آئی ایس آئی کی کہانی، شوکت عزیز کی زبانی
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ’ملک کی تقدیر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے، وہ بہت بدقسمی کی بات ہے۔’ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی مرضی کے فیصلے دینے پر انہیں وقت سے پہلے چیف جسٹس بنوانے اور ان کے خلاف دائر ریفرنس ختم کروانے کی پیشکش کی گئی تھی۔
اپنی تقریر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکار ان سے ملے تھے اور کہا تھا کہ اگر وہ ان کی مرضی کے فیصلے دیں گے، تو وہ اُنھیں اس سال ستمبر میں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنوا دیں گے۔ جسٹس صدیقی کے مطابق انھیں کہا گیا کہ ’ہماری مرضی کے فیصلے دو تو تمہیں نہ صرف وقت سے پہلے چیف جسٹس بنا دیں گے بلکہ ریفرنس کو بھی ختم کروا دیں گے۔‘
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے فوج کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ اپنے ضمیر کو گروی رکھنے پر موت کو ترجیح دیں گے۔
اُنھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے انکار کے بعد آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے رابطہ کر کے اُنھیں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر ہونے والی اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس شوکت صدیقی کو شامل نہ کرنے کے لیئے کہا اور یہ بات اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تسلیم کرلی۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’آئی ایس آئی عدالتی معاملات کو مینوپلیٹ کرنے میں پوری طرح ملوث ہے‘۔ اس پر وکلا نے شیم، شیم کے نعرے لگائے۔ آئی ایس آئی کے لوگ مختف جگہ پہنچ کر اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں اور کیسوں کی مارکنگ کی جاتی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ نہ صرف مرضی کے بینچ بنوائے جاتے ہیں، بلکہ یہ بھی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا مقدمہ کون سے بینچ کو بھجوانا ہے۔
پیرس کے مشہور وکیل اور قانون دان اپنے پانچویں بیٹے کو اپنی طرح وکیل بنانا چاہتا تھا لیکن اس نے شاعری، نثر، فلسفہ، طنز و مزاح اور ظرافت کو کمال تک پہنچایا، ہر شعبہ فن میں اپنی ذہانت کی دھاک بٹھائی، سماجی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشان دہی کی، منافقانہ سیاسی نظام شاعروں کے بے عمل کردار اور غیرمعیاری تخلیقات کو طنز کا نشانہ بنایا۔ لکھنے کا ہمیشہ جنون تھا، باپ نے اسے گھر سے نکال دیا اور سب جاننے والوں میں اعلان کردیا کہ میرا پانچواں بیٹا مرگیا ہے کیونکہ وہ وکیل و قانون دان اور عدالتی جج بننے کے بجاہے فلاسفر شاعر اور مفکر بن چکا ہے۔ عجیب بات ہے کہ باپ نے جس بیٹے کے موت کا اعلان کیا، وہ آج بھی ہر انسان کے دل میں زندہ ہے، ساری دنیا اسے آج بھی والٹیئر کے نام سے جانتی ہے اور وکیل باپ کو کوئی نہیں جانتا، میں بھی نہیں جانتا ہوں۔
شاید ذہانت کی وجہ سے والٹیئر اس وقت بھی جانتا ہوگا کہ میں جب وکیل، قانون دان اور جج تو بنوں گا لیکن جسمانی اور روحانی طور پر ہمیشہ غلام بنوں گا، اگر غلامی کو قبول کیا تو پھر دنیا میں ہمیشہ کیلے گمنام رہوں گا۔ قطع نظر وہ والٹیئر پیرس میں تھا، شوکت عزیر پاکستان میں ہے۔ لیکن پھر بھی شوکت عزیز صاحب کی پاکستان جیسے درندوں کے ملک میں حقیقت پسندی کی ایک جلھک کی کھلم کھلا اعتراف کرنا، پاکستانی قوم، خاص کر نام نہاد بلوچ پارلیمانی قوم پرست پارٹیوں کی منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔
