اب کی بار کونسا ریاستی مہرہ؟ – برزکوہی

340

اب کی بار کونسا ریاستی مہرہ؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ایک وقت تھا نیشل پارٹی غیر واضح انداز میں یعنی منافقت سے بلوچ قومی جنگ برائے آزادی کی نا صرف مخالفت کرتا تھا، بلکہ آزادی کے جہدوجہد کے خلاف عملی طور پر کام بھی کرتا تھا، لیکن 2013 کے پاکستانی انتخابات کے وقت نیشنل پارٹی نے باقاعدہ خفیہ ایجنڈے یعنی بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچ نسل کشی کے ٹاسک پر معاہدہ کرلیا اور وزارت اعلیٰ و صوبائی حکومت کے حصول کے بدلے نیشنل پارٹی بلوچ قوم اور بلوچ تحریک کے خلاف آخری حد تک سرگرم عمل رہی۔ خفیہ اداروں کی جانب سے صوبائی حکومت کی نوازش کے بعد نیشل پارٹی نے وہ سب کچھ بالرضا تحریک کے خلاف کرکے دکھایا، جو اس پر اداروں نے واجب کیئے تھے۔ مثلاً تحریک کے خلاف ریاستی پروپگینڈے کو آگے بڑھانا، بلوچ فرزندوں خاص کر بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا، پورے بلوچستان میں فوجی آپریشنوں میں فوج کے ساتھ مدد و معاون کرنا اور ریاستی سرنڈر ڈرامے یعنی بلوچ سرمچاروں کی ہتھیار پھینکتے دکھانے کی عکس کاری میں متحرک کردار ادا کیا۔

الغرض،نیشل پارٹی تحریک مخالف ریاستی مشینری کا باقاعدہ حصہ بن کر اپنے حصے داری کا حق ادا کرتا رہا، جس میں نا کوئی دورائے ہے اور نا شک۔ آج تو نیشنل پارٹی خود بھی اظہار کررہا ہے کہ میں نے اپنی بے ایمانی بہت ہی ایمانداری اور نیک نیتی سے سرانجام دیا۔ خاص طور پر گذشتہ دنوں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کیساتھ گفتگو میں ریاست کے اہم مہرے نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو نے برملا اظہار کیا کہ ہم بلوچ آزادی کی جنگ کے پہلے بھی خلاف تھے اور آج بھی خلاف ہیں اور ہم عملاً ان کے سامنے کھڑے ہوکر لڑتے رہے ہیں۔ ہم نے قربانی بھی دیا ہے اور تحریک کو ایک حد تک کمزور بھی کیا اور آج بھی ہم اس آزادی کی جنگ کے دشمن ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حاصل خان و ڈاکٹر مالک اور نیشل پارٹی کے دیگر بندوں کو اپنے ہی اس اصل اعمال اور حقیقت کا برملا اور بار ہا اظہار کرنےکی نوبت اب کیوں پیش آرہی ہے؟

اس وقت نیشنل پارٹی اور پنجابی مقتدرہ قوتوں کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے، پنجابی فوج اور مقتدرہ قوتوں کا ہمیشہ سے ایک مخصوص سوچ، طریقہ کار اور بنیادی وطیرہ رہا ہے کہ مہرہ ہمیشہ ٹشو پیپر کی حثیت رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، اسی طرح بلوچ قوم پرستی کے نام پر شروع سے آج تک نیشنل پارٹی کی تخلیق پرورش اور وجود ایک ریاستی مہرے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے یعنی نیشنل پارٹی محض غلاظت صاف کرنے والا ایک ٹشو پیپر ہی رہا ہے۔

اب ریاست پاکستان اپنے شیوے پر قائم رہتے ہوئے، اس نقطے پر کھڑا ہے کہ ٹشوپیپر ایک بار استعمال ہوتا ہے، پھر اس کی جگہ کوڑا دان ہے، جیب نہیں۔ اگر کبھی دوبارہ ضرورت پڑا بھی تو اسے کوڑے دان سے اٹھا لیں گے۔ نیشنل پارٹی اور اس کی قیادت بضد ہے کہ ہم بحثیت ٹشو اتنا زیادہ ابھی تک گندہ نہیں ہوچکے ہیں، بلوچ سماج اور دنیا کی نظروں میں ابھی بھی قابل استعمال ہوسکتے ہیں، یہی سرد جنگ اس وقت نیشنل پارٹی اور پنجابی مقتدرہ قوتوں کے درمیان چل رہی ہے۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ اگر نیشنل پارٹی اس دفعہ قابل استعمال نہیں ہوگا پھر کون ہوگا؟ زیادہ تر تجزیہ بی این پی مینگل پر ہورہا ہے، قطع نظر ریاستی پارٹی باپ کے، وہ تو باقاعدہ پاکستانی آرمی کی ایک سویلن کور ہے، وہ تو ویسے ہی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کو حکومت حوالے کرنا نہ کرنا ان کا درد سر نہیں، جس طرح خود پاکستان آرمی ہے، مارشال لاء ایوب، ضیاء یا مشرف کی شکل میں حکومت ہو یا حکومت پر قبضے کے بغیر، ان کی پالیسی اور عمل بلوچ قوم کے خلاف ایک ہی ہے۔ باپ سے وابستہ تمام لوگ برائے راست سویلن شکل میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے عہدےدار اور اہلکار ہیں اور بلوچ تحریک کے کٹر مخالف اور دشمن ہیں۔

