوں کے پہلو میں جان دے دیتے ہیں۔

مختصراً استاد کے ماضی کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کی عام زندگی میں حالات کیاتھے اور کیسے دھرتی ماں کے عشق میں شہادت کا رتبہ پایا۔ استاد جنگیان کولواہ کلی گندہ چاہی کے ایک زمیندار اور کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، وہ عام جاگیر داروں سے ہٹ کر ایک کامریڈ کی زندگی اپناتے ہیں، اپنے زمینوں میں ہاریوں کے ساتھ مل کر بیلوں پر ہل چلانے سے لیکر ٹریکٹر کے آنے تک ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ جب ٹیوب ویل اور مشین کا دور شروع ہوجاتا ہے، تو وہ اپنا ذاتی ٹریکٹر خود ڈرائیو کرکے اپنے زرعی اراضیوں میں کام کرتے ہیں، اس دوران وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لیتے ہیں، اور جمکر سیاست کرتے ہیں۔

انکے سرگرمیوں کی سبب انکا گھر سیاست کا منبہ بن جاتا ہے، جب آواران، تیرتیج اور مشکے سے فوج کے ہاتھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں تو یہاں آکر رہنے لگتے ہیں، بلآخر انکا گھر ایک لنگر خانے میں بدل جاتاہے، سرفیس سیاست ،کے سیاسی رہنما یا ورکرزہوں یا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنازیشن کے رہنما کارکن، حتیٰ کہ بی ایل ایف کے سرمچار بھی، یہاں کافی وقت تک ڈیرہ جماتے ہیں۔ مگر سلام اس مرد مجاہد کو کہ ایک دن اس نے کہا ہو کہ یہ سب کچھ میں برداشت نہیں کر سکتا، جو گھر میں مہمان تھے یا سیکورٹی کی باعث آس پاس محفوظ ٹھکانوں پر تھے، وقت پر انکا چائے پانی انکو وہاں پہنچ جاتا تھا۔ کسی جہد کار یا سیاسی دوست کو غم نہ تھا کہ اب کھانا کھایا تو شام کا کیابنے گا، کسی کو خیال نہ تھا۔

کھانے سے لیکر ہر کسی کے میلے کچلے کپڑے گھنٹوں کے اندر اندر استری شدہ جہاں ڈیرہ تھا وہیں پہنچائے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ اگست ۲۰۱۷ء میں تب ٹوٹا جب فوج نے علاقے میں آکر ڈیرہ جماکر ہر روز آپریشن شروع کردی۔ پھر انہوں نے گھر کو خدا حافظ کہہ کر باقاعدہ بندوق اٹھالیا اورشہید بابا خیر بخش ناز کی ہمراہ داری میں انکے ساتھ بی ایل ایف کے کیمپ شفٹ ہوئے، وہاں بھی پارٹی پر بوجھ بننے کے بجائے اسنے دوستوں کیساتھ مل کر بعض اوقات انکا بوجھ اٹھایا۔ بلآخر یہیں رہ کر جام شہادت نوش کی۔

کیمپ میں یا دورانِ سفر ہر وقت وہ بابا کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہتے تھے۔ جس طرح شروع میں کسی کامریڈ نے انکے بارے میں اپنے ارمانوں کا مداوا یوں لکھا تھاکہ “استاد کولواہ مت جائیں” مگر استاد نے کہاکہ’’ میں بابا کو چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ بابا نے اس موقع پر کہاکہ ’’ استاد میرا خاص دوست ہے، اس کے بغیر میں نہیں رہ سکتا‘‘۔

راقم استاد جنگیان کی مہربانہ پن اور خلوص اپنی آنکھوں سے انکی رفاقت میں چھ ماہ کے قلیل مدت میں رہ کر دیکھا تھا، وہ واقعی لاجواب تھے۔ وہ انتاہی عبادت گذار تھے، پانچ وقت کی عبادت، وہ کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔ وہ عبادت کے دوران اکثر امامت خود کرتے تھے۔ حالانکہ وہ عمر کے لحاظ سے دوسرے تمام ساتھیوں سے بڑے تھے، مگر کام میں اور دوسرے قومی فرائض میں سب سے اپنے آپ کو چھوٹے تصور کرتے تھے۔

