آج کا پریکٹیکل بلوچ – شہیک بلوچ

260

آج کا پریکٹیکل بلوچ

تحریر : شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لفظ پریکٹیکل کا استعمال کافی ہوتا ہے اور اکثر یہ تاکید کی جاتی ہے کہ پریکٹیکل بن جاو، سادہ سی زبان میں بیگانگی ذات اختیار کرلو، جو کچھ ہورہا ہے تماش بین بن کر دیکھتے جاو، کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں بس پریکٹیکل انسان بن کر کمال مہارت سے راہ فرار اختیار کرلو اور جب کبھی بات کرنے کی نوبت آئے تو الزامات کی ایک فہرست تیار رکھو تاکہ خود کو بری الزمہ ٹہرا سکو۔

انسان اور سماج کے درمیان قائم ربط کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہوئے کسی بھی قسم کے جدوجہد سے خود کو محروم رکھنا اور انفرادی کردار کو لے کر اجتماعی سطح پر تبدیلی کے لیئے کسی بھی کاوش کی مذمت کرنا یہ ایک ذہنیت ہے جسے پریکٹیکل ہونے کا نام دیا جاتا ہے۔

پیدائش سے ہی آج کے گلوبل ویلیج میں ایک پریکٹیکل نفسیات رواج پاچکا ہے، انسان کو ایک بے حس مشین میں تبدیل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ بیگانگی ذات کیساتھ ہی وہ ایک تابعدار غلام یا نام نہاد پریکٹیکل انسان بن سکتا ہے، کیونکہ جب وہ سب کچھ ایک تماش بین کے طور پر دیکھنے کا تہیہ کرلیتا ہے، تب ایسے میں وہ کوئی باکردار انسان نہیں بن سکتا اور اسے تبدیلی سے خوفزدہ کیا جاتا ہے، اس کے ذہن میں تبدیلی کی صورت میں جنم لینے والی آزادی کے فرائض کے متعلق اندیشے ہوتے ہیں لیکن وہ موجودہ حال کی ہولناکیوں کا تجزیہ کرنے سے محروم ہوتا ہے اور یہی موجودہ لمحہ کی بے خبری اسے تابعدار پریکٹیکل بنائے رکھتی ہے۔

ایک سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے کہ جو پریکٹیکل نہیں وہ بیوقوف ہیں، جو اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے، پرخطر راستوں پر چلتے ہیں، خود سے کئی گنا زیادہ طاقتور قوت سے نبردآزما ہیں، یہ پاگل ہیں، ان کو مرنے دو لیکن تم پریکٹیکل رہو اور ان جھنجھٹوں سے خود کو دور رکھو اور ایک تابعدار غلام بن کررہو۔۔۔ لیکن کب تک یہ پریکٹیکل انسان غلامی کی پریکٹس کرتا رہیگا؟

انقلابی رومانویت پسند ضرور ہوتے ہیں، اس سے انکار کس کو نہیں ہے لیکن وہ دوسروں کی نسبت حقیقت کا ادراک بھی زیادہ رکھتے ہیں۔ وہ جب اپنا کردار ادا کرتے ہیں تب ظاہری ناکامی یا کامیابی ان کے آڑے نہیں آتی بلکہ وہ نسلوں کی فکر کرتے ہیں کہ آنے والے نسلوں کے لیے وہ کیا چھوڑ کر جارہے ہیں، وہ آنے والے نسلوں کے لیئے غلامی کی تابعداری کیوں چھوڑ کر جائیں؟ یہ تو آسان کام ہے لیکن آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوگا جبکہ جدوجہد جیسی روشنی ہی آنے والی نسلوں کو تاریکیوں کا لقمہ بنانے سے روک سکتی ہے۔

جان ایڈمز نے کیا خوب کہا کہ میں جنگ کے متعلق پڑھونگا تاکہ میری نسلوں کو دیگر علوم پڑھنے کے لیئے جنگ سے دور رہنا پڑے۔ اگر وہ بھی آج کے پریکٹیکل انسان کی طرح سوچتے تو شاید امریکہ سپر پاور نہیں ہوتی۔ یہ عظیم کردار ہوتے ہیں جو قوموں کو عظیم بناتے ہیں وگرنہ پاکستان جیسے نوآبادیاتی ہجوم میں پریکٹیکل انسانوں کی کمی نہیں لیکن اس گلے سڑے نظام میں ایڈجسٹ کرنے والوں نے ماسوائے دکھ اور غم کے اپنی نسلوں کے لیئے کچھ نہیں چھوڑا۔

خوش قسمتی سے ہمارے سماج میں ایسے کردار ابھرے ہیں، جنہوں نے پریکٹیکل غلامی کی بجائے ایک انقلابی زندگی کو ترجیح دی ہے اور بلوچ نوجوانوں کے لیئے ان کا کردار رول ماڈل ہے، کہیں ہمیں ڈاکٹر اللہ نذر، میر عبدالنبی، استاد اسلم ، واحد قمبر و بشیر زیب بن کر برسرپیکار ملتے ہیں تو کہیں مادر وطن کے سینے میں شہید حمید شاہین، شہید شہک اور شہید بالاچ بن کر ملتے ہیں۔

یہ بھی ایک آسودہ زندگی کے خواہشمند کردار ہیں لیکن انہوں نے اپنی آسودگی کو اپنے آنے والی نسلوں کی آزادی و آسودگی کے لیے قربان کردیا ہے اور جب تک ایسے کردار موجود ہیں یہ جدوجہد جاری رہیگی۔