بلوچ تحریکِ آزادی کمزوریوں اور ناکامیوں کے اسباب – اوتان بلوچ

290

بلوچ تحریکِ آزادی کمزوریوں اور ناکامیوں کے اسباب

پہلی قسط

اوتان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی تحریک کسی کی دلی خواہش یا فرمائش سے نہیں چل سکتی ہے بلکہ ہرایک تحریک کو چلانے کے لیئے اُس خطے کی جغرافیائی، سیاسی، معاشرتی اور معروضی حالات کو مدِ نظر رکھ کر تحریک کو آگے بڑھایا جاسکتاہے۔ اسکے ساتھ ہی اس نکتے کی بھی بہت ہی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ جس خطے، ملک یا علاقے کے اندر جوتحریک چل رہی ہے وہاں پر موجود اقوام وہاں کے لوگوں کی نفسیاتی سطح کو مدنظررکھیں، کہ اُس قوم کی کیا تاریخی، ثقافتی اور نفسیاتی پس منظر ہے، اُنکے اندر کونسی خوبیاں اور کونسی خامیاں ہیں، وہاں کے لوگ کن باتوں سے جلدی جذباتی ہوتے ہیں اور کن باتوں سے جلدی خوش اور کس طرح کے رویے سے ناراض ہوتے ہیں، اُن میں قبیلہ پرستی، شخصیت پرستی، ذات پرستی یا اناپرستی اور نرگسیت کس حد تک ہے۔ ان سے بڑھ کریہ کہ اُس قوم کی نفسیاتی مطالعے میں اس رویے کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے کہ جس قوم یا جس ملک کے لوگوں کے لیئے آپ جو تحریک چلارہے ہو، چاہے وہ سرفیس پر کوئی سیاسی تحریک ہوجیسے کہ آج کل پشتون تحفظ مومنٹ دوسرے الفاظ میں منظور پشین کی تحریک ہے یہ سرفیس گراونڈ پر موجود ایک احتجاجی تحریک ہے۔

اس طرح کی تحریکوں میں سے ایک تحریک مسلح جدوجہد (ہتھیاربند/سلح بندتحریک) بھی کہلاتی ہے، جسے زبانِ زدِ عام میں گوریلا جنگ بھی کہتے ہیں۔ جسطرح کیوبا میں چی گویرا اور فیدرل کاسترو کی تحریک کافی مشہور ہے یا سری لنکا میں تامل باغیوں کی تحریک کو بھی لوگ تاریخی طورپر اب تک یاد کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ تامل باغیوں کی یہ تحریک آخر کار ناکام ہوکر ختم ہوئی۔ اس طرح کی کوئی بھی تحریک چلانے سے پہلے یہ جائزہ ضروری ہے کہ آپ کے خطے میں موجود لوگوں کی اکیڈمک اَپروچ کس سطح پر ہے یعنی اُن میں شعور،علم وآگہی کس حدتک پایا جاتاہے۔ کیا اُن میں اتنا شعور ہے کہ وہ کسی تبدیلی کو آسانی سے قبول کرسکیں یا اپنے پُرانے آباواجداد کی روایات کو دائمی طور پر آنکھوں سے لگاکر اُنہی فرسودہ روایات کو مقدس ومحترم جان کر تاابد ’’لات ومنات ‘‘ کے پوچا پاٹ میں خوش ہوکر اسی خوش فہمی میں اپنی ساری عمر تباہ وبرباد کرتے ہیں کہ جی بس ہمارے آباواجداد نے جوروایات اپنائے تھے یا جو طرزِ زندگی اپنائی تھی، وہ دوسرے تمام اقوامِ عالم سے بالاتر وبہتر ہے؟ یعنی آج سے تین سوسال پہلے میرا پیروک اونٹ پر ہل باندھ کر کھیتی باڑی کرتاتھا، تو میں وللہ کہ ٹریکٹر کو ہاتھ لگاوں کیونکہ میرے پیروک کا فرمان تھا کہ اونٹ کے ہل میں خیر وبرکت ہے۔ اس سے فصل میں دوگنا اضافہ ہوتاہے۔