جو آج تک یہ نہیں تھکتے ہوہے کہتے آرہے ہیں کہ ہم بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے دروازے کو کھٹکھٹائینگے اور بلوچ مسئلے کو پاکستانی پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرینگے۔
جب کوئی شوکت عزیر اپنے ماں اور باپ کی زندگی کی تمام جمع پونجی سے پڑھ کر اور محنت کرکے قانوں کی ڈگری حاصل کرکے مکمل بلوچ نہیں بلکہ مکمل وفادار پاکستانی ہونے کے ناطے جسٹس بن جاتا ہے، اس کے باوجود پاکستانی آئی ایس آئی کے سامنے اس کی اوقات یہ ہے، جو خود اعتراف کررہا ہے۔ تو پھر بحثیت بلوچ، بحثیت غلام آپ لوگوں کو مراعات اور لالچ کی بنیاد پر آئی ایس آئی خود نام نہاد الیکشن کے ذریعے سلکیٹ کرکے ایم پی، اے ایم این اے اور وزیر و مشیر اور سینیٹر بنواتا ہے۔ پھر آپ خود اندازہ کرلو اور بلوچ قوم اندازہ کرلے کہ پاکستانی ایوانوں اور آئی ایس آئی کے سامنے آپ لوگوں کی کیا اوقات ہوگی؟
آپ بحثیت نام نہاد بلکہ آئی ایس آئی کے منتخب شدہ بلوچوں اور بلوچستان کے غیر حقیقی نمائندے کس طرح اور کیسے بلوچستان میں خون ریز فوجی آپریشن آئی ایس آئی کے ہاتھوں گرفتار شدگان بلوچوں کے لاپتہ ہونے، ماورائے عدالت قتل عام کے حوالے سے آئی ایس آئی کو جوابدہ بنانے اور لگام دے سکتے ہو؟ اور آئی ایس آئی اور فوج کی ہاتھوں بلوچ نسل کشی اور اغواء نما گرفتاریوں کے نا ختم ہونے والے سلسلے کو روک سکتے ہو اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو بازیاب اور رہا کرسکتے ہو؟ جب آپ خود گوکہ بلوچ قوم پرستی کے لبادہ اوڑھ کر آئی ایس آئی کے پالے ہوئے اور پرورش پانے والے مہرے ہو، پھر ان کے سامنے آپ کا کردار اور اوقات کیا ہے؟ جو آپ بلوچ قوم کی آنکھوں میں دھول ڈال کر دن و رات بلند وبانگ انداز میں دعویٰ کرتے ہو؟
آپکے ضمیر و احساس ویسے کب سے مرچکے ہیں، پھر بھی اگر سقراط زمانہ ماضی کے چھوڑ کو کر شوکت عزیز کے اعترافی بیان اور اعلان کے بعد بجائے شرم سے ڈوب جانے کے، ذرا سوچو، اس غیرفطری ملک میں جب ریاست کی اہم ستون عدلیہ کی سینئر جسٹس پنجابی کی خود خفیہ اداروں کے سامنے حالت یہ ہے، پھر آپ غلام قوم کے ایک بلوچ ہوتے ہوئے اوقات کیا ہے؟
کیوں پھر بلوچ قوم کو ابھی تک آپ اتنا بے وقوف سمجھ کر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دھوکے میں جھوٹی تسلیاں دے رہے ہو؟ پھر اخلاقی جرت کا مظاہرہ کرکے تسلیم کرو، ہم بلوچ قوم کی خدمت نہیں اپنے پیٹ کی خدمت کیلئے سب کچھ کررہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔
اب بلوچ قوم کی اوپر یہ بات منحصر ہے کہ وہ اپنے شعور اور ضمیر کی آواز پر لبیک کرکے پاکستان کے تخلیق کردہ نام نہاد الیکشن اور نام نہاد قوم پرست، مفاد پرست و دیگر سب کے سب نمائندوں اور پارٹیوں سے مکمل بائیکاٹ کرکے قومی آزادی کے جہدوجہد کے شانہ بشانہ ہوجائیں، اسی میں بلوچ قومی بقاء، قومی خوشحالی اور قومی نجات پوشیدہ ہے۔
آخر میں شوکت عزیر صاحب کے لیئے میکسم گورکی کی ناول ماں کے مرکزی کردار ناول کے ہیرو پاول کی یوم مئی واقعہ پیش خدمت ہے، جب پافل پر مقدمہ چلتا ہے تو وہ عدالت میں جج کے سامنے زوردار تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “ہم اس نظام کے خلاف ہیں، جس نظام کی حفاظت کے لیئے تمہیں کرسی پر بٹھایا گیا ہے، تم روحانی طور پر اس نظام کے غلام ہو اور ہم جسمانی طور پر، ہمارے اور تمہارے درمیان نظام کی تبدیلی تک کوئی سمجوتہ نہیں ہوسکتا۔”