اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے قائم ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جنگ، پرتشدد واقعات، جرائم اور دیگر وجوہات کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 6 کروڑ 90 لاکھ کے قریب ہے جو مسلسل پانچویں سال ایک ریکارڈ ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کمشنر فلیپو گیرانڈی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال جنوبی سوڈان اور کانگو کے علاوہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بعد بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور 2017 میں 6 کروڑ 85 لاکھ افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مجموعی طور پرمزید ایک کروڑ 62 لاکھ بے گھر افراد کااضافہ ہوا جو روزانہ کی بنیاد پر 44 ہزار افراد کی تعداد بنتی ہے۔
فلیپو گیرانڈی کا کہنا تھا کہ ‘عالمی سطح پر ان اعداد و شمار میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے’۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس کی وجہ تنازعات کے طول پکڑنے اور کوئی حل نہ نکلنے کے علاوہ ان تنازعات کا تسلسل ہے جس کے باعث ان ممالک کے شہریوں پر اپنے گھروں کو چھوڑنے کا دبائو ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر روہنگیا جیسے بحران پیدا ہوجاتے ہیں’۔
ترکی مسلسل چوتھے سال بھی سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک ہے جہاں 2017 کے اختتام تک 35 لاکھ مہاجرین آئے جن میں سے اکثریت شام سے آنے والے مہاجرین کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق امریکا کو گزشتہ برس انفرادی طور پناہ کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جن کی تعداد 3 کروڑ 32 ہزار کے قریب ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جرمنی ہے جہاں ایک کروڑ 98 ہزار کے قریب درخواستیں موصول ہوئیں۔
یواین ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ان ناقص تصورات کی بیخ کنی کررہا ہے جس کے مطابق مہاجرین کے بحران نے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو نقصان پہنچایا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں ہیں جن میں سے کئی ‘انتہائی غریب’ ہیں۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 2017 کے اختتام تک کولمبیا، شام اور کانگو سے 40 لاکھ کے قریب مہاجرین بے گھر ہوئے جبکہ دیگر ممالک سے 2 کروڑ 54 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے اکثر بچوں کی تھی جو کہ 2016 کے مقابلے میں 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
طویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار شام سے 63 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے جو عالمی طور پر ایک تہائی تعداد بنتی ہے۔
شام میں اندرونی طور پر 62 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
یواین ایچ سی آر کے مطابق دوسرے نمبر پر افغانستان ہے جہاں سے 2017 میں 26 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ افغان مہاجرین کی آبادی میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے جن میں سے اکثر کو جرمنی میں پناہ دی جارہی ہے۔
یورپ اور امریکا کے علاوہ 85 فیصد مہاجرین لبنان، پاکستان اور یوگنڈا جیسے کم آمدنی والے ممالک میں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان سے بھی بڑی تعداد میں نوجوانوں نے نقل مکانی کی جو سال کے ابتدا میں 14 لاکھ تھی اور سال کے آخر میں 24 لاکھ ہوگئی۔
یواین ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ میانمار سے نقل مکانی کرنے والے افراد میں دگنا 12 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق، صومالیہ اور دیگر ممالک سے بھی بڑی تعداد میں شہریوں نے نقل مکانی کی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری ریاستی جبر کے باعث 54 لاکھ افراد اب بھی مہاجرین کی صورت میں رہنے پر مجبور ہیں۔