یہ ایک ایسی نفسیات ہے، جو اجتماعی طورپر کسی بھی قوم کسی بھی معاشرے میں اُسکی شعوری و فکری ارتقاء کو روک کر اُسے صدیوں تک ایک ہی کھڈے میں کنویں کی مینڈک کی طرح قید کرتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتاہے کہ وہ معاشرے دائمی طورپر ایک محدود سوچ کے دائرے میں بس اپنے ہی قبیلے اور علاقے تک محدود رہتے ہیں اور اسطرح کی محدود سوچ کسی بھی قبیلے میں اُنکے جو کماش ہوتے ہیں، جنہیں ہم سردار ونواب کہتے ہیں وہ دانستہ پھیلا دیتے ہے۔ جیسے کہ ہمارے یہاں نواب خیر بخش مری اور اُسکے خاندان اور قبیلے کی بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں قربانیاں لازوال ہیں کہ ایک شہزادہ بالاچ خان مری کی شہادت وقربانی کا مَٹ ومثال ہم پوری بلوچ تاریخ کی ماضی اور حال میں نہیں دے سکتے کہ بالاچ خان مری نے اپنی آسائشوں سے لیس زندگی بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی کامیابی وسرسوبی کے لیئے قربان کردی۔ تمام تر مراعات وسرکاری منصب و لالچ پر مٹی ڈال کر اسی تحریک کے لیئے اُن خشک وسنگلاخ پہاڑوں کے چٹانوں اور گھاٹیوں کارُخ کیا، جن کے بارے میں اُسے بخوبی آگہی تھا کہ اس راستے پر خاک پسری، دربدری، بھوک، پیاس، آبلہ پائی اور خواری ہی خواری ہے۔ لیکن دوسری جانب نواب خیر بخش مری کا جوعلاقہ یا قبیلہ ہے، ان میں ابھی تک پچانوے فیصد ناخواندگی عام ہے۔ باقی جو پانچ فیصد ہمیں مریوں میں تعلیم یافتہ ملتے ہیں اُنہی سے ہمیں شہید بالاچ خان مری، صورت خان مری اور ڈاکٹر شاہ محمد مری جیسے دانشور ملتے ہیں۔ کیا نواب مری اپنی مدد آپ کے تحت اپنے قبیلے کو تعلیم نہیں دلواسکتاتھا؟ کیااُنکے لئے کوئی اسکول یا تعلیمی ادارہ نہیں کھول سکتاتھا؟ کہ آج بھی سادگی میں مریوں کی مثالیں ہر محفل میں دیئے جاتےہیں اور بلوچ قومی تحریک میں سب سے سے زیادہ خوار ودرپدر مری او ر بگٹی قبیلہ ہوئے ہیں۔ آج بھی آپ سندھ کی اُس پٹی کی جانب جاؤجو بلوچستان کی مشرقی سرحد کے ساتھ لگتی ہے، وہاں پرآپ کو مری اور بگٹی کے مردوخواتین سب سے کم اُجرت پر مزدوری کے لئے ملینگے۔ اسی طرح کوئٹہ ہزار گانجی اور آس پاس کے دیگر شہروں اور کوئٹہ بازار میں اکثر مری اوربگٹیوں کے بچے اور عورتیں بھیک مانگتے ملینگے۔ ان سب کا ذمہ دار مری قبیلے کا نواب مری صاحب ہے کیونکہ انہوں نے تحریک شروع توکی لیکن تحریک کے پیچھے جو معاشی تباہ کاریاں ہوتی ہیں، اسکو نظرانداز کیا اسکے لئے کوئی نعم البدل کا سوچاہی نہیں۔