وہ سردی یا گرمیوں میں ہر وقت صبح چار بجے اٹھ کر عبادت کے بعد تمام دوستوں کے لیئے چائے پکاتے تھے، اس کے بعد سب کو اپنے شفیق لہجے میں جگاکر چائے پر بلاتے، اس کے علاوہ کھانا پکانے کے دوران بھی ہر ایک دوست کے لنگری میں ساتھ کام کررہے ہوتے تھے، گویا انکا ہر وقت لنگری ہی لنگری تھا، چاہے کیمپ ہوتا یا گشت، انتہائی تکلیف دہ سفر میں بھی وہ وہاں بیچ راہ میں بھی کھانے کا انتظام سب سے پہلے اٹھ کر خود شروع کردیتے تھے۔ انتہائی ملنسار تھے، کبھی بھی کسی دوست نے ان کے پیشانی پر شکن نہیں دیکھا، نہ کسی سے اسے شکایت تھی۔ بس مست مولا تھے، یہی تو انکا نرالا پن تھاکہ کسی غمخوار نے انکے لیئے یہ لکھا کہ میں نے کہاکہ کولواہ نہیں جاؤ یعنی میرے ساتھ رہو۔ وگرنہ ہم جیسا نرغول ہوتاتو وہ کامریڈ یقیناًبحیثیت بلوچ ہمیں نہیں بھگاتا، مگر یہ یقین تھاکہ جانے پر روکتا بھی نہیں، نہ ایسا آفر دیتا کیونکہ ان جیسا فرشتہ صفت انسان سے ہی متاثر ہوا ہوگا، تب ہی تو اس کامریڈ نے ماں جیسی ہمدردی کا برتاو کیا تھا۔

راقم کو یاد ہے، جب بھی سیاست اورسرمچاروں کی ذمہ داریوں بابت بات ہوتی، استاد کہتے واجہ بس دعاکریں اللہ ہمیں لاچار بے وس بلوچ قوم کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچائے، کہیں ہم سے ایسی خطا ارادی یا غیر ارادی نہ ہوکہ انکا دل بلوچ جہد آزادی سے ٹوٹ جائے یا انکا جہد کاروں سے بھروسہ اٹھ جائے۔ ان کا یہ دعا رنگ لایا وہ دھرتی ماں اور قوم اور جہد کاروں کے سامنے سر بلند ہوکر امر ہوئے اور سرمچاروں کا بھی سر فخر سے اونچا کرگئے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے ہمسفر کس نام سے اپنا نام تاریخ میں رقم کرتے ہیں کیونکہ انہیں وہ اپنی بقیہ ذمہ داریاں بطور امانت دیکر چلا گیا۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں سرمچار یا دوسرے سیاسی کھلاڑی استاد جنگیان کے نام سے تاریخ میں جگہ پاتے ہیں یا فلانی آج ماں کی چادر روند کر قابض فوج کی چوکی پہنچ کر بلوچی غیرت اور اپنے آپ کو انکے گودمیں گراکر آئندہ کیلئے غلام بننے کا قسم اٹھاتے ہیں اور سرمچار جس راہ سے گذریں وہ اس راہ کی طرف آنکھیں اٹھاکر نہیں دیکھیں گے، اور جب قابض ریاست نے کسی بلوچ ماں بہن کے عزت کے ساتھ کھلواڑ کیا، تب بھی وہ آنکھیں جھکاکر بت بنیں گے۔ تاہم اگر قابض ریاست کو جب بھی کوئی نیچی اور گری ہوئی حرکت کرنی ہوئی، تو وہ شانہ بشانہ ریموٹ بن کر کام کریگا، جس طرح قدوس بزنجو او علی حیدر محمد حسنی اپنا ضمیربیچ کر ووٹ کیلئے بلوچ کا خون بہا رہے ہیں۔