بی این پی ضرور ایک مہرہ ہے اور 2013 کے انتخابات کے برعکس اس دفعہ بی این پی ریاست کو زیادہ ایمانداری اور استعمال ہونے پر رضامندی کا عندیہ دے رہا ہے اور وعدہ وفاداری کی ہر ممکن کوشش بھی کررہا ہے اور ظاہری زبانی کلامی موقع نہ دینے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دوستانہ دھمکیاں بھی ریاست کو دے رہا ہے۔ “اگر عوامی مینڈیٹ کا چوری ہوا تو خطرناک نتائج برآمد ہونگے” بقول اختر مینگل صاحب۔

کیا ہونگے وہ خطرناک نتائج مینگل صاحب؟ شٹرڈاون پہیہ جام ہڑتالیں یا پہاڑوں پر جاکر مسلح جہدوجہد؟ اگر یہ صرف زبانی کلامی دھمکیاں نہیں تو وہ حمکت عملی اور خطرناک نتائج بھی بلوچ قوم اور دشمن کے سامنے واضح تو کرلیں؟

سردار صاحب اپنی زبان سے یہ بارہا اعتراف کررہا اور کرتا آرہا ہے کہ الیکشن میں چوری اور دھاندلی ہوسکتا ہے، اس کا واضح مطلب خفیہ ادارے نتائج بدل سکتے ہیں، اپنی من پسند الیکشن نتائج سامنےلاسکتےہیں، یہ ممکن ہے، پھر کیا 1998 میں بی این پی کی حکومت بھی خفیہ اداروں کی کارستانی تھی؟ اگر اس دفعہ بی این پی مینگل کو حکومت مل گیا، تو کیا وہ بھی خفیہ اداروں کی مرہون منت ہوگا؟ تو خفیہ ادارے 98 کی طرح اس دفعہ بھی مہربان ہوگئے تو انکے غرض اور توقعات آپ سے کیا ہونگے؟ یہ مینگل صاحب آپ بہتر جانتے ہونگے۔

بی این پی مینگل کے سرپرست اعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی پاکستان اور بلوچ قوم کو ایک توازن کے ساتھ لیکر چلنے والے فارمولے اور پالیسی پر اس وقت بی این پی بھی صحیح طریقے سے اپناتا ہوا آرہا ہے، یعنی خدائی بھی ملے اور وصالِ صنم بھی ہو۔ لیکن اس دفعہ بی این پی پر خدانخواستہ وحی نازل ہوگیا ہے کہ بی این پی کو اقتدار حاصل ہوگا، پھرتو نہ خدائی ملے گی اور نہ ہی وصال صنم ہوگا، بی این پی کا حالت بلوچ سماج میں نیشنل پارٹی سے زیادہ برا ہوگا۔ خفیہ ادارے بی این پی کے منہ پر وہ کالا توا رگڑ دینگے کہ صدیوں تک وہ داغ باقی رہ جائینگے۔

ضرور بی این پی کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد مقتدرہ قوتیں، بلوچستان کی سنگین صورتحال اور تشدد کی لہروں کو شروعات میں کچھ عرصے شاید ملتوی بھی کرلیں، بے گناہ لاپتہ بلوچوں میں سے کچھ کو منظرعام پر لے آئیں، کچھ کو چھوڑنا اور اختر مینگل اینڈ کمپنی کو اسمبلی فورم پر ترند و تیز اظہار خیال کرنے کی اجازت دینا، پھر اگر مزاحمت اپنی تسلسل کے ساتھ جاری رہا، تو جبر کی انتہاء واپس شروع کردینگے۔ اگر بی این پی نے تھوڑی بہت توتو میں میں شروع کردیا، تو بی این پی کی حکومت چند دن کا مہمان ہوگا، پھر کچھ وقت کیلئے بی این پی کے احتحاج اور دھمکی شروع ہونگے، جو واپس جلد سرد مہری کے شکار ہونگے۔

بہرحال بی این پی کے سامنے ایک سخت امتحان ہے، اب بی این پی کے اوپر انحصار کرتا ہے کہ وہ کونسی پالیسی اور حکمت عملی اپنائے گی، باقاعدہ طور پر نیشل پارٹی کی طرح تحریک آزادی اور شہداء کی قربانیوں کی خلاف متحرک ہوگی یا مقتدرہ قوتوں کے پالیسی اور فیصلوں کے برعکس چلے گی؟ اب دو کشتیوں میں سفر الیکشن کے بعد بی این پی کیلئے مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔

بلوچ قوم کی کندھوں پر یہ تمام ذمہ داری اور فرض عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ قومی تحریک، شہداء کے لہو، بلوچ سرزمین اور بلوچ قومی تشخص اور قومی بقاء کی لاج کو قائم رکھتے ہوئے پاکستانی نام نہاد الیکشن سے مکمل بائیکاٹ کریں تاکہ ہر بلوچ ذرہ برابر بھی تاریخ میں اس تاریخی جرم میں مجرم ثابت نہ ہو۔