یہی رویہ ہمیں نواب اکبرخان بگٹی کے یہاں بھی ملتا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی اس دور میں غاروں کے اندر یا جھونپڑیوں میں زندگی گذارتے نظر آتےہیں، معاشرتی طرز عمل میں تبدیلی کا رفتاروہی آج سے صدیوں پہلے والی طرززندگی پر رکا ہوانظرآتا ہے کہ بارش کی پانی کا انتظار کھیتی باڑی یا گلہ بانی (مالداری ) پر ہے، یعنی صدیاں گذرگئے مری اوربگٹی علاقوں میں نہ کوئی مارکیٹ ہے، نہ ہی اس پُرانے زریعہ معاش، گلہ بانی اور کھیتی باڑی کے ساتھ کوئی اور کاروبار۔ ان دونوں نوابوں نے اپنے بچوں اوربچیوں کو لندن، روس اور یورپ کے دیگر علاقوں میں اچھی تعلیم دی اور آج بھی انکے بچے حیربیارمری، مہران مری، جاویدمینگل، نوردین مینگل، براہمداغ بگٹی وغیرہ کی شکل میں بمعہ اپنے فیملی کے یورپ کے مزے لے رہے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ انہیں اپنے بچوں اوربچیوں کو تعلیم کی غرض سے یورپ بھیجنا نہیں چاہیئے تھا، ہم یہ کہتے کہ اپنے قبیلے کے دیگر افراد کے لیئے یورپ نہ صحیح یہی کوہلو، کاہان، ڈیرہ بگٹی میں کوئی اچھا اسکول تو کھول دیتے۔ انہیں بھی تعلیم کی طرف راغب کرتے، کم ازکم آج یہ لوگ عزت کی روٹی تو کھاتے۔ یہی حالات جھالاوان کے سرداروں کے یہاں بھی پائی جاتی ہے،سردار عطاء اللہ خان مینگل اور غوث بخش بزنجوکے ہاں ہوبہو یک رنگی رویہ۔ میں سوچتاہوں کہ شاید ان چاروں دوستوں نے ایک ساتھ بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ اپنے بچوں کو پڑھاناہے، اسی بہانے انہیں یورپ بھیجنا ہے اور باقی قوم کو ایک زبردست جذباتی نعرہ (’’ ہم لے کے رہینگے آزادی، تجھے دینی پڑیگی آزادی، تیرا باپ بھی دیگا آزادی/ مجھے کھبی کھبی بی ایس او آزاد کے جلوسوں میں مشاہدے کےلیئے شرکت کا اتفاق ہوتاتھا، جیسے حمایتِ سرمچاران ریلی، توان ریلیوں میں بی ایس اوآزاد کے جیالوں سے یہ نعرہ ہمیں اس شکل میں بھی سُننے کوملتاتھا’تیرا ماں بھی دیگاآزادی !‘‘) دے کر پہاڑوں پر لڑنے کے لیئے بھیجتے ہیں۔ ان چاروں سرداروں اورنوابوں کے اسی رویے سے اختلاف رکھتے ہوئے تو گل خان نصیر ان سے الگ ہواتھا ( لوگ گل خان نصیر کی علیحدگی کو اور رنگ دیتے ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن جہاں تک میں نے اُس سیاسی پس منظر کو مطالعہ کیا ہے، مجھے یہی رویہ نظریہ آیا ) کہ گل خان نصیر نے ان سے کہا تھا کہ یہ کونساطریقہ ہے کہ قوم کے بچے پہاڑوں میں آپ لوگوں کے کہنے پر لڑنے مرنے کےلیئے جائیں اور آپ لوگوں کے بچے یورپ اور روس میں عیاشیاں کرتے پھریں۔ اسطرح نہیں ہوسکتا۔

گل خان نصیر چونکہ کوئی سردار یا نواب نہیں تھا اور اُس نے شروع دن سے سرداروں کو بلوچ قوم کی شعوری، نظریاتی، سماجی، نفسیاتی اور سیاسی ترقی کا دشمن کہا ہے، انہیں اُن استحصالی قوتوں کے ساتھ جوڑاہے، جوہرسطح پر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ اس حوالے گل خان نصیر کے بے شمار اشعار موجود ہے جوسرداری نظام اور سرداروں کے خلاف ہیں۔
سرداروں کی بستی نے بلوچوں کو مٹایا
سرداروں کے سر‘کومیں سرے دار چڑھا دوں
__
راج کرے سردار رے بھیا
__

آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کے میرا موضوع بلوچ تحریک آزادی کی کمزرویوں کے اسباب اور میں کہاں لفظوں کے طوفاں میں اپنا مہاری بھگارہاہوں، دراصل میں ان وجوہات کی ایک پوری تاریخی پس منظر اپنے پڑھنے والوں کے سامنے لانا چاہتاہوں۔

ان نوابوں اور سرداروں نے گوکہ بلوچ سیاست اور بلوچ قومی تحریک میں اپنے فرزندوں تک کو قربان کیا لیکن دوسری جانب دانستہ یا غیردانستہ طورپر انکے اپنے قبیلے اور علاقے تعلیمی، شعوری اور سیاسی شعورکے حوالے سے ابھی تک انتہائی پسماندگی کے شکارہیں۔ وڈھ جوکہ سردارمینگل کا علاقہ ہے، یہاں کے لوگوں کی سادگی تو مریوں سے بھی زیادہ مشہورہے۔ ہمارے یہاں اگر کوئی بندہ کسی بھی کام میں اپنے آپ کو انجان ظاہر کرے تواُسے براہوئی میں کہا جاتاہے’’ یار وڈھ والاتا وڑ سادہ کپہ تینے ‘‘:

وڈھ میں رہنے والے لوگوں کا معاشی زریعہ بھی گلہ بانی اور کھیتی باڑی ہے، حالانکہ وہاں سے ایک اہم شاہراہ کراچی کوئٹہ سے منسلک گذرتاہے جو ہوٹلنگ اور دیگر حوالے سے کاروبارکےلیئے ایک مناسب ذریعہ ہے، لیکن اس شاہراہ پر آپ کو کسی مینگل کا ہوٹل، دکان یا پڑول پمپ نظرنہیں آئے بلکہ اس کاروبار میں چمن اور ژوپ کے پٹھان نظرآئینگے اور وڈھ کے معصوم بچیاں، اس شاہراہ پر آپ کو بھیک مانگنے کے لئے روڈ کنارے اپنے بوسیدہ کپڑوں اورننگے پیروں کے ساتھ ملینگے یا پھر اس شاہراہ پر وڈھ کے لوگوں کے بکریاں اور اونٹ یہاں وہاں چرتے ہوئے نظرآئینگے۔ تعلیم زندگی کی کسی بھی شعبے میں ترقی کا ضامن ہوتاہے، گلہ بانی تو یورپ میں بھی ہوتاہے لیکن وہ گلہ بانی جسطرح کے آسڑیلیا میں ہوتاہے، وہ آپکے سعودی اورامارات سے منسلک ہے کہ تیس لاکھ حاجی جوہرسال مکہ معظمہ میں جانوربطورِ قربانی حلال کرواتے ہیں وہ سارے آسٹریلیاسے آتے ہیں۔ لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وڈھ کے لوگوں کوفارمنگ اور گلہ بانی کے جدید کاروبارکا کیا پتہ۔ اب جاکہ سردار مینگل نے وڈھ میں ایک پرائیوٹ اسکول کھولا ہے اور سی پیک کے حوالے سے سرداراخترجان مینگل نے جسطرح شورشرابا کیا تو احسن اقبال (سابقہ وزیرداخلہ ) پاکستانی اسٹیبلمشنٹ کے کہنے پر وڈھ تشریف لائے کہ سردارصاحب ہم آپکو ایک یونیورسٹی دینگے۔ آپ ہمیں زمین دے دیں، تو سردارصاحب نے ایک زمین جوکہ لازمی بات ہے تاحال ویران ہوگا، اُسکا افتتاح یونیورسٹی کے نام سے کیا ہے۔

غوث بخش بزنجو انتہائی پڑھا لکھا تعلیم یافتہ بلوچ لیڈر، لیکن اُسکے علاقے کی بھی حالت وہی صدیوں پرانی طرز معاشرت اور روایاتی رفتار پر چل رہی ہے، کوئی تبدیلی نہیں۔ بس اُسکے خاندان کو علاقے سے ملنے والی معدنیات جوکہ قیمتی پتھروں کی شکل میں پائے جاتے ہیں، انہیں بیچ کر ہفتوں میں کروڑں کا رقم ملتاہے۔

اس بڑے تعلیم یافتہ بزنجوکی اپنے لوگوں کے ساتھ رویے کا یہ مثال کہ جب انہیں کہا گیا کہ ششک کہ نمبر پر جو ٹیکس کسانوں سے سالانہ لیا جاتاہے، یہ تو سوشلزم سے متصادم اور ان غریب مزدوروں اورکسانوں کے ساتھ ایک بڑا ظلم ہے، تو بزنجو نے کہا کہ باقی تمام باتیں اپنی جگہ لیکن ششک کی خاتمے کے حوالے سے بات نہ کریں، کیونکہ اس میں بزنجو صاحب کا مفاد تھااور یہ ششک آج تک چل رہاہے، تیار فصل سے کسان کی محنت وخواری کا چھٹا حصہ گھربیٹھے سردارکو ملتاہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم میں تعلیم کی کمی ہوگی تو اُسکی معیشت انتہائی کمزورہوگی اور ایک کمزورمعیشت کے سہارے آپ کوئی جنگ وہ بھی ایک طاقتورریاست سے لڑنہیں سکتے اور انہوں نے یہی کیا، معیشت کے ذرائع اور شعبے پر بلکل توجہ ہی نہیں دی اور اسی کمزور معیشت کے ساتھ قوم کو جنگ میں دھکیل دیا، رزلٹ آپ لوگوں کے سامنے ہے۔

دوسری بات تعلیم کی اہمیت کی یہ ہے کہ آپ اگر اپنے قوم کو تعلیم دینگے تو وہ دوسرے لوگوں سے دوسری دنیا سے تعلیم کی بدولت منسلک ہوجائیں گے۔ تعلیم ہی کے بدولت آپ انہیں سیاسی شعوردے سکیں گے۔ بی ایس او آزاد، بی این ایم نے اپنے دورِ عروج میں تحریک کے حوالے سے ایک حدتک لٹریچر پر کام کیا، کتابیں اخبارات اور رسائل شائع کیئے لیکن ان سے پوچھا جائے کہ آپ لوگوں کے تنظیمی ممبران کے علاوہ انہیں عام لوگوں نے کس تک پڑھا، مطالعہ کیا اور اُنکا فیڈ بیک کیا تھے؟ ظاہر سی بات ہے زیروبٹا زیرو۔ وڈھ ، مری ، بگٹی کے رہنے والے عام شوان و کسان تواپنی جگہ آپکے ہتھیاربند جنگ میں شریک بگٹی، مری، مینگلوں نے بھی سگار، سنگر، ہمگام، گروک اور آزاد کو نہیں پڑھا ہوگا کیونکہ وہ اپنے سردار کے حکم کو ان سے بالاتر سمجھتے ہیں، جسطرح کہ اُنہوں نے انکی ذہن سازی کی ہے۔

مریوں کا ایک واقعہ بہت مشہورہے کہ ایک تبلیغی جماعت اُن کے علاقے میں گیا، گاوں کے لوگوں کو مسجد میں جمع کیاگیا اور اپنے طریقے سے شش نمبر بیان کرتے ہوئے ایک تبلیغی حضرت نے خداِ پاک کی وحدانیت اور بڑائی بیان کرتے ہوئے کہا کہ خداِ پاک اتنابڑا ہے انہوں نے بڑے بڑے پہاڑپیداکیئے، بڑے بڑے سمندر اوردریاپیداکئے۔۔۔۔۔۔
یہ سُنتے ہی ایک مری نے دوسرے مری سے اپنے زبان میں کہا ’’اے تام سڑدارگَف آ جَنگااِنت ‘‘ یہ کونسی سردار کی بات کررہاہے۔
یعنی اُنکے سامنے اگر کوئی بڑا ہے تو صرف سردار ہے اور کوئی نہیں۔
(جاری ہے )